غصہ مجھے بھی آتا ہے
اور البرٹ پینٹو کو بھی آتا ہے لیکن کب اور کیوں آتا ہے اور یہ کہ کن لوگوں کو کم اور کن کو زیادہ آتا ہے ہمارے اس معاشرتی رویے کی جڑیں بھی بالآخر سماج میں فرد کے معاشرتی مقام( زیادہ صحیح طور پر کہا جائے تو طبقاتی کردار) اور اس بنیاد پر تعمیر ہونے والے شخصی مزاج کے ساتھ ساتھ کسی مخصوص پیشے اورجنس وغیرہ کے ساتھ ملتی ہیں اس مضمون میں اختصار کے ساتھ ’’غصہ‘‘ کے محرکات کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اگر ہم اپنے آس پاس نگاہیں دوڑائیں اپنے گھر‘ محلے‘ دفتر اور بازار میں دکانداروں اور دوستوں کو یاد کریں تو ہمارے سامنے حسب ذیل قسم کی تصویر آجاتی ہے ۔
جوان بوڑھوں کی نسبت جلد غصہ ہوجاتے ہیں۔
مرد عورتوں کی نسبت جلد آپے سے باہر ہوجاتے ہیں۔
مالک ملازموں پر غصہ کرتے ہیں۔
غریب لوگ امیروں سے زیادہ جھگڑالو ہوتے ہیں۔
دیہاتوں میں قتل کے واقعات زیادہ ہوتے ہیں شہروں میں اکا دکا ہوتے ہیں۔
قبائلی اور جاگیردارانہ نظام کے تحت زندگی گزارنے والوں میں معمولی واقعہ پرہاتھا پائی کی نوبت آجاتی ہے لیکن صنعتی شہروں میں ایسا کم دیکھنے میں آتا ہے۔
پسماندہ علاقوں میں تناسب پوش آبادی سے زیادہ ہوتاہے۔
یورپی باشندوں میں مشرقی باشندوں سے زیادہ برداشت‘ رواداری اور ایک دوسرے کی بات سننے کا حوصلہ ہوتا ہے۔
بندھے اور انسانوں سے دور رکھے جانے والے کتے میں کھلے کتے سے زیادہ غصہ پایا جاتا ہے۔
پڑھا لکھا جلد اشتعال میں نہیںآتا ہے ان پڑھ فوراً آستینیں چڑھالیتا ہے۔
ا نسان اپنے ماحول اور حالات کا قیدی ہوتا ہے ہمارے معاشرے کا ایک مکتبہ فکر ہر چیز کی مانند برداشت اوررواداری کے فقدان اور بات بے بات غصہ ہونے کے مسئلے کا حل بھی اخلاقیات میں تلاش کرتا ہے اس کا کہنا ہے کہ انسان نے قدیم اخلاقی قدروں سے منہ موڑ لیا ہے اور یہ اس کی سزا ہے لیکن اگر تھوڑی سی تحقیق کی جائے تو غصے کا آنا ، کم یا زیادہ آنے کے بارے میں یہ معلوم ہوگا کہ اس کا تعلق مخصوص حالات سے ہوتا ہے جوان بوڑھوں کی نسبت جلدی آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اس طرح ان کے جلد اشتعال میں آنے کا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کا خون گرم ہوتا ہے وہ ہر چیز اور کام میں تیز ہوتے ہیں اسی لئے ان کو غصہ بھی فوراًآجاتا ہے جیل کی سلاخوں کے پیچھے زیادہ ترنو جوان اور جوان ہی دکھائی دیتے ہیں جبکہ سفید ریشوں کا جسم اور ذہن وقت گزرنے کے ساتھ کمزور پڑجاتا ہے
بھلامردوں میں عورتوں سے زیادہ غصہ کیوں ہوتا ہے کیا غصے کا جنس سے بھی تعلق ہوتا ہے ایسا نہیں ہے اس کا تعلق مخصوص حالات اور حیثیت سے ہوتاہے مرد اور عورت کے معاشی حالات اور سماجی حیثیت کا جائزہ لیا جائے تو اس سوال کا جواب مل جاتا ہے مرد صبح گھر سے نکلتا ہے اگر غریب یا متوسط گھرانے کا فرد ہے تو بس میں بیٹھ کر دفتر جاتا ہے جس میں دھکے کھانا پڑتے ہیں آفس میں چھوٹے خداؤں کی بک بک سننا پڑتی ہے معاشی حالت دگرگوں اور اپنی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے تو ایسی صورت میں اس میں رفتہ رفتہ جھنجلاہٹ اور غصہ پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے جبکہ عورت صبح اٹھ کر ناشتہ تیار کرتی ہے جھاڑو دیتی ہے لیکن اس کے غصہ نہ کرنے کی جہاں یہ وجوہات ہیں وہاں یہ بھی ایک سبب ہے کہ وہ معاشی طور پر خاوند کی دست نگر ہوتی ہے چنانچہ اگر اس کا شوہر غصیلا اور جھگڑالو ہے تو وہ اپنا غصہ چھوٹے بچوں اورعموماً لڑکیوں پر نکالتی ہے جس کنبہ میں عورت برسرروزگاراورخود کفیل ہوتی ہے یا اس کا تعلق دولت مند خاندان سے ہوتا ہے اور شوہر اس کا محتاج ہوتا ہے تو پھر عورت کواس کی رتی بھر پروا نہیں ہوتی بلکہ اس پرغصہ بھی کرتی ہے اور اگر دونوں کماؤ پوت ہیں تو پھر مساوات پر عمل ہوتا ہے۔
کیا کبھی کسی ملازم کو مالک پر غصہ کرتے دیکھا ہے ایسا نظارہ دیکھنے کو نہیں ملتاہے نوکر صرف اس وقت اپنا غبار نکالتا ہے جب اس کا مزید کام کرنے کا ارادہ نہ ہو یا انقلاب کے زمانے میں ہی یہ ممکن ہے ایسے وقت اس کی شکل نہایت بھیانک ہوتی ہے ملازم صدیوں کا غصہ نکالنے کی کوشش کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ ان انقلابات کو انقلاب دشمنوں نے خونی انقلاب کا نام دیا ہے حالانکہ یہ صدیوں کا بھرا لاواہوتا ہے جبکہ مالکان ہر روز نوکروں پر غصہ اتارتے رہتے ہیں او ر وہ اسے اپنی قسمت اور مجبوری سمجھ کر برداشت کرتے ہیں کیونکہ مالک ان کو اجرت دیتے ہیں جو دراصل محنت کی ہوتی ہے اگر ایک مرد عورت کو کھانا ، لباس اور مکان دیتا ہے اور غصہ کرتا ہے تو اسی طرح مالک بھی کرتا ہے البتہ ملک میں جمہوریت ہو محنت کشوں کو یونین سازی کی اجازت ہو تو پھر مالک نوکر پر غصہ کرنے سے عموما گریز کرتا ہے ۔
غریب لوگ کیوں ہر وقت جھگڑتے رہتے ہیں مرد بیوی اور ماں اپنے بچوں پرچیختی چلاتی رہتی ہے اس کا عام طور پر سبب غربت ہوتا ہے ان کی روزمرہ ضروریات پوری نہیں ہوتی ہیں ان کو ہر جگہ پر دھتکارا جاتا ہے نفرت اور حقارت ملتی ہے تو جب نکاسی کی کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی ہے تو پھر اپنے سے زیادہ مفلس اور کم زور پر غصہ اتارتے ہیں یا پھر بیوی اور بچوں پر نکالتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔
جتنے قتل دیہاتوں میں ہوتے ہیں اتنے شہروں میں نہیں ہوتے ہیں اس کی مختلف وجوہات ہیں ایک تو یہ کہ دیہات میں لوگوں کے پاس فالتو وقت ہوتا ہے علاوہ ازیں وہ ایک دوسرے کو مروجہ سماجی اقدار پر ماپتے رہتے ہیں اسی طرح معاشرے میں بے جااخلاقی،سماجی اورحکومتی پابندیاں بھی عوام میں تنازعات اور تضادات کا باعث بنتی ہیں پشتون معاشرے میں مذہبی ارکان کے علاوہ پردے،حیا اور غیرت پر زیادہ زور دیا جاتا ہے لہٰذا جھگڑے ،دشمنیاں اور قتل بھی ہوتے ہیں جس سماج میں جتنی زیادہ پابندیاں ہوتی ہیں اخلاقیات پر زور دیاجاتا ہے اس میں اتنے ہی زیادہ تضادات اور تنازعات بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں ان معاشروں میں ترقی کے رحجانات بھی کم ہوتے ہیں قدیم سماجی اقدار پر عمل کرنے والے علاقوں کے باسی پسماندہ اور خوار رہتے ہیں اسی طرح جن ممالک میں آزادی رائے اور اظہار کو خلاف آداب سمجھا جاتا ہے وہاں بھی ترقی نہیں ہوتی ہے دیہات میں لوگوں کے ہر وقت دست بگریبان رہنے کا سبب یہ بھی ہے کہ وہ معاشی سرگرمیوں سے زیادہ روایات کے قیدی ہوتے ہیں۔
شہروں میں صنعتی ماحول محنت کشوں کو اتحاد اور اتفاق کا درس دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ کارل مارکس نے کارخانوں کو سوشلزم کے سکول قرار دیا تھا اگرچہ حکومت اور سرمایہ داروں کی کوشش ہوتی ہے کہ محنت کشوں میں تضادات پیدا کرکے ان کے ایکا کو نقصان پہنچائے چنانچہ کبھی فرقہ واریت تو کبھی ہمسایہ ممالک پر الزامات یا ان سے جنگیں کی جاتی ہیں اور ہر وقت ان کی طرف سے خطرے کی گھنٹیاں بجائی جاتی ہیں اوراگر ہمسایہ ملک کی اکثریت کا عقیدہ و مذہب مختلف ہو تو پھر اس میں معاشرے کے وہ طبقے،خاندان اور مکتبہ فکر پیش پیش ہوتے ہیں جو ملک کو ماضی کی طرف لوٹانے کی آس لگائے رہتے ہیں اس طرح عوام کے غصہ کا رخ بدلتے رہنے سے دولت مند طبقات محفوظ رہتے ہیں البتہ عوام کا سرپٹھول کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
غصہ کا تناسب یا شرح پڑھے لکھے اور ان پڑھ لوگوں میں یکساں نہیں ہوتا ہے روزمرہ مشاہدہ ہے کہ تعلیم یافتہ انسان ہاتھا پائی سے گریز کرتا ہے وہ مسئلہ پر بات چیت کرتا ہے ہاتھ نہیں ڈالتا ہے نہ تو وہ آپے سے باہر ہوتا ہے اور نہ ہی وہ ہاتھوں سے باتیں کرتا ہے جبکہ ناخواندہ ذرا سی بات پر ہاتھ گریباں تک لے جاتاہے یہی لوگ قانون کے سخت ہونے پر بھی زور دیتے ہیں۔
کیا وجہ ہے کہ اپنے اخلاقی اقدار کے اعلیٰ ہونے کا ڈھنڈوراہم پیٹتے ہیں لیکن اپنے ہم وطنوں کے اخلاق اور عادات کا موازنہ کرتے ہیں تو پھر مغرب اور یورپی ممالک کے عوام کی تعریف کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں وہ ہم سے زیادہ وسیع النظر ہیں ان میں رواداری اور برداشت ہے کوئی بات منوانی ہو تو دلائل سے قائل کرتے ہیں اس کے برعکس ہم بات بات پر سیخ پا ہوجاتے ہیں اور قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے دوسرے عقیدہ اور مذہب کے پیروکار کی بات ایک طرف خود اپنے مسلک کے لوگوں پر کفر کا فتویٰ لگاکر حملہ کردیتے ہیں اور یورپ پر یہ کمزوری ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارے نظریہ میں جان نہیں بلکہ یہ ہم نے بزور قوت منوایا ہوا ہے۔
سچ یہ ہے کہ غصہ کا رشتہ ملک کے نظام سے بھی ہوتا ہے اگر ملک میں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی ،ادارے مستحکم اور ایک شہری سے لے کر اعلیٰ عہدے پر فائز شخص آئین کی بالا دستی کا قائل ہے عوام کو اپنے معاشی،سماجی،ثقافتی اور بنیادی حقوق ملتے رہتے ہیں آزادی اظہار کا حق تسلیم کیا گیا ہے قوموں اور صوبوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ ہر سطح پر انصاف ہورہا ہے تو جنجھلاہٹ اور غصہ پیدا نہیں ہوگا چنانچہ نہ ہی البرٹ پینٹو اور نہ ہی آپ اور مجھے غصہ آئے گا۔
۔ البرٹ پینٹو(ایک انڈین فلم کا کردار)۔