دو ہاتھوں سے تو وہ صرف اپنا چہرہ ہی چھپا پائی ہوگی۔
وہ اپنے تھر تھر کانپتے ہوئے بدن کی ہلتی ہوئی چھاتیاں کیسے چھپالیتیں؟
وہ ندامت میں دھنسی ہوئی اپنی ٹانگوں کے وسط کو کس چیز سے چھپاتی جو مردانہ معاشرے کی گالیوں کا مرغوب ترین محور رہاہے۔
اس کے بدن سے تو سارے کپڑے اتروالئے گئے تھے وہ خود کو کس طرح ڈھکتی۔ اس کے پاس اس ملبوس کائنات میں لباس کے لئے کچھ بھی نہیں تھا سوائے اپنے دو ہاتھوں کے۔
اسی لئے اس بے انصاف قدرت کو چاہئے تھا کہ حوا کی بیٹی کو دو ہاتھ نہیں بلکہ آٹھ ہاتھ عطا کرتی۔ تاکہ پھر اگر ان مردم خیز معاشروں میں ایسی غیرت کا مظاہرہ ہوتا یا ان بزدل و بے روح گلیوں میں کسی عورت کو ننگا پھرانا ہوتا تو وہ اس کے قابل ہوتی کہ ان بہادر و غیور مردوں سے اور ان کی بھوکی نظروں سے اپنا چہرہ اپنی چھاتیاں اور اپنا اندام نہانی اپنے آٹھ ہاتھوں سے چھپاتی۔
اور وہ ان کی رال ٹپکاتی ہوی نگاہوں سے اپنے اس اندام نہانی کو چھپاتی جس سے یہ سب کبھی اس کا گندا خون چاٹتے ہوے نکلے تھے۔
ڈیرہ اسمعیل خان میں برہنہ کرائی جانے والی تتلی ضرور چیخی ہونگی۔ روئی ہوگی۔ اس نے شدید مزاحمت بھی کی ہوگی۔
مگر بہادر مردوں کا سماج اس کے تن بدن سے نکلتے ہوئے سرور و مدہوشی کو دیکھنا چاہتا تھا جو ان کی پسماندہ ذہنیت اور بدبودار طاقت کے عضوئے تناسل کو سخت بنادے۔
اس ننگی حالت میں یہاں وہاں بھاگنے والی ہراساں ہرنی نے ضرور کسی گھر میں گھس کر ہزاروں پردوںمیں چھپنے کی کوشش کی ہوگی مگر اسے ہر گھر کے ڈرے ہوے مالک نے ننگی بزدلی واپس بے پردہ ہی بھیج دیا۔
درندگی کا شکار ہونے والی اس ننگی لڑکی نے ضرور پاتال کی تاریکیوں میں ڈوبنے کی دعا مانگی ہوگی جس مین وہ خود کو بھی نظر نہ آسکے۔ مگر سورج کی ہوس گیر روشنیوں نے قہقہے لگا کر اس کے جسم کی رونمائی کی ہوگی۔
غرض یہ سماج سرمایہ داریت کے بل بوتے پر کھڑا ہے۔ اور استحصال کے ہنر سے کاٹی گئی بوٹیاں کھا کھا کر زندہ ہے۔
یہاں مسلط طبقات، سرمایہ دارانہ جمہوریت کی پشت پناہی پانے والے اشرافیئے اور نہایت بونگی قبائلیت کی مغلظ حکمرانی ہے۔
اسی سبب انسانیت پوری کی پوری ننگی پھر رہی ہے جیسے ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک معصوم لڑکی کو ننگی حالت میں گھمایا گیا۔
مگر ریاست اور منصف سب خاموش ہیں کیونکہ ہر ادارہ طاقت ور طبقات کی حفاظت پر مامور ہے۔
مثال اس کی واضح ہے کہ محکوم و غریب لڑکی اگر ننگی جاکر بھی ایف آئی آر درج نہیں کرواسکتی۔ دوسری طرف اگر امیر شہر کے گھر کوئی بھوکا روٹی اٹھالے تو سالوں کی قید۔
لینن نے ٹھیک کہا ہے کہ ریاست طبقاتی تضادات اور استحصال کو برقرار رکھنے کے لئے ہوتی ہے۔
۔عطاالرحمن عطائی۔
One Comment