آصف جیلانی
امریکا اور روس کے درمیان کشیدگی میں تیزی سے اضافے کے ساتھ دونوں ملک نئی سرد جنگ کے لئے نت نئے ہتھیار تیار کر رہے ہیں ، جن میں اولین فوقیت ’’مصنوعی ذہانت ‘‘ کو دی جارہی ہے ، جس کے بل پر دونوں ملک ایک دوسرے کے داخلی معاملات میں مداخلت کرنے ، جوہری اسلحہ کے نظام کو مفلوج کرنے ، مالی انتظام کو درہم برہم کرنے اور بنیادی سہولیات کے ڈھانچے کو مسمار کرنے کے لئے نئی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔
دوسری عالم گیر جنگ کے بعد سرد جنگ کے دوران ، سویت یونین اور مغربی طاقتوں نے جدید ٹیکنالوجی کی بنیاد پرجو ہتھیار تیار کئے ، اُ س میں سارا زور جوہری اسلحہ اور مزائلوں پر تھا۔ آج اس کی جگہ سوفٹ ویر نے لے لی ہے جو ساری دنیا میں کمپیوٹر کے نظام کو مفلوج کرنے اور حریف ممالک ایک دوسرے کو نشانہ بنانے کے لئے تیار کر رہے ہیں۔
روس میں مصنوعی ذہانت کی اہمیت پر بہت زور دیا جارہا ہے اور اسی مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر سوفٹ ویر تیار کیا جارہا ہے، جو انسانی ذہانت سے کہیں زیادہ سرعت سے ڈیٹا کی بنیاد پر فیصلے کر سکتا ہے، یہ مصنوعی ذہانت ، ڈرون حملوں، خود کار گاڑیوں اور سائبر سیکوریٹی کے شعبوں میں استعمال کی جا سکتی ہے۔
سن چالیس اور سن پچاس کے عشروں میں جس طرح حریف ممالک ، ٹیکنالوجی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے ، اسی طرح آج کل روس اور امریکا ایک دوسرے سے سائبر ٹیکنالوجی میں آگے بڑھنے کے لئے کوشاں ہیں۔ کوئی تعجب نہیں کہ سرد جنگ کا نیا دور، ایک دوسرے کے خلاف بڑے پیمانہ پر سائبر حملوں کا دور ثابت ہو۔
جہاں تک جوہری اسلحہ کا تعلق ہے روس اور امریکا نے اتنا جوہری اسلحہ ذخیرہ کر لیا ہے کہ سوائے ایک دوسرے کو خوف زدہ کرنے کے اس کا اور کوئی مقصد نہیں رہا ہے ۔ دونوں طاقتیں بخوبی جانتی ہیں کہ اگر انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف جوہری اسلحہ استعمال کیا تو وہ خود اپنی مکمل تباہی کو دعوت دیں گے۔ دونوں طاقتوں کے پاس اتنا جوہری اسلحہ ہے کہ وہ پوری دنیا کو پانچ سو بار تباہ کرسکتی ہیں۔
یوں عملی طور پر جوہری اسلحہ بے کار ہو چکا ہے اور اب امریکا اور روس کی ساری کوشش سائبر اسلحہ تیار کرنے پر ہے اورساری کوششیں برقی اور مصنوعی ذہانت کے ذریعہ جاسوسی کرنے پر مرکوز ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر ایک دوسرے کے جوہری اثاثوں اور تنصیبات ، بحر ی بیڑوں، آب دوزوں کو ناکارہ بنایا جاسکے ، مواصلات کے نظام ، انرجی کے پلانٹس کو درہم برہم کیا جا سکے ، مالی افرا تفری پھیلانے کے لئے بنکوں کے نظام کو ٹھپ کیا جاسکے اور ماحولیات کے نظام میں بارشوں، سیلابوں، زلزلوں اور خشک سالی کا انتشار اور خلفشار پھیلایا جا سکے ۔
گو اس بارے میں تصدیق سے نہیں کہا جا سکتا لیکن بین الاقوامی دفاعی ماہرین میں یہ بات عام ہے کہ مئی 2011 میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے لئے امریکی نیوی سیلز کے حملہ کے دوران سائبر حملہ کے ذریعہ پاکستان کی دفاعی تنصیبات کو مفلوج بنا دیا گیا تھا بالکل اسی طرح جس طرح اسرائیل نے 2007میں شام کی پلوٹونیم تیار کرنے والے ری ایکٹر پر حملہ کرنے سے پہلے شام کے فضائی نظام کو سائبر حملے کے ذریعہ مفلوج کر دیا تھا۔
♦