علی احمد جان
گلگت بلتستان کے بارے میں پاکستان کے بہت کم دانشور ، صحافی اور انسانئ حقوق پر کام کرنے والے لوگ جانتے ہیں۔ جتنی معلومات گلگت بلتستان کےپودوں، جانوروں ، کیڑے مکوڑوں ، گلیشیئرز ، پہاڑوں، جھیلوں ، ندی نالوں، دریاوں اور پہاڑی درّوں کے بارے میں دستیاب ہیں اتنی یہاں کے معاشی، معاشرتی اور سیاسی حقائق کے بارے میں نہیں۔
انسانی حقوق کے کمیشن نے گزشتہ کچھ سالوں میں بھر پور کوشش کی ہے کہ اس علاقے کے بارے میں معروضی زمینی حقائق سے آگاہ کیا جاسکے۔ کمیشن کی لکھی ہر سالانہ رپورٹ ایک جامع دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے جس میں تمام حقائق کو ضبط تحریر میں لاکر تاریخ رقم کی گئی ہے۔ مگر ہمارا طرہ امتیاز یہ ہے کہ ہم پڑھنے لکھنے کی عادتوں سے ماورا ہیں اس لئے ابھی تک ایسی مصدقہ تحاریر پڑھنے کے بجائے سنی سنائی باتوں پر یقین کر لیتے ہیں ورنہ ہم بلوچستان، فاٹا اور گلگت بلتستان کے بارے میں اپنی جہالت کے رحم و کرم پر نہ ہوتے۔
پچھلے سال محترمہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ گلگت بلتستان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے تشریف لائیں تو ان کی ملاقات یہاں کے بہت سارے لوگوں سے ہوئی جن میں سیاسی کارکن، انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے، غیر سرکاری تنظیموں میں کام کرنے والے، سیاسی و مذہبی جماعتوں کے عہدیداروں ، وکلا اور صحافی سب ہی شامل تھے۔ ان ملاقاتوں کے بعد عاصمہ جہانگیر نے مخصوص انداز میں اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ ًیہاں لوگ خوفزدہ ہیں کھل کر بات کرنے سے ڈرتے ہیںً۔
وہاں لوگ کیسے نہ ڈریں جہاں طاقتور کی مرضی کا نام قانون ہو۔ یہاں ایسی باتوں پر گردن زدنی ہو جاتی ہے جو پاکستان کے دیگر علاقوں میں روزمرہ کا معمول ہوتی ہیں۔ بابا جان اور اس کے ساتھیوں کو عطا آباد کے متاثرین کی حمایت میں جلوس میں شامل ہونے پر اسی سال جیل کی سزا بغیر شنوائی کے اس وقت ہوئی جب وہ انتخابات میں حصہ لے رہے تھے۔
پاکستان میں ایک شخص دارالحکومت کو مہینوں تک مفلوج کرکے ، کئی پولیس والوں کو جان سے مارنے کے بعد بھی لاکھوں روپے انعام حاصل کرکے چلا جاتا ہے جب کہ گلگت بلتستان کے نوجوان ہر محاذپر جانوں کے نذرانےپیش کرکے بھی ریاست کے اپنے نہ ہوسکے۔ پاکستان میں تو ریاست کی مدعیت میں مقدمات درج ہوتے ہیں جبکہ گلگت بلتستان میں کوئی بھی شخص حتیٰ کہ کوئی چرسی، موالی، بستہ ب کا مجرم بھی کسی شریف آدمی پر ریاست سے غداری یا مذہب کی توہین کا مقدمہ کر سکتا ہے جس میں ملزم کو بغیر ثبوت یا شہادت کے نہ صرف حولات جانا پڑتا ہے بلکہ قیدو بند کی سزا بھی ہوجاتی ہے۔
عاصمہ جہانگیر صاحبہ کو گلگت بلتستان کے دورے کی دعوت دینے والا اور یہاں اس کی مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں سے ملاقاتیں کروانے والا اسرار الدین بھی آج کل اپنی جان کی امان کی تلاش میں سرگرداں ہے ۔ اس پر بھی ایک دن میں سات ایف آئی آر درج کروانے والے وہی تھے جن کے حقوق کے لئے وہ لڑتا رہا۔ اس پر استغاثہ کرنے والے بھی جانتے ہیں کہ وہ بے گنا ہ ہے مگر کیا کریں ان کو بھی ایسا کرنے کے نظر نہ آنے والی روشنائی سے لکھے احکامات بھی کہیں اور سے آتے ہیں جن کی پاسداری ضروری ہوتی ہے۔ جب انسانی حقوق پر کام کرنے والوں کو جان کی امان کے لالے پڑ جائیں تو عام آدمی کیسے خوفزدہ نہ ہو؟
عاصمہ جہانگیر کے دورہ گلگت کے موقع پر ان کی موجودگی سے فائدہ اٹھاکران کے سامنے گلگت بلتستان کے بنیادی حقوق کا مقدمہ پیش کرنے والا ایڈوکیٹ احسان علی رات بارہ بجے گرفتار ہوئے ۔ ان پر بھی توہین مذہب کاایک ایسا مقدمہ بنا جو ایک مذاق سے زیادہ نہیں۔ ان پر مقدمہ ایران کی ایک خاتون کی وہ تصویر شیئر کرنے پر بنا جو پوری دنیا میں دیکھی گئی تھی۔
ان پرمقدمہ کرنے والوں نے ولایت فقہیہ یعنی ایران کی حکومت پر تنقید کرنے کو تو ہین مذہب قراردیا۔ گلگت شہر میں وال چاکنگ ہوئی جس کو بنیاد بنا کر سپریم اپیلیٹ کورٹ یعنی گلگت بلتستان کے سپریم کورٹ بار کےمنتخب صدر کو گرفتار کیا گیا ۔ اب ایسے حالات میں ایک عام آدمی خوفزدہ کیسے نہ ہو؟
ایڈوکیٹ احسان علی ان لوگوں میں شامل ہے جن کو نظریات،اور اصولوں کی سیاست کے اساتذہ کا درجہ حاصل ہے۔ وہ کبھی جج بننے یا کسی بھی حکومتی تفویض کردہ عہدے کے متمنی نہ رہے۔ وہ مزدوروں اور محنت کشوں کے راہنما ہیں اور مظلوموں اور مجبوروں کا ساتھی۔ ناداروں اور مفلسوں کے مقدمات مفت میں لڑنے والا یہ وکیل چالیس سال سے گلگت کی سڑکوں پر پیدل گھومتا ہے۔ ان کے دفتر میں ہر وقت سائلوں کا ایک جم غفیر رہتا ہے جن سے وہ کبھی ان کی زبان، ذات، مذہب یا علاقائی وابستگی کا سوال نہیں کرتا۔
رات ہویا دن کا وقت جب بھی کوئی سائل ان کے دروازے پر دستک دیتا ہے تو وہ اس کی مدد اور داد رسی کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔ مقدمہ کسی بھی نوعیت کا ہو اگر کیس ریاست کا کسی شہری کے خلاف ہو تو احسان علی ایڈوکیٹ سائل کے فیس ادا کرنے کی استظاعت کو نہیں دیکھتے ۔ ظلم وجبر کا واقعہ کہیں بھی ہو احسان علی اس کی مذمت کرتے ہوئے دیکھے گئے۔ مگر افسوس یہ ہے کہ اس پر مقدمہ درج کرنے والے وہی لوگ ہیں جن پرریاستی اور غیر ریاستی جبر کے خلاف وہ زندگی پھر جدوجہد کرتے رہے۔ جن کو وہ مظلوم سمجھتے ہیں اور جن کے حقوق کے لئے جدوجہد کرتے ہیں وہی ظالم کا آلہ کار بن جائیں تو پھر عام آدمی کیسے خوفزدہ نہ ہو؟
جب ریاست اور شہری کے درمیان خوف کا تعلق ہو تو بغاؤت جنم لیتی ہے۔ قانون کی عملداری کے بجائے ریاستی اداروں کے استبداد کا خوف ہو تو شہری کے دل میں ریاست کے لئے احترام کے بجائے نفرت پیدا ہوجاتی ہے۔ ریاست اور شہریوں کے بیچ احترام کے رشتے کو قائم کرنےکے لئے قانون کی عملداری اور انصاف کی فراہمی بنیادی عناصر ہیں۔ قانون کی عملداری کا مقصد شہریوں کی جان و مال کا تحفظ ہونا چاہئے نہ کہ کسی ادارے، گروہ ، شخص یا طبقے کی مفادات کا تحفظ۔
انصاف کی فراہمی کا مقصد بھی لوگوں میں احساس تحفظ پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اگر قانون کومسلح جتھوں کے دباؤ پر حرکت میں لاکر عام لوگوں کے رائے اور آواز کو سلب کرنے کی کوشش کی جائے گی تو معاشرہ گھٹن کا شکار ہو جاتا ہےجس سےتشدد جنم لیتا ہے۔ گھٹن سے پیدا ہونے والا تشدد انارکی کی شکل میں پھیل جاتا ہے جس کا شکار اب کم و بیش پورا ملک ہے۔ تشدد عدم تحفظ اور خوف کو جنم دیتا ہے جس کا شکار گلگت بلتستان بھی ہے اور یہاں لوگ خوف زدہ ہیں۔
عاصمہ جہانگیر زندہ ہوتی تو آج ایڈوکیٹ احسان علی کی گرفتاری پراحتجاج کرتی ، اس کی مذمت کرتی اور کہتی کہ یہ ظلم ہے اس کو رکنا چاہیئے۔ اگر وہ نہیں ہیں توکیا ہم سب خاموش رہیں؟ ان کو خراج تحسین پیش کرنے کا سب سے بہتر انداز بھی یہی ہے کہ ان کی روایت یعنی کسی بھی ظلم اور جبر کے خلاف ہم اپنی اواز بلند کریں۔ جبر ریاستی ہو یا غیر ریاستی ، ظلم ادارے کریں یا افراد ہر صورت میں معاشرتی جرم ہے اس کو مٹ جانا چاہئے۔
اگر ہم آج کسی اور پر ہونے والے ظلم پر خاموش رہے تو کل جب ہماری باری آئے گی اور دوسرے خاموش بیٹھیں گے جس سے جبر و استبداد کو فروغ ملے گا اور ظلم اور ناانصافی کا راج ہوگا۔ یہ بات صرف ایڈوکیٹ احسان علی پر نہیں رکنے والی ، کل کسی اور کی بھی باری آئے گی وہ آپ بھی ہوسکتے ہیں اور میں بھی۔ آیئے سب مل کر اپنی طرف بڑھتے ہاتھوں کو رک دیں اس سے پہلے کہ وہ ہم سب کا گلہ دبا کر ہمیں خاموش کردیں۔ یہی عاصمہ جہانگیر کا سبق ہے۔
♦