آصف جاوید
مشال خان قتل کیس کا فیصلہ آگیا، عدالت نے اپنے فیصلے میں مرکزی مجرم عمران علی کو سزائے موت، جب کہ بلال بخش کے علاوہ چار دیگر مجرمان کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ان کے علاوہ وجاہت اللہ سمیت 24 دوسرے مجرمان کو چار چار برس قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ جبکہ 26 ملزمان کو الزام سے بری کرکے رہا کردیا گیا۔
مشال کا قاتل کوئی ایک فرد نہیں ہے۔ مشال کو ایک ہجوم نے بڑی بے دردی کے ساتھ سفّاکانہ قتل کیا تھا۔ مشال کے قاتل نا معلوم ہر گز نہیں ہیں۔ مشال پر تشدّد اور اس پر گولی چلانے والوں اینٹ پتھر، لاتیں گھونسے مارنے والوں، اینٹوں سے سر کچلنے والوں، لاش کی پامالی کرنے والوں کی ریکارڈڈ وڈیوز سوشل میڈیا پر موجود ہیں، جن میں قاتلوں کے چہرے صاف پہچانے جارہے ہیں۔
قاتل باہر کے نہیں تھے، یہ قاتل یونیورسٹی کے طالب علم اور مشال کے دوستوں اور عداوت رکھنے والوں میں سے ہیں۔ یونیورسٹی کی انتظامیہ اور وہاں موجود طلباء قاتلوں کو بہت اچھّی طرح جانتے اور پہچانتے ہیں۔ کچھ قاتل پکڑے گئے، کچھ ابھی تک مفرور ہیں، کچھ نے اقبال جرم کرلیا، کچھ پر ثابت ہوگیا، اور کچھ عدالت میں جھوٹ بول کر بچ گئے۔
پکڑے جانے والے قاتلوں کے لواحقین نے مشال خان کے والد اور خاندان پر صلح، اور دیت کے لئے بہت دباؤ ڈالا تھا ، تحقیقاتی ٹیم پر دوران تحقیقات بہت دباؤ ڈالا گیا تھا، عدالت کو سخت چیلنج کا سامنا رہا تھا، عدالت کو سماعت کا مقام بھی تبدیل کرنا پڑا تھا، مشال کے والد اور خاندان کے دوسرے افراد کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں تھیں ۔
بہر حال کل عدالت کا فیصلہ آگیا۔ کچھ مجرمین کو سزا ہوئی، کچھ رہا ہوگئے۔ جو رہا ہوگئے کل ان کے اعزاز میں مذہبی دہشت گرد تنظیم جماعت اسلامی نے ایک بڑا استقبالیہ اور اعزازیہ دیا۔
مشال خان کے سفّاکانہ قتل کے الزام میں ایک جے ائی ٹی یعنی تحقیقاتی ٹیم بھی تشکیل دی گئی تھی۔ جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق تین مجرمان عمران علی، بلال بخش اور وجاہت اللہ ، کا مشال قتل میں اہم کردار تھا۔ پولیس رپورٹ کے مطابق مجرم عمران علی نے ہنگامہ آرائی اور طلبہ کی طرف سے تشدد کے دوران مشال خان پر ڈائریکٹ گولی چلائی تھی۔ جس سے اسکی موت واقع ہوئی تھی ۔
مجرم عمران علی کالج کے زمانے سے دہشت گرد طلبہ تنظیم، اسلامی جمعیت طلبہ سے منسلک رہا ہے ۔ دوسرا مجرم بلال بخش ، یونیورسٹی کا ملازم، اور پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن (پی ایس ایف) کا انتہائی سرگرم رہنما اور جماعت اسلامی کا ہمدرد تھا، بلال بخش کو عمر قید کی سزا ہوئی ہے۔ تیسرے مجرم ملزم وجاہت اللہ کا تعلق بھی دہشت گرد طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ سے ہے جہاں وہ ایک فعال کارکن کی حیثیت سے کام کرتا رہا ہے۔
وجاہت اللہّ پر الزام ثابت ہوگیا کہ اس نے مشال خان کو مبینہ طورپر ‘مرتد‘ قرار دیا تھا، اور مشال کے خلاف تقریں کی تھیں، جس سے طلبہ میں اشتعال پیدا ہوا تھا۔ بعض سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ وجاہت اللہ نے اسلامی جمعیت طلبہ کے اجلاسوں میں بھی مشال خان کے خلاف منفی باتیں کیں اور ان پر مبینہ توہین مذہب کے الزامات لگائے جس سے یونیورسٹی میں کشیدگی کی فضا پیدا ہو گئی۔
مشال خان کے والد اقبال لالہ نے فیصلے پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئےکہا ہے کہ یہ بات ان کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ اتنے واضح ویڈیوز اور دیگر ثبوتوں کے باوجود دیگر 26 ملزمان کو کیسے رہا کردیا گیا؟
گذشتہ کل رہا شدہ ملزمان کے اعزاز میں دہشت گرد مذہبی تنظیم جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلباء نے ایک استقبالیہ اور اعزازیہ منعقد کیا جس میں رہا شدہ ملزمان پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئی، پھولوں کے ہار گلے میں ڈالے گئے، اور اظہارِ یک جہتی کیا گیا۔ استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے رہاشدہ افراد نے تقاریر کیں، زیرِ نظر تصویر میں رہا شدہ طالب علم بالواسسطہ اپنے جرم کا اقرار کرتے ہوئے مجمع کو اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ ہم نے ایسی مثال قائم کردی ہے کہ دوبارہ کوئی توہین کاسوچ بھی نہیں سکتا۔ اس طالب علم کا کہنا ہے کہ “مشال مرتد تھا، ہم نے مردار کیا(مارا) ، مجھے بہت فخر ہے“۔
جب قاتل رہا ہونے کے بعد خود اقرار کریں کہ ہم نے مارا ، اور ہمیں فخر ہے تو پھر عدالت کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے، انصاف ابھی ادھورا ہے، نامکمّل ہے۔ اگر انصاف مکمّل نہیں ہوگا تو یہی قاتل کل اس انتہا پسند معاشرے کے ہیرو ہوں گے، اور پھر مشال جیسے دوسرے نوجوان ان قاتلوں کی وہشت اور جنون کا نشانہ ہونگے۔
انصاف مکمّل کرنے کے لئے عدالت کو اب اور کیا ثبوت چاہئے ؟؟؟؟
♦
4 Comments