افریقہ اور برصغیر ہندوپاک کی طرح آسٹریلیا کے کسان بھی خشک سالی،غربت اوردیوالیہ پن کا شکار ہو کرڈپریشن اورخودکشی کے میلانات کا شکار ہونے لگ گئے ہیں۔اس پر مستزادپاورپروڈکشن کا مسئلہ بھی نہ صرف دیہی بلکہ شہری علاقوں کے لئے مستقبل قریب میں شدت اختیار کرتا نظرآرہا ہے۔حال ہی میں ایک ریاستی حکومت نے عندیہ دیا ہے کہ وہ ’’رضاکارانہ لوڈ شیڈنگ‘‘کرنے والے بجلی کے صارفین کوانعامات سے نوازنے کی سکیم بھی شروع کرنے کے بارہ میں سنجیدگی سے سوچ رہی ہے۔
اس کے علاوہ باقاعدہ قانون سازی کر کے کسانوں کو اس بات پہ آمادہ کیاجا رہا ہے کہ وہ سولر فارمنگ یعنی شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ لگا کرخود کو اور پورے آسٹریلیا کو بجلی کی پیداوار میں خود کفیل کردیں۔سولرفارمنگ سکیم میں حصہ لینے والوں کو حکومت کی طرف سے سبسڈی ،گرانٹ،جی ایس ٹی میں چھوٹ،تکنیکی سہولیات و رہنمائی،آسان شرائط پہ قرضے بھی فراہم کئے جائیں گے۔واضح رہے کہ آسٹریلیا کے اکثرعلاقوں میں سورج کی روشنی تقریباً سارا سال ہی خوب وافرمقدار میں دستیاب رہتی ہے۔
ایک درمیانہ درجہ کے پرایؤیٹ سولر فارم سے چارسوکلوواٹ سے ایک میگاواٹ تک کی بجلی باآسانی پیداہو سکتی ہے جو کسی بھی کسان کی گھریلوضروریات پوری کرنے کے علاوہ اس کا ٹیوب ویل بھی چلا سکتی ہے،جس سے خشک سالی اور قحط کا مداوا ہوسکتا ہے۔یہی نہیں بلکہ استعمال سے بچ رہنے والی زائدبجلی ہمسائیوں اور حکومت کو بھی فروخت کی جاسکتی ہے جو ایسے کسانوں کے لئے اضافی آمدن اور مالی خوشحالی کا ذریعہ ثابت ہوگی۔بہت سے آسٹریلین کسان حکومت کی اس پیشکش سے فائدہ اٹھانے پہ آمادہ ہونا شروع ہو گئے ہیں اور بعض علاقوں میں اب کئی کئی ہیکٹرکی بنجر زرعی زمین سولر پاورپلانٹ کی’’کاشتکاری‘‘کے لئے مختص ہو چکی ہے۔
اس کاشتکاری کے لئے کسان کو نہ توباربار زمین میں ہل یا ٹریکٹر چلانا پڑتا ہے،نہ بیج بونا پرتا ہے،نہ اسے طرح طرح کی کھاد اور جراثیم کش سپرے یاکیڑے مار ،سنڈی مار،چوہا مار ادویات کا اضافی خرچ اٹھاناپڑتا ہے اور نہ ہی تیار فصل کی کٹائی،مارکیٹ میں رسد،ٹرانسپورٹ،اور آڑھت،غلہ منڈی کے ٹھیکیداروں اور ان کے ایجنٹوں کے نخرے یا بلیک میلنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
آسٹریلیا کی طرح پاکستان کے بیشتر علاقوں میں بھی دھوپ ساراسال اچھی خاصی مقدار میں رہتی ہے۔ذرائع کے مطابق پاکستان کے سرکاری ادارہ الٹر نیٹو انرجی ڈیویلپمنٹ بورڈنے ورلڈ بینک کے تعاون سے پاکستان کو شمسی توانائی کی دستیابی کے حوالہ سے زونوں میں تقسیم کرکے اس کی نقشہ بندی ( سولر میپ)تیار کر لی ہے۔
اس نقشہ کے مطابق بلوچستان کے جنوب مغربی علاقے شمسی توانائی کی دستیابی کے حوالہ سے دنیا بھر میں ٹاپ پر ہیں۔یہاں شمسی تابکاری کی سالانہ اوسط جرمنی سے کہیں زیادہ پائی گئی ہے جودنیا بھر میں شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنیوالے ممالک میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ستر برسوں میں پاکستان چین کے تعاون سے فی الحال صرف ایک سولر فارم(قائداعظم سولرپارک)قائم کر سکا ہے جو بہاولپور میں ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ارباب اختیارواقتدار عام آدمی بشمول کسان و دیہی آبادی کے لئے سولر انرجی اور سولرفارمنگ تک رسائی کو دنیا کے دیگرممالک کی طرح باقاعدہ قانون سازی کرکے آسان اورممکن بنائیں تاکہ غربت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا جہالت کا اندھیراجلد ازجلد چھٹ سکے۔
طارق احمدمرزا