ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی بھارت میں

ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی جمعرات سے بھارت کا تین روزہ دورہ شروع کر رہے ہیں۔ اس دوران دونوں ملکوں کے درمیان کئی اہم معاہدوں پر دستخط ہونے کی امید ہے۔ روحانی حیدرآباد کی تاریخی مکہ مسجد میں جمعہ کا خطبہ بھی دیں گے۔

بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے صدر روحانی کے دورے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم مودی اور ایرانی صدر ڈاکٹر روحانی باہمی تعلقات میں ہوئی پیش رفت کا جائزہ لیں گے اور باہمی مفادات نیز علاقائی اور بین الاقوامی امور پر تبادلہ خیال کریں گے۔ دونوں رہنماؤں کی افغانستان کی صورت حال پر بھی بات چیت ہو گی۔

 صدر روحانی کے ساتھ ایک اعلٰی سطحی اور کافی بڑ اوفد بھی آرہا ہے۔ وہ ہفتہ کے روز بھارتی صدر رام ناتھ کووند سے بھی ملاقات کریں گے۔
صدر روحانی کے اس دورے کی ایک اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنا دورہ دہلی کے بجائے جنوبی شہر حیدرآباد سے شروع کررہے ہیں۔ وہ قطب شاہی دور کی1694ء میں تعمیر کردہ تاریخی مکہ مسجد میں جمعہ کا خطبہ دیں گے۔ سنی مسلمانوں کی اس مسجد کی 325 سالہ تاریخ میں یہ غالباً پہلا موقع ہوگا جب کوئی سربراہ مملکت اور وہ بھی شیعہ فرقہ سے تعلق رکھنے والا جمعہ کا خطبہ دے گا۔

حیدرآبا د میں صدر روحانی کی آمد اور وہاں ان کے پروگرام کے حوالے سے صحافی واجد اللہ خان نے ڈی ڈبلیو کو فون پر بتایا، ’’شہر میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں، ایرانی سکیورٹی اہلکاروں نے مکہ مسجد کا معائنہ کیا اور تیاریوں کا جائزہ لیا‘‘۔

 انہوں نے مزید بتایا، ’’صدر روحانی مکہ مسجد میں اپنے خطاب سے ایک تاریخ رقم کریں گے۔ قطب شاہی عہد کے پانچویں فرمانروا محمد قلی قطب شاہ نے تاریخی مکہ مسجد تعمیر کرائی تھی۔ اس دور کی زبان فارسی تھی۔ اس طرح صدر ایران کا فارسی میں خطاب ایک تاریخ کی یاد دہانی کرائے گا۔

حیدرآباد دکن کے چھٹے نظام نواب میر محبوب علی خان کے دور تک یہاں فارسی کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل تھا اور تمام سرکاری کام کاج و دستاویزات فارسی میں ہی ہوا کرتے تھے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حیدرآباد کے آرکیٹکٹ میر مومن ایرانی تھے اور حیدرآباد کا تاریخی چار مینار، ایران کے مشہد میں واقع حضرت امام رضا کے روضہ کی طرز پر تعمیر کیا گیا ہے‘‘۔

ایرانی صدر روحانی ایسے وقت میں بھارت آرہے ہیں جب امریکا اور اسرائیل نے ایران کے خلاف اپنا موقف سخت کرتے ہوئے تہران پر مزید شکنجہ کسنا شروع کردیا ہے۔ دوسری طرف وزیر اعظم نریندر مودی خلیجی ممالک اور مغربی ایشیا سے اپنے تعلقات کو مستحکم کرنے اور وسعت دینے کی کوشش کررہے ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے دور حکومت میں بھارت اور ایران کے تعلقات کافی مستحکم ہوئے ہیں۔ اس سے قبل نقل و حمل کے ایرانی وزیر نومبر سن2014 میں اور ایرانی وزیر خارجہ اگست 2015 ء میں بھارت کے دورے پر آئے تھے۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج اور تیل و قدرتی گیس کے وزیر دھرمیندر پردھان اپریل سن 2016 میں ایران گئے تھے۔ 

اس کے ایک ماہ بعد مئی 2015ء میں وزیر اعظم نریندر مودی نے ایران کا دورہ کیا تھا۔ 2003ء میں جب وزیر اعظم اٹل بہار واجپئی کی قیادت والی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت تھی اس وقت کے ایرانی صدر محمد خاتمی نے بھی بھارت کا دورہ کیا تھا۔ وہ یوم جمہوریہ پریڈ کے مہمان خصوصی بھی تھے۔

توانائی کے شعبے میں باہمی تعاون صدر روحانی اور وزیر اعظم مودی کے درمیان بات چیت کا اہم موضوع ہوگا۔ بھارت اپنی تیل کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اسی فیصد درآمدات پر انحصار کرتا ہے۔ اسے اپنی تیز رفتار اقتصادی ترقی کے لیے تیل کی اشد ضرورت ہے اور ایسے میں ایران کے ساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون بھارت کے لیے ہر لحاظ سے فائدے کا سودا ہوگا۔

یوں بھی ایران، سعودی عرب اور عراق کے بعد بھارت کو تیل سپلائی کرنے والا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ (اپریل۔ دسمبر2017) کے دوران ایران سے بھارت کو تیل کی سپلائی بڑھ کر بیس ملین ٹن ہوچکی ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت افغانستان تک رسائی کے لیے ایران کے چاہ بہار بندرگاہ کو استعمال کر رہا ہے اور اس سے بھارت کو پاکستان کے گوادر بندرگاہ پر چین کی موجودگی کا مقابلہ کرنے میں مدد ملے گی۔ گزشتہ ماہ ہی بھارت نے ٹرانسپورٹیشن نیٹ قائم کرنے کے لیےاشک آباد معاہدہ کیا تھا، جس میں ترکمانستان، قزاقستان، ازبکستان’ عمان اور ایران شامل ہیں۔

تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان اور چین کے ساتھ بھارت کے ’غیر دوستانہ‘ تعلقات کے پس منظر میں بھی ایران کے ساتھ اس کے اسٹریٹیجک تعلقات کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ایران اور بھارت نے ایک دوسرے کی اسٹریٹیجک خود مختاری کے سلسلے میں کوئی شرط نہیں رکھی ہے۔ ایران کو بھارت کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے اور اسی طرح ایران کے چین کے ساتھ تعلقات پر بھارت کو کوئی پریشانی نہیں ہے۔

DW

One Comment