انور عباس انور
مشرق میں عورت کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنانا معمول کی بات سمجھی جاتی ہے، اور عورت کو صنف نازک قراردیکر مردانگی کی دھاک بٹھانا فخر مانا جاتا ہے۔ مشرقی عورت کو غلام ، خادمہ یا ملازمہ کا سٹیٹس دیکر مرد اپنی برتری قائم رکھے ہوئے ہیں۔جہاں عورت کو پاؤں کی جوتی یا زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے والی مشین سے تصور خیال کیا جاتا ہو، اس معاشرے میں عورت کا اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا کسی انہونی کے مترادف خیال کیا جانا کوئی حیرانگی کی بات نہیں ہوتی۔
ہمیں پڑھایا گیا ہے کہ عرب انتہائی گمراہی میں ڈوبی ہوئی قوم تھے۔ جہالت میں زندگی بسر کرتے تھے اور ان کی عقل پر تاریکی کے پردے پڑے ہوئے تھے ۔اس لیے وہ بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ زمین میں گاڑ دیتے تھے۔ عربوں کو بدو بھی کہا جاتا ہے ۔۔۔جب اس حوالے سے سوال کیا جاتا کہ عرب ایسا کیوں کیا کرتے تھے اور عربوں کو بدو کیوں کہا جاتا تھا؟توجواب ملتا کہ عرب اپنے ہاں بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیتے تھے اور اپنے ابا و اجداد کی غلط رسومات اور روایات پر عمل پیرا تھے۔
اس دلیل سے دل و دماغ مطمئن نہ ہوتا اور عرض کرتا کہ بچوں کو پیدا ہوتے ہی ماردینے کی روش تو آج بھی ہمارے اس معاشرے میں جاری ہے۔لوگ نوزائیدہ بچوں کو کوڑے کے ڈھیر پر پھینک جاتے ہیں اس سے بڑھ کر یہ کہ لوگ اپنے بچوں کو نالیوں اور گٹروں تک میں پھینکتے ہیں۔ جہالت کی تاریکی میں غرقاں عربی بدو تو بیٹیوں کو زندہ زمین میں دفن کرتے تھے مگر آج یہاں تو اپنے لخت جگروں کو گندگی کے ڈھیروں اور گٹروں میں پھینک رہے ہیں پھر جاہل اور بدو کون ٹھہرا۔ آج کا روشن اور ترقی یافتہ دور اور عربی بدوؤں کا معاشرہ؟
آج کے اس ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ دور میں بھی جب کوئی بیٹی اپنی پسند کی شادی کی خواہش کا اظہار کرتی ہے تو ہمارے ماتھے پر شکنیں پڑجاتی ہیں۔لیکن عرب کے معاشرے میں(جسے ہم غیر ترقی یافتہ اور ان پڑھوں کا دور کہتے ہیں) وہاں تو خواتین خود مردوں کو براہ راست نکاح کی پیش کشیں کیا کرتی تھیں۔
اس گھٹن زدہ معاشرے میں جہاں ایک دوسرے کی بات ،سوچ اورنکتہ نظر کو برداشت کرنے کا رواج نہ ہو وہاں اپنے لیے ، اپنے دیس کی محکوم و مجبور خواتین کے حقوق کی پامالی کے خلاف آواز بلند کرنا ، بھٹہ مالکان کے ہاتھوں زنجیروں میں جکڑ ے مزدوروں کو آزادی دلوانے کے لیے مافیاز کے خلاف عدالتوں اور عدالتوں سے باہر لڑنا وہ بھی ایک نہتی عورت کا عاصمہ جہانگیر کا ہی کام ہے۔
عاصمہ جہانگیر نے صرف بھٹہ مالکان اور خواتین کے حقوق کے لیے ہی آواز بلند نہیں کی ،اس نے تو بندوقوں اور سنگینوں سے مسلح فوجی آمروں کو بھی للکارا ہے۔ ہر آمر کے عوامی حقوق پر شب خون مارنے کے اقدام کے آگے عاصمہ جہانگیر سیسہ پلائی دیوار بن کے کھڑی ہوگئی جنرل یحییٰ خان کے مارشل لا کو عاصمہ جہانگیر نے اس وقت چیلنج کیا جب اسکی عمر محض 20 سال تھی۔ یحییٰ خان نے ان کے والد ملک غلام جیلانی کو مارشل لا ضابطے کے تحت گرفتار کیا تھا۔
پاکستان کی تاریخ میں ہماری عدالتوں میں تشریف فرمابہادر ججزنے اگر کسی فوجی جنرل کے مارشل لا لگانے کو غیر آئینی اور غیر قانونی قراردیا ہے تو وہ جنرل یحییٰ خان کا مارشل لاء ہے۔ اور اسے سپریم کورٹ میں عاصمہ جہانگیر نے ہی چیلنج کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے یہ تاریخی فیصلہ یحییٰ خان کی اقتدار سے علیحدگی کے بعد سنایا تھا۔
عاصمہ جہانگیر نے آمروں سمیت ہر ظلم کے خلاف لڑنا اپنے والد سے سیکھا تھا کیونکہ اس کے والد ملک غلام جیلانی بھی ملک میں ہونے والی ہر نا انصافی کے خلاف میدان میں نکل آتے تھے۔ اگرلوگوں نے انکا ساتھ نہیں بھی دیا تو وہ اکیلے ہی لاہور اور دیگر شہروں کی سڑکوں پر احتجاج کرتے دیکھے گئے۔ ایسے باپ کی آغوش میں پرورش پانے والی عاصمہ جہانگیر بھلا کیسے ظلم و زیادتی کے خلاف خاموش تماشائی بن سکتی تھی۔
عاصمہ بی بی کا ذکر کرتے ہوئے اس کے ساتھ کھڑے ہونے والوں کا تذکرہ نہ کیا جائے تو یہ انصاف نہیں ناانصافی کے زمرے میں آئے گا۔عاصمہ جہانگیر کا سایہ بن کر اس کے ساتھ جڑی رہنے والی کوئی غیر نہیں اس کی سگی بہن حنا جیلانی ہے۔اللہ اس کو ہمارے لیے،اس قوم کے لیے اور دنیا کے ہر مظلوم کے لیے کھڑا ہونے آواز بلند کرنے( کھڑی تو وہ پہلے بھی ہے اور آواز بھی بلند کرتی ہے) ہمت،جرآت اور طاقت دگنی چگنی عطاکرے اور وہ محکوموں ، مجبوروں اور بے سہاروں کو عاصمہ کی کمی محسوس نہ ہونے دے۔ اور حنا جیلانی کے روپ میں جمہوریت اور بنیادی انسانی حقوق پر شب خون مارنے والے آمروں کو عاصمہ جہانگیر ہی دکھائی دے۔
عاصمہ جہانگیر اور حنا جیلانی کے ساتھ میری ابتدائی ملاقات ضیائی مارشل لا کے ان ایام میں لاہور ہائی کورٹ میں ہوئی جب بھٹو صاحب کی درخواست ضمانت جسٹس کے ایم اے صمدانی کی عدالت میں زیر سماعت تھی۔ دونوں بہنیں ایک ساتھ لاہور ہائی کورٹ میں پہنچتیں، ہر وقت ان کے چہروں پر مسکراہٹ رقصاں ہوتی، ہر ایک سے ہنس ہنس کر بات کرتی ان دونوں بہنوں نے اپنے پروفیشنل دوستوں ، صحافیوں اور عوام الناس کے دلوں میں بسنے مقام حاصل کیا۔ ایم آرڈی کی بحالی جمہوریت کی تحریک میں بھی ان دونوں بہنوں نے لافانی کردار ادا کیا۔
ضیا الحقی کے دور میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی جلاوطنی ختم کرکے لاہور ائرپورٹ پر لینڈ کیاتو لاہور ائرپورٹ سے لیکر مینار پاکستان تک عوام کے سمندر میں بھی دونوں بہنیں موجود تھیں گویا انہوں نے دختر مشرق بے نظیربھٹو کو ’’جی آیاں نوں‘‘ کہنا گھر بیٹھنے سے ضروری خیال کیا۔ چونکہ میں دوسرے صحافیوں کے ہمراہ ٹرک پر سوار تھا اس لیے ساری موومنٹ کو دیکھ رہا تھا میں نے دیکھا کہ دونوں بہنیں اپنے ساتھ کامریڈ نقی کے ساتھ مینار پاکستان تک موجود رہیں۔ اور چپ چاپ نہیں بلکہ ضیا الحق کے خلاف اپنے روایتی انداز میں نعرے لگاتیں۔
عاصمہ جہانگیرآج جسمانی طور پرہمارے درمیان موجود نہیں لیکن وہ اپنی آئین اور قانون کی سربلندی ، جمہوریت کی بحالی و استحکام اور مظلوم طبقات کے حقوق کے لیے جدوجہد کی صورت میں ہمارے درمیان موجود ہے۔ حناجیلانی عاصمہ کا ہی روپ ہے۔ عاصمہ جہانگیر اور حنا جیلانی ایسے ہی ہیں جیسے لکشمی کانٹ پیارے لال، اور بخشی وزیر کام دونوں ملکر کرتے تھے لیکن نام سے لگتا تھا کہ ایک ہی فرد ہے۔
ایسے ہی عاصمہ جہانگیر اور حنا جیلانی کام ملک جل کر کرتی تھیں لیکن چہرہ عاصمہ جہانگیر کا ہوتا تھا۔ حنا جیلانی ہمت نہیں ہارنی ۔۔۔عاصمہ کی جدائی اور غم کو کمزوری نہیں بنانا بلکہ بقول بے نظیر بھٹو غم اور دکھ کو ہم نے اپنی طاقت بنانا ہے۔
عاصمہ جہانگیر نے اپنے صنف نازک ہونے کو حق اور حقوق کے لیے لڑنے کے راستے میں حائل نہیں ہونے دیا اور نہ ہی پولیس کی لاٹھیاں کھانے سے اس لیے انکار کیا کہ وہ ایک عورت ہے۔ پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذمہ داران کی آنکھوں میں ایک جری مرد کی طرح آنکھیں ڈال کر مکالمہ کیا۔ کون کہتا ہے کہ عاصمہ مرگئی۔۔۔ عاصمہ ہر بے سہارا ، مجبور و محکوم اور جمہوریت پسند کی صورت میں زندہ ہے اور زندہ رہے گی۔ عاصمہ جہانگیر تیری جدوجہد اور جرآت و ہمت کو سلام
♦