امکان ہے کہ پاکستان کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والے ملکوں کی فہرست میں ایک مرتبہ پھر شامل کیا جا سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اگر ایسا ہوتا ہے تو پاکستانی معیشت کو پیچیدگیوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اگلے ہفتے کے دوران بین الاقوامی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا اجلاس فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں ہو رہا ہے۔ اس اجلاس کے لیے امریکا اور اُس کے یورپی اتحادیوں نے قرارداد جمع کرائی تھی۔ ٹاسک فورس کا اجلاس طلب کرنے کی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ایسی جوہری طاقت کی حامل ریاستوں کی نگرانی کی جائے جو دہشت گردوں کی مالی معاونت کے علاوہ منی لانڈرنگ کے ضوابط کا احترام نہیں کرتی ہیں۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ قرارداد اور اس کے ممکنہ نتیجے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ امریکی حکومت کی وسیع تر اسٹریٹیجی کی عکاس ہے۔ اس قرارداد کے ذریعے حاصل ہونے والے ممکنہ فیصلے سے پاکستان پر معاشی دباؤ بڑھایا جائے گا تا کہ وہ افغانستان میں عدم استحکام کا باعث بننے والے عسکریت پسندوں کی حمایت سے پیچھے ہٹ جائے۔
اگر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کو اپنی ’’واچ لسٹ‘‘ میں شامل کر دیا تو پاکستانی حکومتی اہلکاروں کی نقل و حمل کے ساتھ ساتھ اُس کے بینکوں کو بین الاقوامی لین دین میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ٹاسک فورس کی جانب سے پاکستان کو زیرنگرانی ممالک میں شامل کرنے سے اُس کی اقتصادی شرح پیداوار کو شدید دھچکا لگ سکتا ہے۔
پاکستان عسکریت پسندوں کے ساتھ رابطوں کی تردید کرتا ہے۔ اسلام آباد حکومت کا دعویٰ ہے کہ اُس نے انسدادِ دہشت گردی کے قوانین میں سختی پیدا کرتے ہوئے دہشت گردوں کی سرگرمیوں کو مزید محدود کر دیا ہے۔لیکن عملی طور پر ایسا دکھائی نہیں دیتا۔ پاکستان کی فوجی ایسٹیبشلمٹ مسلسل انتہا پسند تنظیموں کی پشت پناہی کررہی ہے۔
عسکریت پسندوں کی مسلسل پشت پناہی سے پاکستان جنوبی ایشیائی خطے میں پہلے ہی سفارتی تنہائی کا شکار ہے۔ خطے کے دوسرے اہم ممالک، بھارت ، افغانستان اور ایران مل کر باہمی تجارت کو بھرپور فروغ دینے کے ساتھ ساتھ وسطی ایشیا کے ممالک تک بھی رسائی حاصل کر رہے ہیں۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر بھارت اور چین ، اختلافات کے باوجود معاشی طور پر آپس میں تعاون کر سکتے ہیں تو پاکستان اور بھارت ایسا کیوں نہیں کرسکتے۔
پاکستانی وزارت خزانہ کے ایک سینیئر اہلکار کے مطابق بظاہر ٹاسک فورس کی جانب سے ایسا کوئی فیصلہ کیا جاتا ہے تو اِس کے بہت شدید اثرات تو مرتب نہیں ہوں گے لیکن اس کو ایک اچھا فیصلہ بھی قرار نہیں دیا جا سکے گا۔
یہ امر اہم ہے کہ گزشتہ برس پاکستان کے ایک بڑے مالی ادارے حبیب بینک کو نیویارک سٹی میں قائم بینکنگ سیکٹر کی نگرانی کرنے والے امریکی ادارے نے 225 ملین ڈالر کا جرمانہ عائد کیا تھا۔ اس جرمانے کی وجہ حبیب بینک کا منی لانڈرنگ کے ضوابط کے منافی اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے کی سرگرمیاں خیال کی گئی تھیں۔ اس جرمانے کے بعد حبیب بینک امریکا میں اپنا آپریشن بند کرنے پر مجبور ہو گیا تھا۔
DW/News Desk