بیرسٹر حمید باشانی
تعصب کیا ہے؟ بغض کیا ہوتاہے ؟ اورمنصفانہ سماعت کسے کہتے ہیں۔ کوئی شخص جس نے کچھ وقت کسی لاء سکول میں گزارا ہے، اس سوال کا جواب دے سکتا ہے۔ دنیا کے ہر اچھے لاء سکول میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ جانب داری کیا ہے، طرف داری اور تعصب کیا ہے ؟ اگر کسی مقدمے میں کوئی جج طرف داری کرے، جانب دار بن جائے، اس کی باتوں ، بدن بولی یا رویے سے تعصب کی بو آتی ہو ، تو اس صورت میں فریق مقدمہ کو کیا کرنا چاہیے؟
تفصیل میں جانے سے پہلے یہ دیکھ لینا چاہیے کہ جانب داری، طرف داری یا تعصب ہوتا کیا ہے؟ دنیا کی ہر مستند قانونی لغت میں وہ رحجان، ادراک، خیال یا رائے، جو کسی منصف کو غیرجانب داری سے اس کے سامنے پیش کردہ حقائق کا جائزہ لینے سے روکے اسے تعصب، طرف داری ، جانب داری ، یا بغض کہا جاتا ہے۔
جانب داری، طرف داری ، تعصب ، بغض، لالچ، خوف اور اس طرح کی دوسری چیزوں کی موجودگی میں کوئی جج انصاف نہیں کر سکتا۔ جس طرح اگر ایک جج نے رشوت لیکر کوئی فیصلہ کیا ہوتو اس فیصلے کو انصاف نہیں کہا جاسکتا۔ اسی طرح اگرایک جج نے کسی فریق کے ڈر ، لالچ، خوف یا ہمدردی کی بنا پرکوئی فیصلہ کیا ہو تواسے انصاف کے تقاضوں کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ بلکل اسی طرح اگر کوئی جج کسی ایسے شخص کے خلاف فیصلہ کرے ، جس سے وہ دل میں تعصب، بغض ، نفرت رکھتا ہے، زاتی ناپسندیدگی رکھتا ہے ، تو اس فیصلے کو مبنی بر انصاف نہیں کہا جا سکتا۔
انسان نے تاریخ میں ناا نصافی سے انصاف کی طرف ایک لمبا اوربڑا تکلیف دہ سفر کیا ہے۔ اس سفر کے دوران انسان کو ایسی بے شمار قباحتوں اورمسائل سے واسطہ پڑا ہے، جو انصاف کے راستے میں رکاوٹ تھیں۔ ان میں ایک بڑا مئسلہ تعصب اور جانب داری بھی رہا ہے۔
انصاف کی دیوی کا جو پتلا آج ہمیں دنیا بھر کی عدالتوں میں نظر آتا ہے، ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ قدیم مصر کی تہذیب میں انصاف کی دیوی ایک سادہ مٹی کا پتلا تھا، قدیم رومن تہذیب میں شہنشاہ آگستس نے انصاف کی دیوی کا جو پتلا متعارف کروایا ، اس کے ایک ہاتھ میں ترازو ہوتا تھا اور دوسرے میں تلوار ۔ جوں جوں انسان ترقی کرتا گیا، توں توں انصاف کے بارے میں اس کے تصورات بھی ترقی کرتے گئے، اور اس کے ساتھ ساتھ نظام انصاف بھی ترقی کرتا گیا۔
پندرہویں صدی کے آغاز تک دنیا کے کئی قانونی دماغ اورفلسفی اس بات پر اتفاق کرنا شروع ہوگئے تھے کہ انصاف کرنے کے لیے منصف کا غیرجانب دار ہونا لازمی شرط ہے۔ چنانچہ سولہویں صدی سے جو انصاف کی دیویاں بنائی گئی ان کی آنکھوں پر پٹی باندھی جانے لگی۔ مغربی اور لاطینی ممالک کی عدالتوں کے سامنے دیوی کے پرانے پتلے کی جگہ جو دیوی نصب ہونے لگی اس کے ایک ہاتھ میں ترازو، دوسرے ہاتھ میں تلوار، اور آنکھوں پر پٹی لازمی قرارپائی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ، قانون سب کے لیے برابر ہے۔ اور منصف کویہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ اس کے روبرو جو شخص کھڑا ہے، اس کی سیاسی، سماجی، معاشی اور نسلی حیثیت کیا ہے۔۔ سماجی ترقی اور ارتقا کے عمل میں، ہمارے دور تک قانون کی نظر میں سب کے برابر ہونے کا تصور کافی پختہ ہوگیا۔ بہت سارے ملکوں نے اپنی اپنی بنیادی دستاویزات میں یہ لکھ دیاکہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے عالمی اعلامیے کے آرٹیکل سات میں پوری دنیا نے مل کر اعلان کیا، کہ قانون سب کے لیے برابر ہے۔ سب بلا امتیاز، مساوی تحفظ کے حق دار ہیں۔
عالمی برادری کے ساتھ کیا وعدہ نبھاتے ہوئے ، پاکستان کے آئین کے آرٹیکل25 میں واضح الفاط میں لکھ دیا گیا کہ ، قانون کے نزدیک تمام شہری برابر ہیں۔ آئین جو ایک مقدم اور مقدس دستاویز ہے، جب شہریوں کو برابر قرار دے دے، تو ملک کے منصف ان کے ساتھ برابری کا سلوک کرنے کے پابند ہو جاتے ہیں۔ یہ برابری کا سلوک کیا ہے، ادب میں نوبل انعام یافتہ ایک مشہور شاعر، ادیب و دانشور نے اس کی سب سے سادہ تشریح کی ہے۔
اس فرانسیسی ناول نگار، انٹولے فرانس نے1894 میں لکھا تھا کہ قانون اپنی شانداربرابری کے اظہار میں امیر اور غریب دونوں کو مساوی طور پر پلو ں کے نیچے سونے، سڑکوں پر بھیک مانگنے، یا روٹی کا ٹکڑا چرانے سے روکتا ہے۔ پاکستان کے آئین میں یہ شاندار الفاظ لکھ دئیے گئے۔ بلکہ یونیورسل اعلامیے سے ہو بہو نقل کر دئیے گئے۔ مگر کیا کبھی اس پر عمل کرنے کی ضرورت بھی محسوس ہوئی۔ پل کے نیچے سویا ہو غریب تو ہمیشہ نظر آگیا مگر کبھی امیر کی طرف بھی دیکھا ، جو چاہے پل کے نیچے سوئے یا اوپر۔
ہم نے انصاف کی دیوی کی آنکھوں پر پٹی تو چڑھا دی۔ قانون کی کتابوں میں لکھ دیا کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں ، مگر کبھی یہ بھی دیکھا کہ کیا ہمارے منصفوں کے روز مرہ کے لکھے ہوئے حرف یا بولے لفظ سے بھی اس اصول کا اظہار ہوتا ہے۔ جس شخص نے 1973 کا ائین بنایا ، اس میں انسانی حقوق کا باب شامل کیا، اس میں آرٹیکل 25 ڈالا ۔ اس شخص کا اپنا مقدمہ جب ملک کی اعلی ترین عدالتوں کے سامنے آیا تو کیا ہوا۔
بطور ملزم اس نے چیخ چیخ کر کہا کہ ایک منصف جانب دار ہے۔ متعصب ہے، بغض رکھتا ہے۔ جسٹس مولوی مشتاق جیسے منصف نے یہ بغض چھپانے کی کوئی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔ ہمارے قانون میں لکھا ہے کہ اگر کسی مقدمے میں بغض کا معقول خدشہ ہے، اور ملزم اگر ایک بیان حلفی دیدے کہ جج جانب دار ہے، متعصب ہے، تو ضروری ہے کہ کوئی دوسرا جج مقدمے کی سماعت کرے۔ قانون کی حکمرانی کا یہی تقاضہ ہے۔
مگر آج تین دھائیوں بعد بھی ملک کے ہائی پروفائل اور شہرت یافتہ مقدمات میں ملزم جانب داری کی دھائی دے رہے ہیں۔ ایک شخص جو تین دفعہ کسی ملک کا وزیر اعظم رہا ہو تو، اسے اگر اور کچھ بھی نہ مانا جائے، تو کم از کم ایک معقول شخص تو ماننا پڑتا ہے۔ اور اگر ایک معقول ملزم کے پاس یہ یقین کرنے کی معقول وجہ ہو کہ اس خلاف جانب دار ی اور تعصب برتا جا رہا ہے، اس کے مقدمے کی سماعت میں ایسے منصف بھی شامل ہیں، جو اس کا ذکر اس کے دشمنوں کی زبان میں کرتے ہیں ۔ مقدمہ شروع ہونے سے پہلے ہی بعض منصف عبرت ناک سزاوں کا عندیہ دے دیتے ہیں۔ تو اس صورت میں قانون کو کیا کرناچاہیے۔
مقدمے میں ملزم کا کردار پر سوال ہے۔ اس کی امانت داری اور دیانت داری زیر سماعت ہے۔ اور سماعت کے دوران ملزم کے بارے میں منصف کی زبان سے نا مناسب الفاظ سنائی دیں۔ تو ملزم کیا کرے ؟ خصوصا ایسے حالات میں کہ ملزم کے لیے انصاف کا کوئی اور دروازہ موجودنہ ہو۔ ۔ وہ کسی اور عدالت میں جانے کا مجاز نہ ہو، اور نہ ہی اسے حق اپیل ہو۔ نظر ثانی کی البتہ وہ در خواست کر سکتا ہو، مگر ان ہی منصفوں کے پاس۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ یہاں ملزم سے مراد کوئی عام آدمی نہیں ہے۔ وہ ایک کھرب پتی شخص ہے ، جو اپنی صفائی کے لیے ملک کے مہنگے ترین قانون دانوں کی خدمات لے سکتا ہے۔ وہ تین دفعہ اس ملک کا وزیر اعظم رہا ہے۔ آج بھی اس ملک پر اس کے وفاداروں اور عزیز و اقارب کی حکومت ہے۔ اگر ایسے ملزم کی زبان پر حرف شکایت ہے، نا انصافی اور جانب داری کا شکوہ ہے ، تو کیا قانون اسے نظر انداز کر سکتا ہے ؟ اگر ہاں ؟ تو پھر عام آدمی کا کیا ہو گا۔ جس کے پاس وکیل کرنے اور انصاف مانگنے کا سامان بھی نہیں۔
دنیا نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کے آرٹیکل دس کے زریعے منصفانہ سماعت کے حق کو تسلیم کیا ہے۔ یہ ملزم کا بنیادی حق ہے، جو آئین میں درج ہے، ا ور آئین کو جمہوریت میں مقدس دستاویزسمجھا جاتا ہے۔ آئین کا احترام لازم ہے جناب، سب پرلازم ہے۔ جج پر بھی اور ملزم پر بھی۔
♥