کئی دہائیوں سے ایران پر مُلاؤں کی ڈکٹیٹر شپ سے تنگ ایرانی عوام اب مختلف طریقوں سےاپنا احتجاج کر رہی ہے۔ جن میں ایک طریقہ خواتین کی جانب سے اختیا ر کیا گیا ہے اور وہ ہے زبردستی حجاب اوڑھنے کے خلاف احتجاج۔ پچھلے ماہ بظاہر قیمتوں میں اضافے سے حکومت کے خلاف جو عوامی احتجاج شروع ہوا تھا اس کی کی بنیادی وجہ تین دہائیوں سے زائد عرصے سے حکومت پر قابض قابض مُلاؤں کی انتہا پسند پالیسیاں ہیں۔
کئی روز کے خون ریز احتجاج کے بعد اب ایرانی صدر حسن روحانی نے ایک ایسی حکومتی رپورٹ عام کر دی ہے جس کے مطابق ایرانی عوام میں لازمی حجاب کے قانون کی مخالفت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ایران کی نصف آبادی حجاب کو نجی معاملہ قرار دے رہی ہے۔
یہ رپورٹ تین برس قبل سن 2014 میں تیار کی گئی تھی تاہم ایرانی حکومت نے اسے اب شائع کیا ہے۔ حکومتی رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں خواتین کے لیے لازمی حجاب کرنے کے قوانین کی مخالفت کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔
یہ رپورٹ ایک ایسے وقت جاری کی گئی ہے جب حال ہی میں ملکی پولیس نے حجاب کے خلاف احتجاج کرنے والی درجنوں ایرانی خواتین کو گرفتار کرنے کی تصدیق کی۔
یہ رپورٹ ایران کے ’سینٹر فار اسٹریٹیجک اسٹڈیز‘ نامی ادارے نے تیار کی ہے جو ایرانی صدارتی دفتر کا ایک ماتحت ادارہ ہے۔ اس تحقیقی رپورٹ میں سن 2006، 2007، 2010 اور سن 2014 کے دوران کیے گئے رائے عامہ کے متعدد جائزوں کا تقابل پیش کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ سن 1979 کے ایرانی انقلاب کے بعد سے خواتین اور ان کے لباس پر عائد پابندیوں کی عوامی تائید میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق سن 2006 میں چونتیس فیصد ایرانی ایسے تھے جن کی رائے میں ملکی حکومت ایرانی خواتین کو یہ بتانے کی کوشش نہ کرے کہ انہیں کیا پہننا چاہیے۔ جب کہ سن 2014 میں اس خیال کے حامی عوام کی شرح انچاس فیصد تک پہنچ چکی تھی۔
ایک ایرانی خاتون نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’مجھے پورا یقین ہے کہ اگر آج سروے کرایا جائے، تو اس سوچ کے حامل عوام کی شرح کہیں زیادہ ہو گی‘‘۔
اسی تحقیقی جائزے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ خواتین کے لباس سے متعلق مزید سخت قوانین کے حامی ایرانیوں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔ رپورٹ میں جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق سن 2006 میں 54 فیصد افراد ایسے تھے جن کا کہنا تھا کہ خواتین کو حجاب کی بجائے ایسا مکمل لباس پہننا چاہیے جو ان کے چہرے کے علاوہ پورا جسم ڈھانپ دے۔ تاہم آٹھ برس بعد یعنی سن 2014 میں ایسے سخت گیر نظریات رکھنے والے افراد کی تعداد کم ہو کر پینتیس فیصد رہ گئی تھی۔
اسی عوامی جائزے میں ایک سوال یہ بھی شامل تھا کہ کیا ایرانی حکومت کو حجاب نہ کرنے والی خواتین کے خلاف مقدمات دائر کرنا چاہییں یا نہیں۔ سن 2006 میں نصف سے زائد ایرانی شہری ایسی خواتین کے خلاف مقدمہ چلانے کے حامی تھے تاہم سن 2014 میں صرف 39 فیصد اس خیال کے حامی دکھائی دیے۔
کچھ لوگوں کے لیے شاید یہ بات تعجب کا باعث بنے کہ ایرانی صدر کے دفتر سے ایسی رپورٹ جاری کی گئی ہے اور وہ بھی ایک ایسے وقت جب کہ ملکی مذہبی پولیس نے حجاب مخالف احتجاج کرنے والی ایرانی خواتین کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر رکھا ہے۔
لیکن اصلاحات پسند صدر روحانی نے ایسا پہلی مرتبہ نہیں کیا ہے۔ دسمبر میں صدر روحانی نے ملکی بجٹ کی مکمل تفصیلات عام کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایسا شفافیت کے لیے کر رہے ہیں۔ لیکن ماہرین کے مطابق اس عمل کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ اصلاحات نہ کرنے کے خلاف ان کے حامیوں میں غصہ پایا جاتا ہے اور وہ بجٹ تفصیلات جاری کر کے انہیں دکھانا چاہتے تھے کہ ملکی بجٹ کا کتنا زیادہ حصہ ایران کے مذہبی اداروں کو دیا جا رہا ہے جس کے باعث وہ اصلاحات کے وعدے پورے کرنے سے قاصر ہیں۔
لیکن صدر روحانی کے اس فیصلے کا عوامی ردِ عمل ان کی توقعات کے برعکس نکلا اور ملک بھر میں ایرانی حکومت اور سیاسی نظام ہی کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہو گیا تھا۔
ایران میں بظاہر تو سیاسی نظام جمہوریت ہے اور باقاعدگی سے انتخابات کاانعقاد بھی ہوتا ہے مگرایرانی پارلیمنٹ، ملاؤں کے سپریم ادارے ولایت فقہیہ کی یرغمال بنی ہوئی ہے ۔
DW/News Desk