لیاقت علی ایڈووکیٹ
امیر جماعت اسلامی سراج الحق مولانامودودی کی طرح نہ تو مذہبی اسکالر ہیں اور نہ ہی وہ پروفیسر خورشید احمدکی طرح دانشوری کے مدعی ہیں۔ وہ سیدھے سادے سیاسی ورکر ہیں۔ انھوں نے اپنے سیاسی کئیر ئیر کا آغازاسلامی جمیعت طلبا سے کیا تھا اوراس کے اعلیٰ ترین عہدے ناظم اعلیٰ پاکستان تک پہنچے تھے۔
سراج الحق جماعت کو مین سٹریم سیاسی جماعت بنانے پر کمر بستہ ہیں اوراس مقصد کے حصول کے لئے وہ ادھراُدھر کی ہانکتے رہتے ہیں۔ اپنے تازہ بیان( مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس) میں سراج الحق نے فرمایا ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے پانچ عشروں تک عوام کا استحصال کیا ہے۔ ان پارٹیوں کے لیڈروں کی جائدادوں اور فیکٹریوں میں اضافہ ہوا ہے لیکن انھوں نے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کچھ نہیں کیا۔
پیپلز پارٹی کے قیام کو بلا شبہ پچاس سال ہوگئے ہیں لیکن مسلم لیگ ن موجود شکل و صورت میں بمشکل تیس سال کی ہوئی ہے۔ یہ دونوں پارٹیاں مختلف اوقات میں بر سر اقتدار رہی ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں پارٹیاں عوام کو درپیش حقیقی مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہیں لیکن سراج الحق کو یار دکھنا چاہیے کہ ان کی جماعت بھی گذشتہ چالیس سالوں سے مختلف صورتوں میں اقتدار کا حصہ رہی ہے اس نے عوام کے لیے ایسا کیا کیا ہے جس کی تعریف و توصیف کی جائے۔
جنرل ضیا کے مارشلائی دور میں وہ بلا واسطہ اور بالواسطہ طور پر گیارہ سال تک اقتدار کےایوانوں میں موجود رہی لیکن جنرل ضیا کے آمریت کو مختلف حیلوں بہانوں سے طوالت دینے اور مضبوط کرنے کے سوا اس نے کچھ نہیں کیا تھا۔ وفاقی کابینہ میں ان کی جماعت کے رہنما کلیدی وزارتوں پر برا جمان رہے تھے لیکن عوام کے حق میں نتیجہ صفر رہا۔
پرو فیسر خورشید احمد ایک لمبے عرصے تک چئیر مین پلاننگ کمیشن کے عہدے پر فائز رہے ہیں۔ ان کی کارکردگی کا جائزہ بھی سراج الحق کو عوام کے سامنے پیش کرنا چاہیے تاکہ عوام جماعتی عہدیداروں اور پی پی پی اور ن لیگی کے کار پردازوں کے مابین کارکردگی کے حوالے سے تفریق کر سکیں۔
جماعت اسلامی جمہوری اتحاد میں شامل ہوکر وفاقی حکومت کا حصہ رہی تھی۔ اس دور میں جماعت کی کارکردگی پر بھی بات ہونا چاہیے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں جماعت ایم ایم اے کی شکل خیبر پختون خواہ کی حکومت میں شامل تھی۔سنئیر وزیر کا عہدہ جماعت کے پاس تھا اور خود سراج الحق اس عہدے پر فائز تھے۔ وہ بتائیں انھوں عوامی خدمت کے حوالے سے کون سا معرکہ سر کیا تھا جسے وہ فخریہ بیان کرسکتے ہیں۔ اس وقت بھی ان کی جماعت خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف کے ساتھ مخلوط حکومت کا حصہ ہے اس حوالے سے ان کی کارکردگی کیا ہے اس کا تقابلی جائزہ وہ پیش کریں تاکہ عوام کو ان کی جماعت کی ّاعلیٗ کار کردگی کا اندازہ ہوسکے۔
جہاں تک جائدادوں اور فیکٹریوں میں اضافہ والی بات ہے تو خود وہ اپنے اردگرد نظر ڈالیں تو انھیں پتہ چل جائے گا کہ کچھ سال پہلے جماعت کے جن عہدیداروں کے پاس سائیکل یا سکوٹر ہوا کرتے تھے آج کل وہ نئے ماڈل کی گاڑیوں میں گھومتے ہیں۔ لاہور کی کلفٹن کالونی میں پانچ مرلے کے گھر میں رہنے والے عہدیدار مسلم ٹاون کے علاقے میں منتقل ہوچکے ہیں۔
میانوالی سے لاہور منتقل ہونے والے جماعتی عہدیدار اس وقت لاہور کی مہنگی ترین آبادیوں میں سے ایک ازمیر ٹاون میں انتہائی قیمتی گھر میں رہائش پذیر ہیں۔ جماعت کے نام پر یا اس کے زیر انتظام تعلیمی اداروں سے حاصل ہونے والی فیسوں اور دیگر ذرائع سے حاصل ہونے آمدنیوں سے کون مستفید ہوتا ہے؟ سراج الحق صاحب کو یہ کچھ بھی عوام کو بتانا چاہیے۔
♦