عائشہ علی
میری عمر 26 سال تھا اور میں اپنے والدین سے ملنے جا رہی تھی۔ اور پھر وہی معمول کا موضوع۔ شادی۔ اس بار موضوع یہ تھا کہ میں شکاگو میں مقیم ایک 36 سالہ مرد سے کیوں نہیں ملنا چاہتی، حالانکہ میں نیویارک میں بہت خوش ہوں۔ حیرت سے میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا جب میری ماں کے منہ سے یہ فقرہ ادا ہوا۔ ” وہ واحد آدمی ہے جو تمہاری وٹیلیگو کا سننے کے بعد بھی تم سے ملنے کا خواہاں ہے“۔ میرے باپ نے بھی ہاں میں ہاں ملائی گو اس کے الفاظ اس قدر سخت نہیں تھے۔ ” میں بعض اوقات یہ سوچ کر پریشان ہو جاتا ہوں کہ تمہاری جلد کی وجہ سے کوئی بھی تم سے شادی نہیں کرے گا“۔
”کوئی بھی نہیں“ اور ”واحد آدمی“ سے میرے والدین کی مراد اس مرد سے تھی، جس نے رشتہ نامی کھیل میں میرے ساتھ حصہ لینا تھا۔ شادی کا بازار جہاں عورت کو قد، وزن، شباہت اور عمر کے ترازو میں تول کر فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اور ہمیں خوش ہونا چاہیئے کہ مرد ہمیں دیکھنے کیلئے آتے ہیں۔ جب بھی میرے والدین نے میرے رشتے کی بات چلانا چاہی تو دس میں سے نو بار لڑکوں کی ماں سے سننا پڑا کہ لڑکی کو وٹیلیگو ہے۔
آپ سوچ سکتے ہیں کہ میرے پیٹ کس قسم کی ٹیس اٹھی تھی جب ایسے سخت الفاظ میرے والدین کے منہ سے ادا ہوئے۔ انہیں کس بات کی اس قدر گھبراہٹ ہے۔اگر میں تجزیہ کروں تو مجھےان کے بہت سے خدشات نظر آتے ہیں۔ ابھی حال میں ہی میرے بھائی نے ایک غیر مسلم عورت سے شادی کی تھی جو ان کے خیال میں چھوٹے بہن بھائیوں پر بھی اثر انداز ہو سکتی تھی۔ کمیونٹی میں بہت زیادہ بچے غیر مسلموں کے ساتھ شادی کر رہے تھے۔
میں نے ابھی ابھی سکول سے گریجویشن کی تھی۔ میں اس وقت خوشی سے سرشار تھی کہ مجھے پہلے سال کیلئے جزوی وظیفہ مل گیا تھا۔ میں سر توڑ کوشش کر رہی تھی کہ مجھے اگلے سال کیلئے بھی وظیفہ مل جائے۔ لہذا کسی کو ملنا میری ترجیحات کی لسٹ میں پہلے نمبر پر نہ تھا۔ لیکن میرے والدین کو فکر تھی کہ میں تیس سال کی ہونے کو ہوں۔ اور جب وہ وقت آ جائے گا تو شائد میں کدّو یا کچھ اس قسم کی چیز بن جاؤں گی۔
دوسری بات جسے میں قطعاً سوچ نہیں رہی تھی وہ میری جلد تھی۔ وٹیلیگو کی صورت میں جلد میں کچھ حصے سیاہ اور کچھ سفید دھبے پیدا ہو جاتے ہیں۔یہ تقریباً ہمیشہ سے میری زندگی کا حصہ رہے ہیں۔ جب میں چھ سال کی تھی تو میری ران پر ایک چھوٹا سا سفید دھبہ تھا۔ میرے والدین ڈاکٹر تھے اس لئے انہوں نے ہر قسم کے ٹیسٹ کئے اور پتہ چلا کہ یہ دھبہ صرف جلد کے اوپر تک محدود ہے۔ بعد میں یہ دھبے میرے پورے جسم پر ابھرے اور کبھی کبھار میرا پورا چہرہ ان کی زد میں آ جاتا۔ مجھے گھورا اور چھیڑا جاتا۔ بچے کہتے کہ مجھے جلد کا کینسر ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ میرے جسم پر زخم تھے۔ لیکن چھبیس سال کی عمر تک اپنی جلد کا علاج کرانے کے بعد میں مایوس نہیں تھی۔ مجھے پتہ تھا کہ دوسرے لوگ اس سے بڑے مسائل سے لڑے ہیں۔ میں ساری عمر فٹ رہی تھی۔ بہت اچھی دکھتی تھی۔ نیویارک رہتی تھی جہاں معمول سے مختلف نظر آنا کُول نظر آنے کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔ لہذا مجھے کوئی پرواہ نہیں تھی۔
اس دن کی بات چیت کے بعد کئی سالوں تک میرے والدین سے تعلقات کشیدہ رہے۔ مجھے اپنی زندگی کے متعلق ان کے دیکھنے کے انداز پر اعتماد نہ رہا تھا۔ مجھے یقین نہیں تھا کہ کیا وہ میرا بھلا چاہتے ہیں، یا انہوں نے والدین کی محبت بھری نظروں سے مجھے دیکھا تھا۔ اگر کبھی بھی شادی کا لفظ میں نے سنا تو میں کمرے سے باہر نکل جاتی تھی۔ مجھے اس بات کا اعتراف کرنے میں کئی سال لگے کہ میرا اپنے والدین کی اہلیت پر اعتماد اٹھ گیا تھا کہ وہ میرے لئے کوئی اچھا رشتہ ڈھونڈ سکتے ہیں۔اس سے بھی بڑھ کر میرے ذہن کے کسی گوشے میں باپ کا کیا گیا سوال بیٹھ گیا۔ کیا وٹیلیگو میرے لئے رشتے کے حصول میں رکاوٹ ہو گی؟۔ یہ وہ چیز ہے جو اس نظام کو ضرر رساں بناتی ہے۔
ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ میں نے کبھی نہیں چاہا تھا کہ میرے والدین میرے لئے رشتہ ڈھونڈیں۔ مجھے اس کھیل پر بھروسہ ہی نہ تھا۔ مجھے کبھی کسی ایسے انسان پر رشک نہیں ہوا جو اپنے والدین یا نیٹ ورک کی مدد سے رشتہ ڈھونڈنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ مجھے کبھی یہ طور پسند نہیں آیا جہاں خصوصی طور پر خواتین کو والدین کی جانب سے منظور شدہ یا غیر منظور رشتوں کی گنتی سمجھ کر انسانیت کی سطح سے نیچے گرا دیا جاتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر، کیونکہ اپنے بچوں کے متعلق معلومات اکثر والدین ہی دیتے ہیں لہذا وہ مخصوص معلومات تک ہی محدود رہتے ہیں۔
کوئی ایسی بات جسے منفی سمجھا جا سکتا ہے اس کو چھپا لیا جاتا ہے۔مثلاً یہ کہ اس کی گرل فرینڈ ہے اور اس نے اپنے والدین کو نہیں بتایا ( یہ واقعہ میرے ساتھ پیش آیا)۔ دس سال کی سوچ و بچار ( اور ابھی تک غیر شادی شدہ ہونے) کے بعد مجھے سمجھ آئی ہے کہ میرے والدین کیا چاہ رہے تھے۔ وہ ایک ایسے بے ایمان نظام میں ایک ایماندار دلال کی مانند کوششوں میں مگن تھے جس نے انہیں بتایا کہ ان کی بیٹی کی قدر و قیمت کچھ نہیں ہے۔ جس سے وہ وحشت زدہ ہو گئے۔ وہ ایک ایسی دنیا میں پھینک دیئے گئے تھے جہاں کیریئر، سماجی حیثیت اور سب سے بڑھ کر شباہت ہی سب کچھ ہوتی ہے۔ وہ ایک ایسی ثقافت میں پلے بڑھے تھے جس کے مطابق جب تک ان کی بیٹی کسی کے ساتھ بیاہی نہ جائے تب تک وہ ذمہ دار والدین کہلانے کےمستحق نہیں ہیں۔ اور یہی بات ان میں غصہ اور طیش کا باعث تھی۔
شکر ہے کہ ہم اس دور سے گزر گئے ہیں۔ اگر ہم سو فیصد ایک دوسرے سے متفق نہیں ہیں تو ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ الحمد اللہ میں اپنے پاؤں پر کھڑی ہوئی ہوں۔ اور یہ بات زیادہ اہم ہے کہ میں کسی قابل انتخاب مسلمان کی بجائے کسی بہتر انسان سے ملوں۔ میری خواہش ہے کہ ہم امریکی مسلمان جو کئی نسلوں سے یہاں رہ رہے ہیں۔ ہم اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی ذہانت، کمیونٹی کے کاموں میں حصہ لینے، خوش قلبی اور اندرونی خوبصورتی کی قدر کریں۔
آج تک میری خیر خواہ آنٹیاں اور انکل میرے غیر شادی شدہ ہونے پر مجھ سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔ ان انکلوں نے میرے ساتھ میرے جلد کے مسائل پر بات چیت کرنے کی پیشکش کی ہے۔ میں ان انکلوں اور آنٹیوں کا بتانا چاہتی ہوں کہ شائد ایک دن میں کتاب لکھوں کہ میں سینتیس سال کی عمر میں بھی کنواری کیوں ہوں اور اس میں میری وٹیلیگو جگہ نہیں پا سکے گی۔ اس کی بجائے میں مسکراتی ہوں، جھکتی ہوں اور مودبانہ انداز سے گزر جاتی ہوں۔ خود تشکیک کی وہ کمزور صدائیں جو ایک وقت میرے والدین کی چیخوں کی شکل دھار گئی تھیں، وہ اس ادراک کے بعد کچلی جا چکی ہیں کہ اگر کسی کھیل میں کوئی منصف ریفری نہ ہو تو اس میں حصہ لینے کی بجائے میدان سے باہر بیٹھنا زیادہ مناسب ہے۔
نوٹ۔ عائشہ علی ایک امریکی فرم میں ڈیولپمنٹ ڈائریکٹر ہیں۔
انگریزی سے ترجمہ:خالد تھتھال