طارق احمدمرزا
اخبار ڈیلی ٹیلیگراف برطانیہ کے مطابق برطانیہ کے متعددممبران پارلیمنٹ اور ماہرین تعلیم نے مطالبہ کیا ہے کہ برطانوی یونیورسٹیوں کوغیرملکی،خصوصاً عرب ممالک سے(جن میں سعودی عرب سرفہرست ہے) ملنے والے بھاری عطیات پر پابندی لگائی جائے۔ان کا دعویٰ ہے کہ یہ غیرملکی عطیات ایک مخصوص اور خفیہ ایجنڈے کے تحت دیئے جاتے ہیں جن کا مقصدغیرجانبدارانہ معروضی تحقیقات پر اثر انداز ہونا اور محققین کی نئی نسل کوعطیہ دہندگان حکمرانوں کے سیاسی اورمسلکی نظریات کا ہمدرداورہمنوابنا کرنہ صرف اپنے عوام بلکہ عالمی برادری کی آنکھ میں دھول جھونکنے کی کوشش کرناہوتا ہے جس میں وہ کامیاب بھی ہو رہے ہیں۔
اخبارکے مطابق برطانوی ایجوکیشن سیلیکٹ کمیٹی کے چیئرپرسن رابرٹ ہلفون نے ایک بیان میں کہا کہ یونیورسٹیوں کوبہت احتیاط سے دیکھنا چاہیئے کہ انہیں عطیہ دینے والاہے کون ؟۔ایسے ممالک جہاں مطلق العنان ڈکٹیٹرشپ ہے اور وہاں حقوق انسانی کی پامالی ہورہی ہے ان سے عطیات وصول نہ کئے جائیں۔
بکنگھم یونیورسٹی کے سنٹر فارسیکیورٹی اینڈ انٹیلی جنس سٹڈیز کے ڈائریکٹر پروفیسر انتھونی گلیز کا کہنا ہے کہ جس طرح برطانوی سیاسی پارٹیوں پرغیرملکی عطیات وصول کرنے کی کڑی شرائط اور پابندیاں عائد ہیں یونیورسٹیوں کوبھی ان کا پابند بنایا جائے۔انہوں نے کہا کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کواعلیٰ ترین اخلاقی اور اصولی معیار وں کے ماتحت چلنا چاہئے نہ کہ زیادہ بولی دینے والوں کے !۔
http://www.telegraph.co.uk/education/2017/08/12/exclusive-universities-should-not-accept-donations-dictatorships/
اس سے قبل متعددانگریزی اور عرب اخبارات ورسائل نے انکشافات کئے تھے کہ کس طرح سے متعددمغربی ممالک کی یونیورسٹیاں جو اکثر مالی بحرانوں کا شکاررہتی ہیں،بھاری بھرکم خطیرغیرملکی عطیات بخوشی وصول کرتی رہتی ہیں۔اخبارات نے خبردار کیا تھا کہ یہ عطیات مفت میں نہیں دئے جاتے بلکہ ان کا باقاعدہ ایک مقصدہوتاہے ۔چنانچہ غیر محسوس طریق پریونیورسٹیوں کوہی نہیں بلکہ مغربی ممالک سمیت تمام عالمی برادری کوبعد میں ان’’عطیات‘‘ کی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔
سنہ 2012 میں اخبارفنانشل ٹائمز میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ گزشتہ دس برسوں میں برطانوی یونیورسٹیوں نے سب سے زیادہ اور بھاری بھرکم عطیات سعودی عرب سے وصول کئے تھے۔ان عطیات کے ذریعہ سے ان یونیورسٹیوں میں اسلامک سٹڈیز،مڈل ایسٹ سٹڈیز اور عرب لٹریچرکے شعبہ جات کی فنڈنگ کی گئی۔سعودی پرنس ولید بن طلال نے صرف سنہ 2008 میں کیمبرج اور ایڈنبرا یونیورسٹیوں کوآٹھ آٹھ ملین پاؤنڈ کے عطیات دیئے۔اسی طرح آکسفورڈ یونیورسٹی نے کنگ عبدالعزیزفاؤنڈیشن سے ایک ملین پاؤنڈ وصول کئے۔
سعودی عرب کے علاوہ شام،ایران،شارجہ،عمان،قطر ،لیبیا،ابوظہبی وغیرہ بھی برطانوی یونیورسٹیوں کی فنڈنگ کرتے ہیں۔آکسفورڈ یونیورسٹی کے اسلامک سنٹر نے عرب ممالک سے مجموعی طور پر75ملین پاؤنڈ کے عطیات وصول کئے۔
https://www.ft.com/content/b276dcc0-0893-11e2-b37e-00144feabdc0
برطانیہ کی طرح امریکہ کے اعلیٰ تعلیمی ادارے بھی عرب ممالک سے عطیات لیتے رہتے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 1976 میں سعودی عرب نے یونیورسٹی آف ساؤتھ کیلیفورنیا کو ایک ملین ڈالرعطیہ کیے۔ ہاورڈ یونیورسٹی کو 30ملین اورارکنساس یونیورسٹی کے مڈل ایسٹ سٹڈیز سنٹرکو20ملین ڈالرکی سعودی امدادملی۔
براہ راست عطیات دینے کے علاوہ ان مغربی تعلیمی اداروں کی سرپرستی کا ایک اور طریقہ مذکورہ عرب ممالک یہ اپناتے ہیں کہ مذکورہ بالا چوٹی کی یونیورسٹیوں کودعوت دیتے ہیں کہ وہ ان کے ملکوں میں اپنے برانچ کیمپس قائم کریں جن کے جملہ اخراجات بابت انفرا سٹرکچر،سٹاف کی تنخواہیں وغیرہ یہی عرب ممالک اٹھاتے ہیں۔عرب دنیا میں موجود ان مغربی یونیورسٹیوں میں بھی دنیا بھر سے آئے ہوئے طلبا و طالبات تعلیم حاصل کرتے ہیں۔کچھ اخراجات ان سے لی گئی فیسوں سے بھی پورے کئے جاتے ہیں۔
قارئین کرام یہ سب تفصیلات پڑھ کرپہلا سوال یہی ذہن میں اٹھتا ہے کہ چوٹی کے تعلیمی اداروں کی اتنے بڑے پیمانہ پر فنڈنگ تو بڑی اچھی بات ہے، اس میں قباحت کیسی اور اعتراض کس بات کا؟۔اسی طرح مشرق وسطیٰ اور عرب ثقافت،شعروادب وغیرہ کی دنیا بھر میں ترویج،لوگوں کو مختلف موضوعات پر تحقیق خصوصاً اسلامی تعلیمات کے مختلف پہلؤں سے روشناس کروانے کی غرض سے تعلیمی وظائف کا اجراوغیرہ تو نہایت مستحسن مساعی ہے وغیرہ۔
منطقی اور اصولی لحاظ سے تو واقعی علم و حکمت کی ترویج کی مدمیں لگایا جانے والاایک پاؤنڈ،ایک ڈالراوراسی طرح ایک درہم اور ایک دیناربھی صدقہ جاریہ کا مقام اور درجہ رکھتاہے جبکہ یہاں تو مخیرعرب اور دیگر مشرقی ممالک کئی کئی ملین کے عطیات دے کر بظاہرثواب کماتے نظرآ رہے ہیں لیکن مذکورہ بالاتعلیمی عطیات کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جب کوئی مشرقی ملک مغرب کی کسی یونیورسٹی میں مڈل ایسٹ سنٹریا اسلامک سٹڈی سینٹڑ یا اورئنٹل سنٹر قائم کرتا یا چلاتا ہے تو عطیہ کے ساتھ یہ ’’درخواست‘‘(یعنی شرط)بھی رکھ دیتا ہے کہ اس سینٹر کے مینجمنٹ بورڈ اور اکیڈیمک بورڈ میں ان کی مرضی کے بندے بھی شامل ہوں گے۔یہ بندے اس لئے رکھوائے جاتے ہیں تاکہ وہ اس بات کی نگرانی کریں کہ ان اداروں میں عطیہ دینے والے ملک میں رائج جو سیاسی نظام(مثلاً بادشاہت)رائج ہے اور اسی طرح وہاں جس برانڈ کا اسلام نافذ ہے (مثلاً وہابیت) اس کے مخالف کوئی تحقیقی کام نہ کروایا جائے اورنہ ہی کسی اورمسلکی اسلام کی مبادیات یا فروعات کے بارہ میں لیکچر یا سٹڈی یونٹ نصاب میں شامل کئے جائیں ۔
اس ضمن میں ایک امریکی ماہردینیات ڈینس میک اِیواِن نے اپنے تحقیقی مقالہ میں لکھاہے کہ دم تحریر سعودی عرب دنیابھرمیں’’ اسلامک سٹڈیز ‘‘کے نام پہ وہابیت پھیلانے کے لئے اب تک سوبلین ڈالر ’’عطیات‘‘ کی شکل میں خرچ کرچکا ہے۔
مقالہ نگارنے بتایا کہ ایک سینئربرطانوی پروفیسرجواسلامی تصوف اور روحانیت میں دلچسپی رکھتا ہے اور اسلامی تاریخ اور دیگرعلوم پرکمال دسترس رکھتا ہے اس نے نیوکیسل یونیورسٹی کے دینیات کے نصاب میں تصوف شامل کرواکر اس کے بارہ میں اور اسی طرح شیعہ اسلام کی تاریخ اور اصولوں پرلیکچر شروع کئے تو سعودی عطیہ دہندگان نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے نہ صرف نصاب میں تبدیلی کروائی اور مذکورہ پروفیسر کونوکری سے ہی برخواست کروادیا بلکہ اس کی جگہ ایک ایسے سعودی باشندے کولیکچررتعینات کروادیا جس کی واحد قابلیت یہ تھی کہ وہ وہابی تھا۔اس نے پی ایچ ڈی بھی اسلامیات نہیں بلکہ انگلش لٹریچر میں کی ہوئی تھی۔چونکہ یہ لیکچررشپ سعودی امداد سے ہی چل رہی تھی لہٰذا یونیورسٹی کے دیگر ماہرین تعلیم کے شدیداحتجاج کے باوجودانتظامیہ کو اس نااہل’’پروفیسر‘‘کاتقررردکرنے کی ہمت نہ ہوئی۔
ایک رپورٹ کے مطابق آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیوں کے اسلامک سٹڈی سنٹرز کی بعض تقرریاں سعودی پرنس الولیدکے حکم پرکی گئی تھیں کیونکہ وہ ان سٹڈی سنٹرزکے ’پرنسپل ڈونر‘ تھے۔
مقالہ نگارڈینس، جو گیٹس سٹون انٹی ٹیوٹ کے سینئر فیلو ہیں اور فارسی عربی زبانوں میں ایم اے اور پرشئین اینڈ اسلامک سٹڈیز میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حامل ہیں، لکھتے ہیں کہ بحیثیت ماہر تعلیم میں یہ پوچھتا ہوں کہ کیابرطانوی یونیورسٹیوں کو یہ یہ بات کسی بھی طرح زیبا دیتی ہے کہ ان کا نصاب فرقہ وارانہ تعصب کے زیراثر ہو؟۔یہ تعلیم اور تحقیق تو نہ ہوئی۔تدریس ،تعلیم اور تحقیق تو غیرجانبدار،آزاد اورمعروضی ہوتی ہے۔
یہ ایک تاریخی المیہ ہے کہ روشن خیالی پرمبنی ہمارا تعلیمی نظام رجعت پسندبنیادپرستوں کے ہاتھ گروی چڑھ چکا ہے،کیا صرف اس لئے کہ ان سے ہمیں مالی امداد مل رہی ہے۔
آپ کے نزدیک یہ المیہ مذہبی دہشت گردی سے بھی زیادہ سنگین نوعیت کاالمیہ ہے جس نے مغربی دنیا کواپنی لپیٹ میں لے لیا ہواہے۔
“Western Universities: The Best Indoctrination Money Can Buy.” by Denis MacEoin
مغربی یونیورسٹیوں کو لاحق اس المیہ کا ایک تاریک پہلو یہ بھی ہے کہ مذکورہ بالا ناہل قسم کے لیکچرر اور ’’پروفیسروں‘‘کو ان یونیورسٹیوں میں تعینات کروانے کے بعد انہیں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے مختلف فورمز میں بحیثیت ’’دانشور‘‘اور ’’تھنک ٹینک‘‘ کے طور پر پیش کروایا جاتا ہے۔لوگ انہیں غور سے اس لئے سنتے ہیں کہ وہ انہیںآکسفورڈ یا ہاورڈیونیورسٹیوں سے وابستہ ’’ماہرین‘‘ سمجھ رہے ہوتے ہیں جبکہ وہ محض ’’ہز ماسٹرز وائس‘‘کے طور پر رجعت پسندی یا قرون وسطیٰ کے زمانہ میں ایجادکردہ فقہ اور نام نہاد اسلامی قوانین کا دفاع کررہے ہوتے ہیں۔غیر مسلم سفیدفام اور مغربی نوجوان ان کے پیش کردہ اس اسلام کو ہی اصل اسلام سمجھ لیتی ہے۔
ایک پاکستانی نژادمحقق نے بتایا کہ ان کا ارادہ ایک برطانوی یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات میں داخلہ لیکر تحقیق کرنا تھا۔لیکن جب انہوں نے انٹرویومیں بتایا کہ وہ اسلام سے متعلق کچھ منتازعہ امور کے بارہ میں ریسرچ کرنا چاہتے ہیں تو نہایت سختی اور بے دردی سے انہیں دھتکار دیا گیاکہ اس قسم کی تحقیق کی یہاں قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔بہتر ہے تم ذاتی طور پر مواد اکٹھا کرکے کوئی کتاب شائع کرلو لیکن اس پر بھی یہ توقع مت رکھنا کہ ہم اس قسم کی کتاب کو اپنی لائبریری کی زینت بنائیں گے۔
اسلامی ممالک کی جانب سے برطانوی یونیورسٹیوں کو بعض اوقات ایک اور غرض سے بھی عطیات دئے جاتے ہیں جس کی وضاحت ایران کی مثال سے کی جاسکتی ہے۔سنہ1999 میں مبینہ طور پر یونیورسٹی آف لنڈن کے سکول آف او ر ئنٹل اینڈ ایفریقن سٹڈیز کو ایرانی حکومت نے 35,000 پاؤنڈ کی امداد دی جس کے ذریعہ دوعدد سٹوڈنٹ سیٹیں قائم کی گئیں۔ان میں سے ایک سیٹ پر ایک ایسے شیعہ عالم کوسکالرشپ دے کربھجوایا گیا جو انقلابی حکومت کے قریبی حلقوں میں شمار ہوتا تھا۔اور پھر ایرانی حکومت کے ایک عہدیدارکو اسی ’’طالبعلم‘‘کو لندن یونیورسٹی میں لیکچر دینے کے لئے بھجوایاگیا جس نے آیت اللہ خمینی اور ماڈرن اسلام کے موضوع پر لیکچر دیا۔
اس تمام کارروائی کا مقصد ایک تیر سے چار شکارکرنا تھا۔اول تواس لاڈلے ایرانی طالبعلم کو لندن یونیورسٹی سے ڈگری یافتہ بنوانا،دوسرے حکومتی عہدیدار کو لندن یونیورسٹی کا وزٹنگ لیکچرر ثابت کروانا،سوم شیعہ اسلام کو پروگریسو اور ماڈرن ثابت کروانا اور چہارم لندن یونیورسٹی جیسے مشہور عالم مغربی تعلیمی ادارے میںآیت اللہ خمینی کا سافٹ امیج متعارف کروانا۔
برطانوی اخبارات مثلاًڈیلی ٹیلگراف کا یہ بھی کہنا ہے کہ دولتمندمشرقی ممالک جہاں شخصی یا مطلق العنان حکومتیں قائم ہیں اور جہاں انسانی حقوق کی حالت ناگفتہ بہ ہے اس لئے بھی مغربی یونیورسٹیوں کی فنڈنگ کرتے ہیں تاکہ عالمی پلیٹ فارم پران کے خلاف وہاں کے دانشور کوئی آواز نہ اٹھائیں۔ان کا نمک جو کھایا ہوتا ہے!۔
اسی طرح سے مبینہ طور پر مڈل ایسٹ سٹڈیز سنٹرزپر بھی مختلف عرب حکومتیں اثر انداز ہوتی ہیں۔چنانچہ مثال دی جاتی ہے کہ قطر کی فنڈنگ جس سنٹرکو جارہی ہوتی ہے وہاں کے ’’سکالرز‘‘ کا مڈل ایسٹ جدا ہے جبکہ (ماضی میں)لیبیا کے معمر قذافی کی امدادسے چلنے والا مڈل ایسٹ سنٹر جو کسی دوسری برطانوی یونیورسٹی میں قائم تھا اس کا مڈل ایسٹ کچھ اور قسم کا!۔
بتایا جاتا ہے کہ عصر حاضر کے اسلامی ممالک نے یہ طریقہ(جو جدید طرز کا ایک پروپیگنڈہ سسٹم ہے) چین سے سیکھا ہے۔چین انسانی حقوق کے حوالے سے ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنتارہا ہے جس کا اثر زائل کرنے کے لئے مبینہ طور پرچین نے مغربی نوجوان نسل اور ان کی تعلیم وتربیت کرنے والے معلمین، محققین، ایکٹوسٹ اور دانشور طبقہ کا رخ چین کے ’’سوفٹ امیج‘‘ کی طرف پھیرنے کے لئے مغربی یونیورسٹیوں میں ’’کنفیوسش سنٹرز‘‘قائم کرکے دئے ہیں۔ان سنٹرز میں کنفیوسش کے فلسفہ اور تعلیم پر ریسرچ کے نام پر چینی حکومت دل کھول کر ان یونیورسٹیوں کو عطیات دیتی ہے جسے وہ بخوشی قبول کر لیتی ہیں۔
مبصرین اس قسم کی بیرونی فنڈنگ (جو پوشیدہ سیاسی اور مسلکی مقاصدکی حامل ہوتی ہے)کے خلاف کافی عرصہ سے آواز اٹھاتے چلے آ رہے ہیں لیکن ان یونیورسٹیوں کی انتظامیہ وغیرہ اس فنڈنگ اور عطیات وغیرہ سے جڑے مبینہ مضمرات اوردور رس نقصانات کو ہمیشہ ردکرتی چلی آئی ہیں۔
اب جب کہ برطانیہ کے ممبران پارلیمنٹ نے بھی اس حوالے سے صدائے احتجاج بلند کی ہے تو دیکھنایہ ہے کہ برطانوی یونیورسٹیاں اپنی ساکھ اور شہرت بچانے میں کس حد تک آمادگی اور سنجیدگی دکھاتی ہیں۔ یہ بات تو بہرحال طے ہے کہ برطانوی حکومت اتنی مالی استطاعت نہیں رکھتی کہ یونیورسٹیوں کو ملنے والی کئی ملین پاؤنڈ کی اس بیرونی فنڈنگ کو یکسر اور یک لخت ہی بندکردے،نہ ہی یونیورسٹیوں کے اپنے کوئی خاص مالی وسائل یامتبادل ذرائع آمدن ہیں۔یہ البتہ ضرور کیا جا سکتا ہے کہ بیرون ملک سے آنے والے عطیات یونیورسٹیوں خصوصاً ان کے کسی شعبہ کو براہ راست نہ ملیں بلکہ کسی مرکزی ادارہ مثلاً یونیورسٹی گرانٹس کمشن وغیرہ کے پاس غیرمشروط طورپر جمع ہوں اور وہ پھراپنے طور پریونیورسٹیوں کو بہم پہنچائیں۔
اس انتظام کے علاوہ یہ بھی دیکھا جانا ضروری قرار دیا جائے کہ عطیات دینے والاہے کون اور اس کا ریکارڈکیسا ہے۔ورنہ کل کو فاشسٹ ،ڈکٹیٹر حکمران اورکرپٹ سیاستدان اور پھرانتہاپسند،دہشت گرد تنظیمیں اور مختلف قسم کی مافیا بھی دھڑلے سے برطانوی اور امریکی یونیورسٹیوں کی فنڈنگ کرتی نظرآرہی ہونگی۔
انگلستان کی ایک یونیورسٹی سے فارغ التحصیل طالبعلم کی حیثیت سے اس عاجز کی یہی تمنا ہے کہ اس قسم کی خوفناک نوبت کبھی بھی،کبھی بھی نہ آئے۔
♦