اٹھارہ18 فروری کو لاہور کے اوپن ائیر تھیٹر(لارنس گارڈن) میں منعقد ہونے والا فیض امن میلہ اپنی حاضری کے اعتبار سے پچھلے سالوں کی نسبت بہت اچھااورقابل رشک تھا۔ اس میلہ کےنظریا تی اورسیاسی اثرات کے بارےتومیں کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں کیونکہ یہ کام ہمارے بال کی کھال اتارنے والے سوشلسٹ دانشور بخوبی کر سکتے ہیں اورشائد کچھ نے یہ فریضہ سر انجام بھی دے لیا ہو۔
مجھے ذاتی طورپراس کا جو فائدہ ہوا وہ بہت خوشگواراورمحبت سےبھرپورتھا۔ نہ صرف لاہور بلکہ دوسرے شہروں اور قصبوں سے آئے بہت سے دیرینہ دوست احباب سے ملاقات ہوگئی جن سے ملے ہوئے مدت ہوچکی تھی۔ کئی ایک سے بھرپورتبادلہ خیال ہوا اورباہمی تعلقات کی تجدید کےعہد و پیمان ہوئے۔
اس موقع پر ایک ایسے ہمدم دیرینہ سے بھی ملاقات ہوئی جنھیں میں گذشتہ چار دہائیوں سے بخوبی جانتا ہوں۔ ایک طویل عرصہ ایک ہی سیاسی تنظیم میں ان کاساتھ رہا۔ وہ تنظیم میں مجھ سے سنئیراورپارٹی قیادت کی نظروں میں بہت قابل اعتماد سمجھے جاتے تھے۔وہ لاہور میں بائیں بازو کے حلقوں میں بہت پختہ فکرمارکسسٹ کہلاتے ہیں۔ تعلیمی ڈسپلن کے اعتبار سےسائنس دان کہے جاسکتے ہیں۔ ایک اچھے سرکاری عہدے سے ریٹائرڈ ہوکر آج کل ہمہ وقت پاکستان میں سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کے لئے جد وجہد میں مصروف ہیں۔
ان کا شمارپاکستان کے بائیں بازو کے ان کارکنوں اور رہنماوں میں ہوتا ہے جو مرحوم سوویت یونین اورسوشلسٹ ممالک سے مفادات حاصل کر چکے ہیں۔ ان کے دو چھوٹے بھائی ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں اور دوسرے میڈیکل ڈاکٹر۔ یہ دونوں ایک سوشلسٹ ملک کے تعلیم یافتہ ہیں۔ دونوں ڈاکٹر برادران پابند صوم وصلوۃ اور تبلیغی جماعت کے ہمدردوں میں شمار ہوتے ہیں۔
سوویت یونین اور دوسرے سوشلسٹ ممالک میں اپنے بچوں کو سکالر شپس پر بھیجنا بائیں بازو کی اعلیٰ قیادت کا استحقاق سمجھا جاتا تھا لیکن ان لیٖفٹ گروپس کے چیدہ چیدہ وفادار کارکنوں اور دوسرے درجے کے رہنماوں جنھیں نظریاتی کاسہ لیس اور شخصی چمچے کہنا زیادہ مناسب ہوگا کے بھائیوں بیٹوں اور دیگر قریبی رشتہ داروں کو بھی سکالر شپس کی شکل میں رشوت دی جاتی تھی تاکہ وہ گروپ جسے ہمارے جیسے لوگ پارٹی کہنا نظریاتی فرض خیال کرتے تھے سے غیر مشروط وفاداری نبھاتےرہیں۔
ان سکالر شپس پر جانے والوں میں شاذ ہی کوئی فرسٹ ڈویژن میٹرک یا انٹرمیڈیٹ ہوتا تھا۔ اگر کوئی فرسٹ ڈویژن ہوتا بھی تھا تو اس کےاتنے نمبر نہیں ہوتے تھے کہ اسے پاکستان میں کسی میڈیکل کالج یا انجئیرنگ یونیورسٹی میں داخلہ مل سکتا۔سوویت یونین جانے سوشلسٹ کارکنوں اور رہنماؤں کے یہ بھائی اور بیٹے کچھ تو تعلیم مکمل کرکے اور زیادہ تر تعلیم ادھوری چھوڑ کر مغربی ممالک جا بسے۔
ان میں جو اپنی تعلیم مکمل کرکے واپس پاکستان آئےانھوں نے حتی المقدورسوشلسٹ سیاست کو منہ لگانے سے گریز کیا بلکہ بعض صورتوں میں سوشلزم کی مخالفت کی اور اس گروپ کے بھی لتے لئے جس نے انھیں وہاں سکالر شپ تعلیم حاصل کرنے لئےبھیجا تھا۔ لاہور میں کچھ افراد ایسے بھی ہیں جو سوشلسٹ ممالک سے ان سکالر شپس پر تعلیم حاصل کرے واپس آئے اور آج کل تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں میں پیش پیش ہیں۔
خود ہمارے یہ سنئیر ساتھی کئی سال کینیڈا گذار کر واپس پاکستان آئے ہیں مگر بیگم صاحبہ اور فرزند وہیں ہیں۔ اپنے واپس آنے کی وجہ پاکستانی انقلاب کے لئے جدو جہد بتاتے ہیں لیکن واقفان حال کا کہنا ہے کہ کینیڈا کی شدید سردی ان کے لئے ناقابل برداشت تھی اور سردی کی وجہ سے ان کے جوڑوں میں شدید درد رہتا تھا جس کی بنا پر وہ انھوں نے پاکستان واپس آنے اور یہاں رہنے کا فیصلہ کیا شائد کنیڈا کی نیشنیلٹی اب بھی ان کے پاس ہو۔
ہمارے ایک اور دیرینہ دوست جو سانگھر سندھ سےخاص فیض میلے میں شرکت کے لئے آئے تھے نے دوران گفتگو بنگلہ دیش کی آزادی کے رہنما شیخ مجیب الرحمان کا ذکر ان کی حال ہی میں شائع ہونے والی یادد اشتوں کے پس منظر کر دیا ۔ ہمارے مارکسسٹ ساتھی ایک دم بھڑک اٹھے اور فرمایا کہ شیخ مجیب الرحمان تو بھارتی ایجنٹ تھا اس کا ذکر کیوں کرتے ہو۔ اگر بھارت نہ ہوتا تو بنگلہ دیش کا قیام ناممکن تھا۔
میں نے پہلے تو یہ سمجھا کہ وہ محض مذاق کر رہے ہیں لیکن انھوں نے اپنے گفتگو کا سلسلہ دراز کرتے ہوئے کہا کہ شیخ مجیب الرحمان جیسے غدار خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں موجود رہے ہیں اور اب بھی ہیں لیکن انھیں چونکہ بھارت جیسا کوئی سہارا نہیں مل سکا اس لئے وہ اپنے مقاصد کے حصول میں اب تک ناکام ہیں۔ ہمارے مارکسسٹ سنئیر یہیں پر نہیں رکے مزید فرمانے لگےکہ یہ تمام جمہوری تحریکیں جومختلف اداور میں مختلف ناموں سے پاکستان میں برپا ہوئیں یہ سب کی سب امریکہ کی اشیر باد کی ہرہون منت تھیں اور ان کے مقاصد ملک میں جمہوری حکمرانی سے زیادہ امریکہ کے مقاصد اور مفادات کی نگہبانی تھی۔
ان کی گفتگو سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ تاریخ کے ارتقا میں سماجی قوتوں کے رول کی بجائے سازشوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ان کے نزدیک تاریخ کی قوت محرکہ ساز ش ہوتی ہے نہ کہ عوام کی طاقت اور جدو جہد۔ وہ ون یونٹ کو پاکستان کی معاشی ترقی کے لئے ضروری خیال کرتے ہیں اور صوبوں کے حقوق اور ان کے حصول کے لیےکی جانے والی جد و جہد کو کارلاحاسل سمجھتے ہیں۔ وہ پاکستانی عوام کے ثقافتی ۔لسانی اورنسلی تنوع کو کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں اب تک جو تھوڑی بہت معاشی ترقی ہوئی ہے اس کا سہرا فوجی اورآمرانہ حکومتوں کے سر ہے۔
ان کی گفتگو سے لگتا تھا کہ وہ سوشلسٹ انقلاب سے کم کسی چھوٹی موٹی تبدیلی کو کسی قسم اہمیت دینے کو تیار نہیں ہیں۔آئینی حقوق کے لئے جد وجہد، پارلیمانی سیاست اور اس کے نتیجے میں مراعات کا حصول ان کےنزدیک وقت کا زیاں ہے اور ان بورژوا سرگرمیاں پر وقت ضائع کرنے کی بجائے سوشلسٹ انقلاب کے لئے اپنی قوت صرف کرنا چاہیے۔
ان سے مل کر اور تبادلہ خیال سے لگا کہ آپ کسی ایسےشخص سے مل رہے ہیں جو زندہ سماج سے کٹا ہوا اپنے نظریات کے ڈسٹ بن میں زندگی گذاررہا ہے جسے اپنے عہد کے معروض سے کوئی علاقہ نہیں ہے اور وہ اپنی خیالی دنیا میں گم نام نہاد نظریات کے نام پر تنہائی کے کرب سے گذر رہا ہے۔
♥
One Comment