علی احمد جان
ریاست کا آغاز اسی دن ہوا تھا جب انسان نے زمین کی ملکیت کے لئے لکیر کھینچی ۔ زمین کی ملکیت پیدا وار کے لئے اس وقت زیادہ ضروری ہوگئی جب انسان نے کاشتکاری کا آغاز کیا اور جانوروں کو پالنا شروع کیا۔ کاشتکاری کے لئے ایسی زمین کی ضرورت پڑی جہاں پانی موجود ہو اور موسم موافق ہو ۔ لوگ دریاؤں اور ندی نالوں کے ساتھ آباد ہونا شروع ہوئے اور جب آبادی بڑھنے لگی تو زمین کی حدود بھی وسیع ہوتی گئیں۔ گھر سے گاؤں اور پھر شہر آباد ہوگئے اور تہذیب کی ارتقاء کا آغاز ہوگیا۔
انسان نے شکار پر گزارہ کرنے کے علاوہ فصل اگانا اور جانور پالنا شروع کیا تو زمین کی ملکیت کو قائم رکھنے کے لئے طاقت کی اہمیت بڑھ گئی۔ خاندان کے تصور کے ساتھ کفالت کہ ذمہ داری اب مرد پر ان پڑی تو سربراہی بھی مردوں نے کی جو عورتوں کے مقابلے میں جسمانی طور پر زیادہ طاقتور تھے۔ مدر سری نظام سے معاشرہ پدر سری نظام میں خاندان قبائل بن گئے۔ پدر سری نظام کو قائم رکھنے کے لئے ایک نظم بھی قائم ہوا جس میں حکم دینے والے اور حکم بجا لانے والوں کے کردار متعین ہوگئے۔
جب خاندان وسیع ہوئے تو تقسیم بھی ہوئے اور ملکیت کے تنازعے بھی کھڑے ہوئے لڑائیاں بھی ہونے لگیں کبھی آپس میں اور کبھی دوسروں کے ساتھ۔ یہاں سے سےجوڑ توڑ بھی منظم ہونے لگی تو خاندانوں کے گروہ اور قبائل کے آپس میں اور دوسروں کے ساتھ دوستی اور دشمنی کے رشتے استوار ہونے لگے ۔ خاندان کے اندر طاقتوروں کے درمیان سربراہی کے لئے مقابلہ تھا تو قبائل کی سرکردگی کے لئے خاندانوں میں مقابلہ تھا۔ اس مقابلے کے لئے تیاری اور مسابقت کے لئے جوڑ توڑ کی شکل میں سیاست کا بھی آغاز بھی ہو گیا۔
جب شہر اور گاؤں وجود میں آگئے تو پیچیدہ معاملات کو خوش اسلوبی سے چلانے کے لئے زیادہ منظم حکومتوں کی ضرورت تھی۔ اب لڑنے والے، کاشتکاری کرنے والے، حکومت کرنے والوں کی درجہ بندی ہوئی تو مذہب میں راہنمائی کرنے والے بھی پیدا ہوگئے ۔ تجارت کے لئے اجناس کے بدلے اجناس کے بجائے دھات کے سکوں کا میعار بنا لیا گیا ۔ اس معاشرتی نظم کو قائم رکھنے کے لئے ایک ضابطے کی بھی ضرورت محسوس ہوئی۔
حکمرانی کے قدیم ضابطوں میں اقتدار اعلیٰ کسی معبود کے لیے ہوتا تھا جس کی مرضی و منشا سے ہی لوگوں پر حکومت کرنے کا جواز ڈھونڈ لیا گیا ۔ ارتقائی عمل کے ساتھ انسانوں کے معبود بھی بدل گئے تو مدر سری نظام سے پدر سری نظام کے ساتھ معبودوں کے جنس اور پیداواری ذرائع کے ساتھ معبود وں کی نوعیت بھی بدل گئی۔
زمین پرتپش سے فصل اگنے لگی تو کہیں سورج کو دیوتا مانا گیا اور سمندر کے مدو جزر کو چاند سے وابستہ دیکھ کر کہیں چندر ماتا کی پوجا ہوئی ۔ زلزلے، بارش، طوفان اور دیگر قدرتی آفات کو آسمان کی وسعتوں میں بیٹھے خداؤں کے قہر سے تعبیر کرکے ان کی خوشنودی کے لئے چڑھاوے ہوئے اور قصیدے پڑھے جانے لگے۔ جہاں شہر اور سماج منظم ہوتا گیا وہاں معبود، عبادات اور معبد بھی منظم ہوگئے اور وقت کے ساتھ یہ بھی انفرادی سے ایک اجتماعی اور گروہی معاملہ بن گیا جس کی وجہ سے عبادات کے لئے بنائے معبد طاقت کے مراکز بن گئے۔
سماج میں حقوق اور فرائض کےتعین کرنے کے لئے ہمیں پہلے باضابطہ قوانین جو اہل بابل کے ہاں سے ملے وہ دو سے تین ہزار سال سال قبل مسیح کے ہیں۔ بابل میں ملے قوانین دنیا کے پہلے ضابطے نہیں تھے مگر اس سے پہلے کے ضابطے لکھے ہوئے نہیں ملتے ہیں اس کی بڑی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس وقت انسان نے یا تو لکھنا نہیں سیکھا تھا یا کسی انمٹ شے پر لکھنے کی تردد نہیں کی یا پھرلکھی ہوئی تحریریں زمانے کے تغیر کے ساتھ مٹ چکی ہیں۔ قدیم قوانین میں جو مشترکات ہیں ان میں بادشاہ اور ریاست کے لامحدود اختیارات ، اشرافیہ، عورت اور غلاموں کی حیثیت اورسزاؤں کی نوعیت شامل ہے۔
دریافت شدہ تحریروں میں حمورابی کے قوانین قابل ذکر ہیں جن کے آغاز میں کہا گیا ہے کہ اس نے آسمانی دیوتاؤں کے حکم سے یہ قوانین بنائے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دو سے تین ہزار سال قبل مسیح سماج کے بابل کے نظم میں مذہب ایک کلیدی حیثیت اختیار کر چکا تھا جس میں ہر شعبے اور ہر کام کے الگ الگ دیوتا تھے جن میں سے انصاف کے بھی دیوتا تھے ۔
انفرادی اور اجتماعی مصائب اور مشکلات سے نجات کے لئے دیوتاؤں اور خداؤں کی مدد کے لئے مصر کی تہذیب میں مذہب کے ساتھ جادو ٹونہ شامل ہوگیا تھا ۔ فراعین مصر کے دور میں جادو کرنے والوں کی ایک کثیر تعداد تھی جو اپنے علم اور ہنر سے لوگوں کو اپنے معتقد بنا لیتے تھے۔ جب ایسے جادو گر وں کی تعداد بہت زیادہ ہوئی لوگ بادشاہ سے زیادہ ان جادو گروں کی بات ماننے لگے تو ایک فراعون کو رعایا کے ریاست سے باغی ہونے کا خدشہ لاحق ہو گیا ۔ بادشاہ نے تمام جادو گروں کو تہہ تیغ کرنے کے بعد فرمان جاری کیا کہ آسمان پر صرف ایک ہی خدا کا وجود ہے جس کا زمین پر نمائندہ وہ خود ہیں اس کے علاوہ سارے معبود اور جادو گر جھوٹے ہیں جن کی عبادت ہر گز جائز نہیں۔ یوں مصر کی تہذیب سے ایک خدا کے تصور نے جنم لیا (بحوالہ :علی عباس جلال پوری) ۔
دیگر تہذیبوں کا ہمیں زیادہ علم نہیں مگر مشرق وسطیٰ میں جنم لینے والی بابل اور مصر کی تہذیبوں سے وابستہ مذہبی اور غیر مذہبی کہانیوں کے مطابق معاشرے میں مضبوط بادشاہتیں وجود میں آگئی تھیں اور بادشاہ دیوتاؤں اور خداؤں کے نام پر ہر قسم کے اختیارات کے مالک بن بیٹھے تھے۔ مذاہب نے ان بادشاہوں کے معبودوں اور خداؤں کے نام پر حاصل کئے لامحدود اختیارات اور مطلق العنانی کو چیلنج کیا مگر جب روایتی بادشاہتیں گراد ی گئیں تو وقت کے ساتھ انھوں نے بھی اپنےپیش رؤں کی طرح مذہب کے نام پر لامحدود اختیارات خود ہی حاصل کرلئے اور ارتقاء کا سفر ایک دائرہ بن گیا ۔
ہندوستان میں گوتم بدھ نے اپنی تپسیا کے ذریعے برہمنوں کی مذہب کے نام پر انسانوں کی درجہ بندی اور اپنی حیثیت کو افضل و برتر کرنے کی منطق پر سوال اٹھائے لیکن جب اشوک بدھ مت کے تذکیہ نفس کے عقیدے کو مذہب میں بدل کر لامحدود اختیارات کا مالک بن گیا اور اس کے بعد کے آنے والے گوتم بدھ جیسے فقیر اور درویش کی تعلیمات کے نام پر مطلق العنان ہوگئے۔
یوروپ میں آنے والے صنعتی انقلاب نے پیداواری ذرائع وسیع کردئے تو اضافی زرعی پیداوار بھی روزمرہ کی ضروریات سے زیادہ ہونے لگی جس سے معاشی آسودگی آگئی۔ صنعتوں کے چلانے کے لئے اب روایتی مذہبی تعلیم اور جادو ٹونے سے زیادہ سائنسی تعلیم کی ضرورت تھی تو اب تعلیم میں مذہب کے ساتھ سائنس بھی شامل ہوگئی جس کی وجہ سے سوچنے کا انداز زیادہ منطقی ہوگیا۔ نئی سوچ سے نئے افکار نے جنم لیاتو بادشاہ کی حاکمیت پر سوال ٹھائے گئے اور انسانوں کے بیچ برابری اور مساوات کا تقاضا بڑھ گیا۔
نقلاب فرانس سے اٹھارویں صدی کے آغاز میں انقلابات ایک لہر آئی جس نے یورپ کی صدیوں پرانی شکل بدل کر رکھ دیا۔ جہاں صنعتی انقلاب کے اثرات نہیں پہنچے تھے وہاں ابھی تک بادشاہ خدا ؤں اور معبودوں کے پرتو ہیں تو کہیں کوئی خدا کا سایہ کہلاتا ہےاور کہیں کوئی کسی دیوتا تو کہیں کوئی خدا کے حکم سے حاکم برقرار رہا۔
صنعتی انقلاب کے ساتھ یورپ میں جو بیداری پیدا ہوئی اس نے بادشاہت کو کلیسا سے الگ کردیا اور مذہب صریحاً فرد کا انفرادی معاملہ بن گیا ۔امور ریاست میں عوام الناس کی شراکت کے لئے ضابطے عمل میں آئے جہاں ریاست اور شہریوں کے رشتے کو استوار کرنے کے لئے آئین بن گئے تو وہاں شہریوں کو ایک دوسرے کے ساتھ امن و سکون سے رہنے کے لئے قوانین بھی بن گئے جو قرون اولیٰ اور دیگر قدیم ایسے ضابطوں اور قوانین کے برعکس مساوات اور برابری کے اصولوں پرقائم ہیں۔
حصول اور انتقال اقتدار کے صدیوں سے جاری کشمکش کے بعد حکمرانی ایک اجتماعی معاملہ طے پایا اب مذہب، ریاست اور بادشاہت کے بجائے فرد کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی ہے جہاں ہرشخص بلا تخصیص جنس، رنگ، نسل و مذہب حکمرانی میں شراکت داری کا حق دار ہے۔ بادشاہتیں مگر اب بھی کہیں قائم ہیں تو وہ ریاست کے ہر خاص و عام کی مرضی سے جس کی اجازت لوگوں نے اپنے متفقہ دستور میں دے رکھی ہے۔ اب بادشاہ اختیارات آسمان میں بیٹھے خداؤں یا معبودوں سے نہیں بلکہ ریاست کے شہریوں سے حاصل کرتا ہے جو نئے معاشرتی ضابطے کے مطابق اقتدار اعلیٰ کے مالک ہیں۔
سیاست میں مذہب کی ضرورت مطلق العنانیت اور لا محدود اختیارات کے حامل حکمرانوں کو ہوتی ہے جس میں خدائی احکامات کی قطیعت پر کوئی سوال نہ اٹھا سکے جبکہ جمہوریت کی روح سوال اٹھانے اور اس کا حل تلاش کرنے میں ہے۔ جمہوری ریاستوں میں مذہب انفرادی معاملہ ہوتا ہے جس میں فرد اپنے عقیدے میں آزاد ہوتا ہے جبکہ مذہبی ریاست میں مذہب ایک اجتماعی زمہ داری ہوتی ہے جس سے عہدہ براہ ہونے کے لئے حکمران خداؤں اور معبودوں کے نام پر ان کے اختیارات استعمال کرتے ہیں۔ وقت کے ساتھ دنیا سے مطلق العنانیت ختم ہوتی جارہی ہے اور مذہبی ریاستیں بھی معدوم ہو رہی ہیں کیونکہ خداؤں کے قطعی اور لا محدود اختیارات کی ضرورت مطلق العنان بادشاہوں کو تھی جمہوری حکمرانوں کو نہیں۔
♦