منیر سامی
کوئی انسانی واقعہ کوئی صدمہ ایسا ہوتا ہے کہ اس کے اظہار کے لیئے حرف و الفاظ نہیں ملتے ۔ خیال و زبان عاجز ہو جاتے ہیں۔ لگتا ہے کہ غم کے اظہار کے لیے جو کچھ کہا جانا ہے وہ تو کہا جاچکا ہے ، اور اس موقع پر جوکچھ بھی کہا جائے گا وہ کم یا ناکافی ہوگا۔ ہمیں یقین ہے کہ آج پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں حق و انصاف کی استعارہ، عاصمہ جہانگیر، کے انتقال کے وقت بہت مبصر، اور لکھنے والے اسی کیفیت سے گزر رہے ہوں گے۔
انسانی تاریخ میں نوعِ انسان کی زندگی کے لیے ، روشنی کے لیے، آگہی کے لیے ، جدو جہد کرنے کے جو استعارے ، انسانی تاریخ کے روشن ستارے ہیں، آج ایسا لگتا ہے کہ ان کی ہر ہر صفت سمٹ کر عاصمہ جہانگیر کی ذات میں سمٹ آئی تھی، تاکہ پاکستانیوں کو اور آج کے انسان کو دلاسہ ملے اور ظلم کی بد ترین رات میں بھی امید کی روشنی کی کوئی رمق ان کو نجات کی راہ دکھائے۔
اب سے کئی سال پہلے ایک اور انسان کے انتقال پر غم کے اظہار کے لیئے چند اہم سطور لکھی گئی تھیں، ہم آج ان کا سہارا لیتے ہیں ، تاکہ کہیں تو بہرِ خدا ٓج ذکرِ یار چلے۔ وہ سطور اس طرح ہیں، ’’ میں نے کہا تھا کہ آج روشنی گُل ہو گئی ہے، لیکن میں غلطی پر تھا۔ جو نور ہمارے ملک پر طلوع ہوا تھا وہ کوئی عام نور نہیں تھا۔ یہ نور جو ہمارے وطن کوایک مدت سے فروزاں کر رہا تھا ، وہ ہمارے وطن پر ابھی سالہا سال تک، بلکہ ہزاروں سال تک جلوہ فگن رہے گا۔ وہ ساری دنیا میں دیکھا جائے گا، اور ہر انسان کو دلاسہ دیتا رہے گا۔ کیونکہ وہ نور ابدی سچایئوں کی علامت تھا، ان سچایئوں کی کہ جو لافانی ہیں۔ یہ نور ہمیں راستہ دکھاتا رہے گا، اور ہمیں رنج و غم سے نجات دلاتا رہے گا۔ اور ہمارے ملک کوآزادی کی راہ پر گامزن رکھے گا۔‘‘
پاکستان میں حق و انصاف کی جدو جہد میں ، بد ترین آمروں کے سامنے ڈٹ جانے میں ، ظلم کے خلاف نہ صرف آواز اٹھانے میں بلکہ عملی طور کچھ کر دکھانے میں ،عاصمہ جہانگیر نے جو کچھ کیا تھا آج اس پر بہت کچھ لکھا جارہا ہے۔ ان میں سے بہت کچھ اخباروں ، ٹیلی ویژن، اور جرائد کے ذریعہ سے ہم تک سالہا سال تک پہنچتا رہا ہے۔لیکن جو کچھ بھی ہمارے سامنے ہے اس سے کہیں زیادہ ہم سے پوشیدہ ہے۔
ہم نہیں جانتے کہ ظلم کے خلاف مقدمات میں کتنے ہی انسانوں کی ضمانتیں وہ اپنی جیب سے ادا کرتی رہیں، کتنے مقدمے مفت لڑتی رہیں ۔ہمارے ملک میں جبری گمشدگی کے مقدمات میں عدالتی کاروائیوں میں اپنے معاونین کے اخراجات خود ادا کرتی رہیں۔ اور کتنی ہی بار ان غریبوں کو جن کے پاس عدالتوں میں حاضری کے دوران کہیں سر چھپانے کی جگہ نہیں ہوتی تھی، ان کے رہنے اور کھانے پینے کا انتظام وہ ذاتی طور پر کرتی رہیں۔
عاصمہ جہانگیر ، بلا شبہ مہذب دنیا کی ایک مثالی شہری تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے مختلف شہری یہ مطالبہ کر تے رہے کہ انہیں سرکاری اعزاز کے ساتھ رخصت کیا جائے۔ لیکن ان مطالبات کے دوران بعض نیک دل لوگوں نے یہ قیاس بھی کیا کہ وہ شاید خود اس کے حق میں نہ ہوتیں۔ کیونکہ سرکاری تقریب میں ان کے جسدِ خاکی کو ان عوام سے دور کردیا جاتاجن کی جدو جہد میں وہ ان کے شانہ بشانہ شریک ہوتی تھیں۔ وہ تو شاید یہی چاہتیں کہ وہ اپنے عوام کے کاندھوں پر ہی ان سے رخصت ہوں۔
سندھ کی حکومت نے تو ایک دن کے سوگ کا اعلان کا بھی کیا اور وفاقی حکومت سے درخواست کی کہ ان کی آخری رسوم سرکاری طور پر ادا ہوں۔ لیکن تا دمِ تحریر ایسا نہیں ہوا۔ ایسا نہ بھی ہوا تو کیا ہوا۔ ان کے سوگ میں تو حق پرستی کا، انصاف کی بالا دستی کا ، اور انسانی مساوات کے مطالبات کا ہر غیر مرئی علم سر نگوں ہے، اور رہے گا۔
عاصمہ جہانگیر کو رخصت کرتے ہوئے ہمیں ایک معروف نغمے، Do not cry for me, Argentina کے کچھ بول یاد آرہے ہیں۔ جو ہم ذرا سی تبدیلی سے آپ کے توسط سے ان کی نذر کرتے ہیں:
“میرے لوگو، میرے لیے گریہ نہ کرو، سچ تو یہ ہے کہ میں نے تمہارا ہاتھ کبھی نہیں چھوڑا۔
اپنی سرگرانی میں اور اپنے دورِ جنوں میں ، میں نے اپنا وعدہ نبھایا۔ تم مجھ سے دور نہ ہو۔
میں نے کبھی دولت و شہرت کی طلب نہیں کی۔ شاید دنیا والے یہ کہیں کہ یہ میر ی خواہش تھی۔
میرے لیئے یہ سب واہمے تھے، اور کبھی بھی مسائل کا حل نہیں تھے۔
دنیا والوں کو میرا جواب یہ ہے کہ میں نے تم سے محبت کی ہے، اور یہ چاہا ہے کہ تم بھی مجھ سے محبت کرو۔
میرے لوگو، میرے لیئے گریہ نہ کرو۔ سچ تو یہ ہے کہ میں نے تمہار ہاتھ کبھی نہیں چھوڑا۔
اپنی سرگرانی میں اور اپنے دورِ جنوں میں ، میں نے اپنا وعدہ نبھایا۔ تم مجھ سے دور نہ ہو۔۔
کیا میں نے کچھ زیادہ کہہ دیا۔ اب میرے پاس کہنے کو کچھ اور نہیں رہا ہے۔ ۔۔
بس اتنا کرو کہ مجھے دیکھو اور جان لو کہ میرا ہر قول سچا ہے۔۔۔ میرے لوگو ، میرے لیے گریہ نہ کرو!‘‘
♦
2 Comments