تیسری آواز اور کاری گری 

مہرجان

غائبستانی فیکٹریوں میں نہ صرف روز بروز ترقی ہورہی ہے بلکہ یہ ہنر سعودی عرب تک ایکسپورٹ ہوچکا ہے طاقت کا پلڑا شروع دن سے پنچاب کا بھاری رہا ہے اس لیے نفرتوں کا حصہ بھی اُن کے حصے میں زیادہ رہا ہے۔

جب شروع شروع میں نواب خیر بخش مری کا یہ قول پڑھا کہ میرے ذہن میں پنچاب سے اتحاد کا کوئی تصور نہیں تو مجھے یہ اُن کی ذہنی اختراع معلوم ہوئی شاید کہ نیشنل ازم کے لیے مخالف نیشن کا ہونا لازمی ہے۔ اسی تناظر میں نواب خیر بخش مری نے یہ بات کہی ہو۔ چونکہ اس وقت فلسفہ و تاریخ سے دُور کا بھی واسطہ نہ تھا اب بھی کوئی اتنی وابستگی نہیں لیکن بہر حال وقت و حالات و تاریخ نے کچھ باتیں و کچھ شہادتیں سامنے لائیں کہ اک قوم دوست انسان کے لیے واقعی میں اک مخالف قوم کی ضرورت در پیش آتی ہے ؟ یا کسی قوم کے اعمال خود اپنے آپ کے لیے نفرت کی دیواریں تعمیر کرتے ہیں۔

سنہ 48 سے کہانی شروع کرتے ہیں کہ مُسلم لیگ کے دو نعرے زبان زد عام پہ تھے ۔مذہب اور خود مختاری اس بحث سے قطع نظر کہ وہ خود کتنے مذہبی تھے یا مسلم لیگ کا خود اپنا وجود جاگیرداروں کا کتنا مرہون منت تھا ؟ براہ راست اس بات پہ آتے ہیں کہ انگریزوں سے جان خلاصی ہوئی انہوں نے بہر صورت جانا تھا وہ چلے گئے اب پیچھے مذہب اور خود مختاری کے دعوے داروں نے آج تک کیا گل کھلائے ہیں یہ اب ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ۔

خودمختاری ، جمہوریت اور قانونی جنگ لڑنے کے دعویدار نے سب سے پہلے ریاست قلات پہ دھاوا بول دیا۔ جنرل اکبر خان اپنی سوانح حیات میں یہ ساری چالاکیاں زیر قرطاس لا چکے ہیں اور جمہوریت، آزادی تقریر کے پیغمبروں کی گذارشات بھی رقم طراز کر چکے ہیں کہ وہ کیسے ان واقعات کو اخبارات میں نہ چھپنے کی گذارشات کی تھی۔

یہ سلسلہ پھر تھما نہیں بلکہ اک دریا کا دوسرا دریا سے سامنا ہوتا گیا اور یُوں سلسلہ بڑھتا گیا۔ بلوچستان اسٹیٹ یونین سے ہوتا ہوا ون یونٹ جو کہ سیاسی تاریخ میں سیاہ دھبہ کی مانند ہے اس سیاہ دھبہ کو دھونے والے کون تھے ؟وہی قوم دوست جنہیں پنچاب غدار کہتا رہا بقول سردار عطاء اللہ مینگل جب سلیگ ہیرسن کو بتاتے ہیں کہ عجیب مزاج ہے ان کا جب ہم علیحدگی کا مطالبہ نہیں کرتے تھے تو ہمیں علیحدگی پسند قرار دے کر غدار ٹھہرایا گیا اور آج جب ہم علیحدگی مانگ رہے ہیں تو ہماری آواز دبائی جارہی ہے۔

اس پورے عرصے میں قوم پرست و تنگ نظر لڑتے رہے جیل کاٹتے رہے اور پنجاب پوری شان سے پاکستان پاکستان کا کھیل کھیلتا رہا اور آج جب غائبستان کی فیکٹریوں میں آئے روز فن کارانہ قسم کی تحریریں لکھی جارہی ہیں۔ مسجد کے مینار جو مذہب کی بنیاد پہ تعمیر ہوئے ہیں وہاں سے روشنی کی کوئی کرن نمودار ہورہا ہے اور نہ ہی روشن خیالی کے میناروں سے یہ کرن نمودار ہو پا رہی ہے۔ جس پہ ریاست کا قلعہ تعمیر ہے۔

ان کا مسئلہ مسخ شدہ لاشیں ہیں اور نہ اجتماعی قبریں ہیں اور نہ ہی مِسنگ پرسنز ہیں جس کے لیے کوئٹہ سے کراچی پھر اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا گیا کہ شاید مسجد کے محراب تک یا روشن خیالی کے قلعوں کے میناروں تک آواز پہنچے لیکن ان کی کاری گری ( لفظوں کی جگالی) اس قدر شاندار ہے کہ وہاں کسی محکوم قوم کی آواز جو کہ تیسری آواز ہے نہیں پہنچ پارہی۔

ان کا مسئلہ انسان نہیں بلکہ ان کا مسئلہ ہے ریٹنگ ، ان کا مسئلہ ہے مین اسٹریم ، ان کا مسئلہ ہے دوڑ و مقابلہ ، ان کا مسئلہ ہے جُگت بازی یہ دانشوری کے نام پہ کاری گر ی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ طاقت کے مراکز کے لیے نہ یہ سنہ 48 میں خطرہ تھے اور نہ آج ۔۔۔ طاقت کے مراکز کے لیے گر کوئی خطرہ ہے تو یہی تیسری آواز ہے۔

محکوم اقوام کی چاہے وہ بلوچ ہوں پشتون ہوں سندھی ہوں یا مہاجر ان کی آواز کو دبا کر یہ مسجد و محراب و روشن خیالی کے قلعے تعمیر کررہے ہیں تاکہ جب ضرورت پڑے تو مسجد و محراب کو محفوظ گاہ بنائیں اور جب ضرورت پڑے تو روشن خیالی کے قلعوں میں طعام عیش و عشرت کریں اب اس پورے منظر میں ابوعلیحہ کا سوال بالکل بے معنی ہے کہ 

Why Me ?

فقہیہ شہر نے کہا بادشاہ سے 

بڑا سنگین مجرم ہے یہ آقا 

اسے مصلوب ہی کرنا پڑے گا 

کہ اس کی سوچ ہم سے مختلف ہے


Comments are closed.