سوشل میڈیا پر روز وشب سرگرم رہنے والے دوستاںِ مَن!تسلیمات اور ہزاروں لاکھوں دعائیں۔
میں اس وقت عالم ارواح سے تحریری طور پر آپ سب سے مخاطب ہوں ۔ شہادت ملنے کے بعد میری روح کو جتنی راحت اور چین سماجی میڈیاپرآپ لوگوں کی پَل پَل بدلتی خبروں اور تحریروں سے ملی ہے شاید کہیں سے نصیب ہوئی ہو۔اس میں کوئی شک نہیں کہ میں وہ اکیلا خوش نصیب قبائلی ہوں جن کی شہادت اور ’’راوی پروپیگنڈے ‘‘ سے متعلق آپ کی محنت شاقہ کے وسیلے سے سب کچھ اس وقت طشت ازبام ہوچکاہے۔
اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آج کراچی سے لے کر خیبر اور اسلام آباد سے لے کر بلوچستان کے گوادر تک لوگ مجھے شہید محسود کے نام سے یادکرتے ہیں ورنہ کتنے اور معصوم محسود ، وزیراور داوڑ تھے ’’ جو راوی جعلی مقابلوں‘‘ میں تو چل بسے لیکن ان سے شہادت نام کی سعادت بھی چھینی گئی ۔اُن بے چاروں کو گور وکفن ملا اور ناہی ان کے فاتحوں پر کراچی کاسہراب گوٹھ اورپشاور اور اسلام آباد کے چارسُوانسانی سمندر کی طرح امڈ آئے۔کتنے اردو بولنے والے اور دوسری قومیتوں کے معصوم فرزندان ہیں جو راوی فرعونیت کی بھینٹ چڑھے لیکن ان کے ناموں کے ساتھ دہشت گرد اور تخریب کار کے لاحقے اور سابقے ہنوز منسلک ہیں۔
میرے سوشل میڈیا کے جانداراور فعال غازیو! یہ سب تم لوگوں کا کرم ہے کہ بات دور دور تلک جانکلی ہے اور خاموشی کا نام نہیں لے رہی۔ عالمِ بالا سے میری شادمان وفرحان روح پچھلے پانچ دن سے اسلام آباد کی سیر بھی کررہی ہے جہاں بھی لاکھوں انسانوں کا ایک پرامن ٹھاٹھیں مارتا سمندر رُوبہ عروج ہے۔
میرے اور میرے شہید ساتھیوں کے حق میں حرفِ حق لکھنے والو! یقیناًاس انسانی سمندر کی پرامن لہلہاتی موجوں کا سہرا بھی آپ لوگوں ہی کے سر جاتاہے۔ واہ ، اسلام آباد کے پریس احاطے میں میرے اور ہزاروں دیگر معصوم شہداء بھائیوں کے حق میں امڈ آنے والا یہ سمندر کتنا خاموش ہے اور تہذیب کا کیا شاہکار نمونہ ہے ، …مگر ہائے افسوس ،اس وقت میری روح عِلیین جیسے آرام دہ مقام میں بھی تکلیف محسوس کررہی ہے جب آپ لوگوں کے علاوہ باقی میڈیا (مین اسٹریم میڈیا) کی غیرت کو اژدہا سونگھ چکاہے ۔مجھے بڑا دکھ ہوتاہے کہ آج آزادی اظہار رائے پر یقین رکھنے والے سب نام نہاد صحافیوں نے لب بستہ خاموشی اختیار کررکھی ہے۔
ماڈل ایان علی کے پیچھے کاندھوں پر بھاری بھاری کیمرے اٹھانے والے اور پارلیمنٹ کے احاطے میں دو پرندوں کی ہاتھا پائی کے مناظر دکھانے والے آج کہاں غائب ہوچکے ہیں ؟تین سال قبل اسی شہر کے ڈی چوک پرایک سو چھبیس دن کے لائیودھرنے کے ساتھ ساتھ موسیقی اور رقص دکھانے والے اس وقت کیوں غیرحاضر ہیں کہ دور بین کی آنکھ کو بھی نظر نہیں آرہی ۔ ’’راوی مکتبِ فکر کے لوگوں‘‘ سے میرے اور میرے دوسرے شہیدساتھیوں کے لہو کا حساب مانگنے والوں سے بالا آخر ایسی کونسی چوک سرزد ہوئی ہے کہ کیمروں کی آنکھیں سِل گئیں ہیں اور قلم کانپ رہے ہیں؟
کیادہشت گردی کی آڑمیں جعلی مقابلوں میں ہم شہید ہونے والوں کااتنا حق بھی نہیں بنتا کہ ہماری یادوں کی خوشبو کُوبہ کُو پھیلنے دیاجائے۔ہم مظلوموں کے نام پر امڈآنے والے اس سمندر کے خاموش چپوں کا ذکر ان زبانوں سے آج کیوں نہیں ہوپارہا جو ایک پرندے کے گھائل پَرکے اوپر بھی قیامت بپاکرتی ہے؟ مجھے معلوم ہے کہ اس جم غفیر کے چند ایک جائز اور شرعی مطالبات ہیں۔ فقط چند مطالبات جو ہرحوالے سے جائز اور قانونی ہیں، لیکن حیف اس کی شنوائی اسلام کے نام پر بننے والی اس ریاست میں آج حرام سمجھا جاتاہے۔
’’کیامیرے قاتل اور ان کے سہولت کاروں کو قصاص جیسے شرعی اور انصاف پر مبنی سزا دینے کا مطالبہ ایک جائز مطالبہ نہیں ہے ؟ کیا کراچی اور ملک کے دوسرے حصوں میں دیگر نقیبوں کے ماورائے عدالتی قتل کے اوپر ایک شفاف جوڈیشل کمیشن کی مانگ ایک لایعنی اور امرِحرام ہے ؟ کیا لاپتہ پاکستانیوں کو عدالتوں کے حوالے کرنے کا مطالبہ بھی جرم کے زمرے میں آتاہے ؟کیا فاٹا اور وزیرستان کے عام عوام پر ناخوشگوار واقعات رونما ہونے کی آڑ میں کرفیو کے نفاذ سے گریز کا مطالبہ غیر شرعی اور غیر آئینی ہے ؟
کیا قباحت ہے اس مطالبے میں کہ جہنم وزیرستان میں بچھائے گئے لاتعداد زمینی ماینز کا صفایا کردیا جائے کہ اس دوزخی سرزمین کے باسی مزید اپاہج اور گھائل نہ ہوں؟میری روح نہیں سمجھتی اورقطعاً نہیں سمجھتی کہ وزیرستان میں کولیٹرل ڈمیج پر تو اس میڈیا نے کبھی خلوص کے ساتھ آواز نہیں اٹھائی ہے لیکن شہزادی مریم نواز اور شہزادے بلاول کی تقریر اور تصویر وں کو ملک کا سب سے اہم ترین مسئلہ بنادیتاہے۔ ہمارے ٹی وی چینلوں کے مباحثوں میں بیٹھے افلاطونوں کے جانبدارانہ تجزیے اور آراء دیکھ کر ایک منصف مزاج ناظر دنگ رہ جاتاہے کہ آخر ریٹنگ کی چکراور مال بنانے کی دوڑ میں اس میڈیا نے انصاف کے کیا پیمانے مقرر کیے ہوئے ہیں۔
میری روح جانتی ہے کہ اہمیت کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ صحافت کا پیشہ مقدس بھی ہوتاہے لیکن بدقسمتی سے یہ مقدس پیشہ جب مصلحتوں اور لالچ کا شکار ہو کر رہ جاتاہے تو پھراسے ایک رذیل دکانداری کے سوااسے اور کیا نام دیا جاسکتاہے ؟مملکت خداداد میں اس مقدس پیشے سے جتنی بڑی تعداد میں لوگ منسلک ہورہے ہیں اتنی ہی بے رحمی کے ساتھ اس کے اقدار پر ضربیں بھی تو لگائی جارہی ہیں۔افسوس ،گردش ایام کے ساتھ کروٹیں بدلنے والے اس دیس کے میڈیا کے کتنے بڑے بڑے نام ہیں جن کی تحریریں بظاہرسونے کی پانیوں سے لکھنے کے مستحق ہوتے ہیں لیکن معنوی اعتبار سے پرکھا جائے تو سوال پیدا نہیں ہوتاکہ ایسے ابن الوقت بھی تاریخ میں رقم ہوجائیں گے ۔
شہزادوں ، لاڈلوں اور اشرافیہ کے جگر گوشوں کی ایک ایک ٹویٹ کے بارے میں یہ میڈیا تو اہل وطن کوتو وقتِ اول میں جانکاری دے دیتی ہے لیکن قبائلیوں کے زخموں کا مداوا اس سے کبھی بھی نہیں ہوپارہا۔آہ ، میں نے دیکھ لیا ہے کہ ایک وقت کسی حکمران سیاسی جماعت کے وزیرصاحب کی معمولی ویڈیو ٹیپ کو منظر عام پر لاکر اس میڈیا نے اس کو کتنا چلایاتھا ؟ جس میں کسی نے موصوف وزیر صاحب کی لوکیشن کا جائزہ لیاہواتھا تو کسی نے ان کے غصے کی حالت کو ماپنے کی کوشش کی تھی۔کسی کو ان کی گاڑی کی فکر لاحق تھی تو کسی نے ان کی باڈی لینگویج پر توجہ مرکوزرکھا تھا۔
بقول کسے ’’کہنے کو تو پاکستان کا رقبہ سات لاکھ چھیانوے ہزار پچانوے مربع کلومیٹرز اور آبادی اٹھارہ سے بیس کروڑ کے درمیان ہے لیکن میڈیا کے خبری نقشے کا پاکستان دیکھا جائے تو یہ ملک فقط چار شہروں پر مشتمل ہے جس کا رقبہ دس ہزار دوسو تیئیس مربع کلومیٹرز اور آبادی چار کروڑ کے لگ بھگ ہے ۔ اس میڈیائی پاکستان کو چھینک بھی آجائے تو بریکنگ نیوز بن جاتی ہے اور باقی پاکستان خودکُشی کرلے تب بریکنگ نیوز مشکل سے سمجھا جاتاہے ‘‘ ۔
بہرکیف ، خدا کے ہاں دیر ضرور ہے ، پر اندھیر ہرگز نہیں۔میرے سوشل میڈیا کے جاندار غازیو! ڈٹے رہیو ۔ سلام ہو تم پر اور تمہارے آبا واجداد اور امہات پر۔ تاریک راہوں میں اگلے جہاں کو سدھرنے والے سفید چہرے آپ لوگوں ہی کی برکت سے آج زندہ اور تابندہ ہیں۔سوشل میڈیا پر ظلم عظیم کے خلاف برسر پیکار رہنے والو! شہید محسود اور ان کے ساتھیوں کی ارواح آپ سب کو سلام کہتی ہے۔
♦
One Comment