انسانی حقوق کی ایک توانا آواز کی بے وقت موت نے پورے پاکستان کو سوگوار کر دیا ہے۔
پاکستان کی سیاست میں غیر جمہوری قوتوں کی مداخلت کے خلاف وہ ایک توانا آواز تھی۔ پاکستان کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جب جرنیلوں نے پاکستانی آئین کو اپنے بوٹوں تلے روندا یا اعلیٰ عدلیہ کے ججوں نے جرنیلوں کے ایما پر سیاسی حکومتوں کے خلاف سازشیں کیں ۔
ان تمام سازشوں اور اقدامات کے خلاف ابھی ہم اس سوچ میں ہوتے تھے کہ ان کی مذمت کیسے کی جائے تو سب سے پہلے عاصمہ جہانگیر کا مذمتی بیان سامنے آتا اور ہمیں ایک توانائی ملتی اور ڈٹ کر ان اقدامات کی مذمت شروع کر دیتے۔محترمہ بے نظیر بھٹو کے بعد عاصمہ جہانگیر سے زیادہ موثر اور جاندار آواز اس ملک میں شائد کوئی نہ تھی، وہ بھی ہم سے بچھڑ گئی۔اور اب شاید ہی پنجاب سے چھوٹی قوموں کے حق میں بولنے والی اتنی مضبوط اور موثر آواز اٹھ سکے۔
عاصمہ جہانگیر شاید پنجاب کا واحد جمہوری چہرہ تھی جس نے بلوچ سیاسی کارکنوں اور جوانوں کے جبری اغوا اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف آواز اٹھائی، سندھیوں اور پختونوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی۔ اور یہ مظالم کسی فرد واحد طرف سے نہیں بلکہ ریاست پر قابض جرنیلوں اور اس کے پروردہ طبقے نے روا ر کھے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے جس طرح بغیر لگی لپٹی سیاسی و فوجی حکمرانوں، عدلیہ اور مذہبی بنیاد پرستی کو ہوا دینے والوں پر تنقید کے نشتر برسائے، شاید ہی کوئی اور کبھی کر سکے۔ان کی وفات جمہوریت پسندوں کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے۔
ان پر فتوے لگے، غداری کے الزامات لگے، کردار کشی ہوئی، قتل کی سازشیں ہوئیں مگر یہ سب ان کے ارادے کو متزلزل نہ کر سکا۔ جس جرات و بہادری اور حق گوئی و بے باکی سے انہوں نے اپنی رائے کا اظہار کیا، وہ قابل تحسین ہے۔ جمہوری نظام حکومت میں حکمران اشرافیہ کی ناقص پالیسیوں اور غیر جمہوری طرز عمل پر تنقید کا حق ویسے تو ہر شہری کو حاصل ہے لیکن پاکستان جیسے ملک میں آمروں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ پر بنا کسی لگی لپٹی تنقید قریب قریب ناممکن ہے۔
پاکستان میں عام آدمی تو درکنار، دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی اظہار رائے کے حق کو نظریے، سلامتی اور مذہب کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا ہے. عاصمہ جہانگیر کا خاصہ یہی تھا کہ وہ نظریے، سلامتی اور مذہب کی ان زنجیروں کو کبھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے نہایت خوش اسلوبی سےانسانی حقوق کی بحالی کے لیے لڑتی رہیں۔
محترم شہزاد عرفان نے انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آج یتیم اور بے آسرا ہونے اور خوف و ڈر کا احساس ہوا ہے کہ اب کوئی ممتا جیسی ہستی نہیں رہی جو اس ملک کے مظلوم کا مداوا بنے گی ۔ دل رو رہا ہے ۔ چولستان میں اقلیتوں کے حقوق کے لئے تپتے صحراء میں زنجیروں میں بندھے عورتیں اوربچے آزاد کرائے ۔ امید کی آخری کرن، ایک بہادر خاتون، ایک لیڈر ، وکیلوں کی وکالت کرنے والی، خونخوار فوجی جرنیلوں، بے ایمان دھشت گرد مُلا اور عدلیہ کے سرکس کے مداری ججوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اونچی آواز میں بات کرنے والی آج ہمیں چھوڑ گئیں ۔ ہر بندے کی جگہ اس کے گزرنے کے بعد پر ہو ہی جاتی ہے مگر عاصمہ جہانگیر کی جگہ شاید کبھی پُر نہ ہوسکے۔ اب اس عربستان کے ملک پاکستان میں اقلیتوں کی زندگی سو فیصد خطرہ میں ہے۔ جہاں مادر پدر آزاد عدلیہ،کے جج، کاروباری فوجی جرنیل، اور آدم خور مُلا آزاد ہیں اپنے شکار کو دبوچنے کے لئے۔ آج بازار میں پابجولاں چلو۔۔۔۔ بی بی آپ کی جرائت مند زندگی کو سرخ سلام۔
MSA/News Desk
♥
One Comment