ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، انڈیا پائپ لائن (تاپی) کے افتتاح کے بعد پاکستان میں کئی ماہرین اور سیاسی تجزیہ نگار یہ خیال کر رہے ہیں کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن (آئی پی) منصوبے کا اب تکمیل تک پہنچنا بہت مشکل ہوگا۔
یاد رہے کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن، جسے ابتدائی طور پر، آئی پی آئی کہا گیا تھا ، نوے کی دہائی کا منصوبہ ہے۔ اس پروجیکٹ میں ایران پاکستان اور انڈیا (بھارت) تھے لیکن بعد میں عالمی پابندیوں اور پاکستان سے کشیدہ صورتِ حال کے پیشِ نظر نئی دہلی اس منصوبے سے دور ہوگیا تھا۔کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ بھارت کو اس پروجیکٹ کے حوالے سے امریکی دباؤ کا بھی سامنا تھا، اس لئے نئی دہلی حکومت پاکستان سے کشیدہ تعلقات کا بہانہ بنا کر اس پروجیکٹ سے الگ ہو گئی تھی۔
کئی ماہرین اس بات پر حیران ہیں کہ موجودہ صورتِ حال میں پاکستان اور بھارت کی کشیدگی اپنے عروج پر ہے اور افغانستان میں بد امنی کے پنجے بھی مضبوطی سے گڑے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود بھارت نے اس پروجیکٹ کا حصہ بننے کی حامی بھر دی ہے جب کہ امریکی مخالف افغان طالبان نے بھی اس پروجیکٹ کی حمایت کی ہے۔
تاپی کو آئی پی کا مخالف پروجیکٹ بھی کہا جاتا ہے، جس کو امریکی آشیر باد بھی حاصل ہے۔ اب چار ملکوں کے اس منصوبے کے افتتاح کے بعد پاکستان میں کئی ماہرین یہ خیال کر رہے ہیں کہ ایران پاکستان پائپ لائن کا خواب شرمندہِ تعبیر نہیں ہوگا، اس حقیقت کے باوجود کے آئی پی ہر لحاظ سے پاکستان کے لئے بہتر ہے۔
اس صورتِ حال پر اپنی رائے دیتے ہوئے معیشت دان ڈاکٹر وقار احمد نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’معاشی اور مالی لحاظ سے آئی پی پروجیکٹ ہمارے لئے بہت سود مند ہے۔ مثال کے طور پر ہم نے قطر سے ایل این جی کا معاہدہ کیا۔ اس کے لئے ہمیں کرایہ بھی دینا پڑتا ہے۔ انشورنس کی مد میں بھی ہمیں پیسہ دینا پڑتا ہے۔ جبکہ آئی پی صرف ایک مرتبہ کی سرمایہ کاری تھی۔ اس کی فنڈنگ کے لئے بھی دو بڑے اداروں نے پیش کش کی تھی لیکن ہم نے اس وقت اس میں دلچسپی نہیں لی۔ میرے خیال میں اب بھی وقت ہے کہ ہم اس پروجیکٹ کو سنجیدگی سے لیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ ہماری ترجیحات میں شامل نہیں۔ اب ہم انرجی کا ایک اور معاہدہ انڈونیشیا سے کرنے جا رہے ہیں جب کہ یہ اہم منصوبہ ہمیں کہیں نظر نہیں آتا‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’یہ تاثر غلط ہے کہ اس کا خرچ بہت زیادہ ہے یا اس کے لئے فنڈنگ میسر نہیں۔ ہم سے فنڈنگ دینے والوں نے کہا تھا کہ ہم تجاویز تیار کریں لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا۔ ہماری ضروریات میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر ہم نے اس پروجیکٹ کو یا اس جیسے پروجیکٹس کو مکمل نہیں کیا تو مستقبل میں ہمارے لئے انرجی ضروریات کے حوالے سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں‘‘۔
پلاننگ کمیشن کے ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’آخری مرتبہ میں نے آئی پی کے حوالے سے اٹھارہ مہینے پہلے سنا تھا اور یہ تذکرہ بہت سرسر ی تھا۔ کسی بیوروکریٹ نے یہ تجویز دی تھی کہ ہم آئی پی سے آنے والی گیس کو کمرشل مقاصد کے لئے استعمال کریں گے جب کہ تیل سے بننے والی بجلی کو گھریلو استعمال کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم پر سعودی عرب اور دوسرے ممالک کا دباو تھا، اس لئے اس پروجیکٹ پر کام نہیں ہوا، پھر ایران پر پابندیاں لگ گئیں۔
لیکن اب جب پابندیاں کچھ کم ہوئی ہیں، ہم اس پر اس لئے کام نہیں کر رہے کیونکہ ہم ایک بار پھر سعودی عرب کے محتاج بنے ہوئے ہیں۔ ہمیں آنے والے مہینوں میں اربوں ڈالرز کی قرضے کی اقساط دینی ہیں اور ہمارے پاس پیسہ نہیں ہے، تو جو پیسہ دے گا وہ مطالبات بھی رکھے گا۔ اس صورت میں ریاض ہمیں پیسے دے سکتا ہے اور پھر ہمیں اس کے مطالبات کا بھی سامنا کرنا پڑے گا‘‘۔
تجزیہ نگار احسن رضا کے خیال میں ایران اپنی گیس بیچنے کے لئے تیار ہے کیونکہ اسے سخت پیسے کی ضرورت ہے لیکن ہم اس معاملے میں کبھی سنجیدگی نہیں دکھاتے،’’ایران دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے اپنے حصے کی پائپ لائن بچھا دی ہے۔ ہم نے کبھی اس ایرانی دعوے کی تردید نہیں کی۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم نے اپنے حصہ کا کام نہیں کیا۔
یہ بات واضح ہے کہ ہم کسی کے دباؤ کی وجہ سے یہ کام ماضی میں نہیں کر پائے۔ اب تاپی کی تکمیل کے بعد اور پاکستان و سعودی عرب کے بڑھتے ہوئے عسکری اور مالی تعاون کے پیشِ نظر یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا یہ پروجیکٹ کبھی مکمل بھی ہوگا یا نہیں‘‘ ۔
DW
♦