فری مارکیٹ اکانومی پاکستان کی پائیدارمعاشی اور سماجی ترقّی کا زینہ ہے

آصف جاوید

فری مارکیٹ اکانومی  یا آزاد معیشت ایسے نظامِ معیشت کو  کہتے ہیں،  جس میں اشیاء اور خدمات کی قدر (قیمتکا تعیّن مکمّل طور پر مارکیٹ  میں موجود  رسد اور طلب کی بنیادی قوّتوں  پر قائم ہوتا ہے۔ اشیاء اور خدمات کی قیمت متعیّن کرنے میں حکومت کی پالیسیوں اور کنٹرول کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔

دوسرے لفظوں میں ہم کہ سکتے ہیں کہ فری مارکیٹ یعنی آزادمنڈی  ایک  ایسا نظامِ  معیشت ہے ،جس میں  منڈی کی حرکیات (ڈائنمکس)  کو کنٹرول کرنے میں ریاست کا  کوئی  کردار یا عمل دخل نہیں  ہوتا ہے ۔ معیشت اپنی   زمینی،  سیاسی، سماجی و معاشی حرکیات  (ڈائنمکس) کے  بل پر چلتی ہے۔دنیا میں  آج جو صنعتی انقلاب  رونما  ہوا ہے ، اس میں  آزاد منڈی  کے فیوض و برکات کا بہت عمل دخل  ہے۔

  فری اکانومی مارکیٹ  میں ایک  تاجر ، صارف کی ضرورت  کو طے شدہ معاوضے پر پوری کرتا ہے۔ فری مارکیٹ اکانومی میں نجی ملکیت بغیر حدود و قیود کے ہوتی ہے۔ منڈی مکمل طور پر آزاد ہوتی ہے۔ سرمایہ کی ترسیل اور نقل و حرکت  اور ملکیت آزاد ہوتی ہے۔ منافع  کی حد کے تعیّن پر حکومت یا کسی ادارہ کا اختیار نہیں ہوتا۔

 فری مارکیٹ اکانومی میں  قیمتیں بھی طلب و رسد کے توازن سے متعین ہوتی ہیں ، چاہے طلب مصنوعی ہو یا چاہے رسد کو سرمایہ دار قیمت بڑھانے کے لیے مصنوعی طور پر کم  یا زیادہ کریں، یہ مصنوعی اتار چڑھائو غیر اخلاقی نہیں ہوتا۔ آزاد معیشت میں منڈی کی قوتیں اپنے آپ کو ایک خودکار نظام کے تحت درست کرنے کی صلاحیت  رکھتی ہیں ۔ چنانچہ سرمایہ دارانہ نظام میں حکومت یا کسی ادارہ کی منڈی میں مداخلت کا تصور حقیقی سرمایہ دارانہ نظام کی روح کے خلاف  سمجھا جاتا ہے۔

جاگیردارانہ ملوکیت کے عہد میں تجارت اور معیشت  پر ریاست کا کنٹرول ہوتا تھا، لگان، راہداری اور مالکانہ  حق بھی بادشاہ کی مرضی سے مقرّر کیا جاتا تھا۔ لیکن 15اور16ویں صدی میں جدیدیت، روشن خیالی اور انسانی آزادی کا  تصورپیش کیا گیا، انسانی آزادی کے جدید تصوّر کے مطابق  انسان ایک آزاد وجود  قرار پایا، اور انسان کی سوچ و فکر،  مذہب اور عقیدہ، افعال و کردار، افکار و خیالات کو آزاد قرار دیا گیا۔

اس تصوّر آزادی کے مطابق کسی انسان کو  کسی دوسرے انسان پر، کوئی حقِ ملکیت،   یا حق تصرّف واختیار نہیں ہے۔ کوئی کسی کا گاڈ فادر نہیں۔ ان افکار و خیالات  کو لبرل ازم کا نام دیا  گیا۔

فری مارکیٹ اکانومی یا آزاد معیشت کا تصوّر   لبرل سوسائٹی کی تشکیل سے وجود میں آیا تھا۔ لبرل ازم کا اصل مقصد معاشی سرگرمیوں کی آزادی دینا تھا۔ کیونکہ تجارت و معیشت پر ریاست کی گرفت کی وجہ سے معیشت بند گلی میں داخل ہو چکی  تھی ۔ تاجر اور صنعتکار ریاستی پابندیوں کی وجہ سے اپنی تجارتی سرگرمیاں  آزادانہ طور پر انجام نہیں دے سکتے تھے۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ دنیا میں آج تک ایسا کوئی معاشی نظام وجود میں نہیں آیا  ، جو منافع کے حصول کے بغیر  ہو، معیشت کا  منطقی نتیجہ حصولِ منافع  ہوتاہے۔ منافع کو اگر خارج از امکان کر دیا  جائے تو معیشت کا پہیّہ رُک جاتا ہے۔ معیشت  منجمد ہوجاتی ہے ۔  ڈیمانڈ اور سپلائی کی کشمکش ہی معیشت کو تحریک فراہم کرتی ہے۔ معیشت پر اگر ریاست کا قبضہ ہو تو معیشت کا گلا گھونٹ جاتا ہے۔

اگر انسانی معاشی سرگرمی کسی جذبہ محرکہ  یعنی منافع کے حصول کے بغیر ہو تواس میں انسانی دلچسپی کا عنصر ختم ہوجاتاہے ،  اور تمام معاشی سرگرمیاں بیگار یا جبری مشقّت کے زمرے میں چلی جاتی ہیں۔ یہ منافع ہی ہے، جو انسان کو بہتر سے بہتر اور خوب سے خوب تر کی تلاش میں سرگرداں رکھتا ہے۔ اس ہی جذبہ محرّکہ سے معاشی ترقی کا پھیلاؤہوتا ہے۔ انسان  مالی منفعت اور معاشی فوائد کے لئے نت نئی ایجادیں اور جدتیں پیدا کرتا ہے۔  اشیاء و خدمات کے نئے تصوّرات تخلیق کرتا ہے۔  اشتراکی نظامِ معیشت  میں ذاتی ملکیت یا ذاتی منافع، یا حصولِ منافع  کا کوئی تصوّر نہیں ہے، اس ہی لئے اشتراکی نظام دنیا سے ختم ہوتا جارہا ہے۔

فری مارکیٹ اکانومی میں ذرائع پیداوار کا مالک کوئی بھی ہو سکتا ہے،  ملکیت کا حق دراصل آپ کا وہ اجر یا معاوضہ ہے جو آپ کو آپ کی محنت، ذہانت، صلاحیت اور مشقت کے بعد ملتا ہے۔ جبکہ اسکے برعکس اشتراکی نظام میں پیداواری وسائل پر ریاست اور چند لوگوں  (پولٹ بیورو)کا قبضہ ہو تا ہے ،جو اپنی مرضی سے پیداواری وسائل کا استعمال اور تقسیم کرتے ہیں۔ اشتراکی نظام حکومت  میں ملکیت کے تصور کے خاتمے کے ساتھ ہی مقابلہ بازی کا رجحان بھی ختم ہو جاتا ہے۔

 ترقی، پیداواری اضافے اور خوشحالی کے لئے مسابقت اور مقابلہ بازی کا رجحان  ہونا بہت ضروری ہے۔  معیشت اسی وقت پھلتی پھولتی اور ترقی کرتی ہے ، جب کاروبار کرنے کی سب کو آزادی ہو ، مقابلہ بازی کا صحت مند رجحان  موجود ہو ،تاکہ سب کی یہی کوشش ہو کہ وہ زیادہ سے زیادہ پیداوار بڑھائیں،  کوالٹی میں بہتری  لائیں، اشیاء اور خدمات میں جدّت طرازی ہو،  تاکہ ان کی  اشیاء یا خدمات زیادہ سے زیادہ بکیں اور انہیں  زیادہ سے زیادہ منافع ہو ۔

اشتراکی نظام میں یہ سب کچھ نہیں ہوتا ۔ پیداواری ذرائع حکومت کے کنٹرول میں ہوتے ہیں ۔ حکومت کو نہ تو کاروبار کا تجربہ ہوتا ہے ۔ اور نہ ہو وہ بہتر طریقے سے کارخانے چلا سکتی ہے۔  جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حکومتی اداروں میں بدنظمی   اور بے دلی پیدا ہوتی ہے ۔حکومتی ادارے خسارے میں چلتے ہیں ، مقابلے بازی کا رجحان نہیں ہوتا ، جس کی وجہ سے حکومتی پیداوار میں کوالٹی نہیں رہتی . بری سروس اور بری مصنوعات کی وجہ سے لوگوں کی دلچسپی کم یا ختم ہو جاتی ہے،  اسی لئے آپ دیکھتے ہیں کہ نہ تو اشتراکی نظام زیادہ دیر چلتا ہے اور نہ ہی  اشتراکی حکومتوں کے کاروباری ادارے زیادہ عرصہ کاروباری دنیا میں چل پاتے ہیں۔

فری مارکیٹ اکانومی میں آزاد معیشت کو بھی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی ایسے حالات بھی پیدا ہوتے ہیں کہ ریاستیں مالی بحران کا شکار صنعتی اور  تجارتی ادروں کو مالی امداد یعنی بیل آؤٹ پیکیج  کے ذریعے  ڈوبنے سے بچاتی ہیں، اور بحرانوں سے نکالتی ہیں۔ فری مارکیٹ اکانومی میں ریاستیں ، منڈی کے معاملات  پر نظر رکھتی ہیں،  مشکل وقت اور بحرانوں میں مدد کے لئے سامنے آتی ہیں، ۔

بظاہر یہ سمجھا جاتا ہے کہ امریکہ اور مغربی یورپ، فری مارکیٹ کا حقیقی مرکز ہیں،  جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان ملکوں کی حکومتیں بھی مارکیٹ میں مداخلت کرتی ہیں ۔  مگر ان کی یہ مداخلت منڈی پر تسلّط کے لئے نہیں ہوتی بلکہ معیشت کے پہیےکو رواں دواں رکھنے کے لئے ایک مثبت اور تعمیری کوشش ہوتی ہے۔

سنہ 2008  کے مالیاتی بحران کے بعد امریکی حکومت نے اپنی منڈی کی معیشت کو چلانے کے لئے بے پناہ تعاون فراہم کیاتھا۔اور بیل آؤٹ  قرضوں کے ذریعہ زوال پذیر ہوتی ہوئی فری مارکیٹ (آزاد منڈی) کو سہارا دیا تھا۔

کہنے کو تو پاکستان میں فری مارکیٹ اکانومی سسٹم رائج ہے، مگر پاکستان میں معیشت مکمّل طور پر آزاد نہیں ہے۔ معیشت پر ریاست کے علاوہ دوسری قوّتوں کا  بھی مختلف صورتوں میں  کنٹرول ہے۔

حکومت کی تجارتی و صنعتی پالیسیاں، ٹیکسز، سرچارج کی مد میں اضافی لاگت کا بوجھ، صنعتوں کے قیام کے لئے حکومتی منظوری،  پرمٹ اور کوٹہ ، تجارت میں اسٹیٹ بنک کی پالیسیاں،  ٹیرف کنٹرول، اجناس کی امدادی قیمتیں، اشیائے خوردونوش  کی قیمتوں پر حکومتی کنٹرول،  زرعی اجناس کی قیمتوں کا حکومت کی جانب سے تعیّن، مصنوعی کھاد اور زرعی کیمیکلز پر قیمتوں کا کنٹرول، جبری مشقّت، بانڈیڈ لیبر، ٹھیکیداری نظام ، جاگیرداری،  وڈیرہ شاہی، سیٹھ ازم،  نوکر شاہی کے مفادات، حکمرانوں کے کاروباری مفادات، نواز شریف،  جہانگیر ترین اور ملک ریاض جیسے بااثر بزنس ٹائیکون کے معیشت دشمن  کاروباری مفادات ۔

 یہ سب قوّتین مل کر  پاکستان میں فری مارکیٹ اکانومی کے تصوّر کو پامال کررہی ہیں۔ ان سب قوّتوں کی موجودگی میں پاکستانی معیشت آزاد نہیں ہے، بلکہ ان طبقات کے زیرِ اثر اور زیرِ تسلط  ہے۔عوام کم قیمت پر معیاری اشیاء و خدمات کے حصول سے محروم ہیں۔ پاکستان میں معاشی ترقّی و خوشحالی کے لئے ضروری ہے کہ معیشت آزاد ہو،  حکومت کی پالیسیاں  عوام اور ملکی معیشت کے مجموعی مفاد میں ہوں نہ کہ طاقتور اور بااثر طبقات  کے منافع اور ان کی خوشنودی اور فائدے کے لئے۔

آزاد مقابلہ کی فضا ہو، سب کے لئے یکساں چیلنجز اور یکساں خطرات و مواقع ہوں۔  حکومت کا کام انصاف کے ساتھ بنیادی معاشی ریگولیٹرز کو ریگولیٹ کرنا ہو، معاشی پالیسی پر سختی سے عمل پیرا ہونا  ہو۔ یہ جاگیردار، سیٹھ، بزنس ٹائیکون، نوکرشاہی، سب  ملکی معیشت کے پیراسئیٹس(مفت خورے) ہیں۔ یہ معیشت کا خون چوس رہے ہیں۔حکمرانوں کو سمجھنا ہوگا کہ فری مارکیٹ اکانومی  ہی پاکستان کی پائیدارمعاشی اور سماجی ترقّی کا زینہ ہے۔  


Comments are closed.