بلوچستان ۔۔وقت تھم گیاہے

ماہ رنگ بلوچ

بلوچستان وہ واحد خطہ ہے جہاں کی مائیں اپنے بیٹیوں کے بجائے بیٹوں کے بڑے ہونے پر غم میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔

اپنے بھائی بہنوں میں، میں سب سے زیادہ خوش قسمت کہلائی جاتی ہوں کیونکہ ان سب سے زیادہ ابو کا پیار پایا تھا، ابو کے قریب ہونے کے سبب ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا چشم دیدہ گواہ میں خود ہوں، آج بھی یاد ہے جب ابو کے اغواء ہونے کے بعد پہلی بار پریس کلب گئے تھے ۔اْس وقت کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کچھ لوگ گھور رہے تھے، کچھ ترس کی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے اور کچھ نفرت سے تکتے جا رہے تھے، ہمیں اْس وقت بس اتنا پتا تھا کہ’’ ابو گھر میں نہیں ہیں‘‘اور ہم سے اتنا ہی کہا گیا تھا۔ اتنی زور سے نعرے لگانا کہ وہ لوگ جو تمارے ابو کو لے گئے ہیں وہ مجبور ہوکر اْنہیں چھوڑ دیں۔

لاپتہ گویا ایک لفظ ہے اور اب تو بلوچستان میں رہنے والے لوگوں کے لئے معمولی بات بن گئی ہے، یہاں آپ کے اپنوں کو آپ کے نظروں کے سامنے لاپتہ کر دیا جاتا ہے اور جب آپ کو پتا ہو کہ وہ اْسے کہاں لے کر گئے ہیں اور وہاں اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے ؟یہاں انسان بے بسی کی ایسی تصویر بن جاتی ہے کہ اس کا اندازہ لگاناشاید ممکن نہیں ۔ 

یہ انسان کی فطرت ہے کہ جب اس کی کوئی چیز کھو جاتی ہے(یہاں چیزیں نہیں بلکہ زندہ انسان ہی کھو جاتے ہیں) تو وہ اس کو ڈھونڈنے کی ہر ممکن کوشش کرتا رہتا ہے ایسے ہی کوششوں میں میرے اور میرے بھائی بہنوں کا بچپن گزرا ہے، نعرے لگانے سے آواز بیٹھ جایا کرتی تھی ہمارے سکول کی چھٹیاں پریس کانفرنس اور احتجاجوں کیلئے ہوا کرتے تھے حتیٰ کہ ایسے ہی کسی احتجاج میں، ہم نے اپنی کتابیں تک جلا دی وہ ہر کوشش جو ہم کر سکتے تھے ہم نے کی مگر بدلے میں انصاف کے بجائے ہمیں اْس انسان کی لاش دی گئی جو ہمیں سب سے زیادہ عزیز تھا۔

والد کے جانے کا سب سے بڑا اثر میرے بھائی کو ہوا تھا اْسے ہمیشہ اس بات کا ملال تھا کہ وہ ابو کو نہ بچا سکا جب ایلم(بھائی) کے سامنے اْسے اٹھا کر لے گئے تو اْنہیں گھسیٹا جا رہا تھا۔اس دوران ابو کی گھڑی وہاں گر گئی تھی ایلم اکثر یہی کہتا تھا کہ اس گھڑی کی طرح اس کا وقت بھی رک گیاہے،۔

ہم نے اْسے سمجھانے کی بہت کوشش کی تھی مگر اسے 13 سال کی عمر میں جو درد ملا تھا وہ کبھی بھر نہ سکا ۔آج ایلم کے درد کو محسوس کر رہی ہوں، جب آپ کے سامنے آپ کے عزیز کو کوئی لاپتہ کر دے اور آپ کچھ نہ کر سکیں تو یہ کرب آپ کو جینے دے نہیں سکتا ،وقت گزرتا گیا اور جب ہم پانچ بہنیں والد کے شکل کو دیکھنے کے لئے ترس جایا کرتی تھیں تو اپنے اکلوتا بھائی کو دیکھا کرتے تھے وہ ایک اْمید تھا ایسے جیسے لوٹنے والے نے پیچھے کچھ چھوڑ دیا ہو۔

یہ ایک الگ بات ہے کہ لاپتہ افراد کے خاندان کا غم کبھی ختم ہو نہیں پاتا حتیٰ کے ان کی لاشیں بھی مل جاتی ہیں مگر وہ رہتے لاپتہ ہی ہیں ،تب بھی دنیا کے لئے تو 7 سال ہو چکے ہیں ابو کے اس قید سے رہائی کو مگر میرے لیے جیسے آج بھی وہ قید میں ہیں، آج بھی راتوں کو ان کی چیخوں کی آواز سن کر اٹھ جایا کرتی ہوں، آج کل خوابوں میں ابو نہیں آتے، ان کی جگہ بھائی نے لے لی ہے، لاپتہ ابو کے بھائی کو بھی لاپتہ کر دیا گیا۔

پندرہ دسمبر 2017 کی رات جب وہ گھسیٹ کر میرے بھائی کو لے جا رہے تھے۔ اسکی وہ آنکھیں جو ہماری اْمید کا ذریعہ ہیں پرنم سی تھیں، اسے پتا لگ چْکا تھا کہ جو اس کے باپ کے ساتھ کیا گیا تھا وہی سب کچھ اس کے ساتھ ہونے والا ہے یہ کہنا کہ وہ بے قصور ہیں شاید غلط ہوگا کیونکہ بلوچ ہونا ہی سب سے بڑا قصور ہے جس کی قیمت ہر بلوچ کو ادا کرنی پڑتی ہے۔

دنیاکے ہر کونے میں جب بیٹیاں بڑی ہوتی ہیں تو ماں باپ کے لئے پریشانی کا سبب بنتی ہیں مگر بلوچستان وہ واحد خطہ ہے جہاں مائیں اپنے بیٹوں کے بڑے ہونے پر غم میں مبتلا ہو جاتی ہیں گویا اپنے لختِ جگر کو سالوں اپنے خون میں سینچ کر تیار کر دیا کہ کل کوئی اس کے سامنے اْسے گھسیٹ کر لے جائیں۔

ایلم کے اغواء ہونے کے بعد سب نے یہی کہا تھا کہ اتنا لمبا اتنظار کیوں آپ لوگ کیوں کوئی پریس کانفرنس نہیں کرتے، ہم یہ سب کچھ پہلے کر چکے تھے ،لاپتہ ایلم کے لاپتہ باپ کی لاش جب پھینکی گئی، تب ان کا کیس سپریم کورٹ آف پاکستان میں چل رہا تھا۔ تب ایک بیٹی ہاری تھی، اس کے پیچھے اسکے اکلوتے بھائی کی اْمید باقی تھی۔ آج ایک بہن کے پاس پیچھے کچھ نہیں بچا بس ایک یہی ہے ہمارا ایلم جان جو زندان میں قید ہے۔


Comments are closed.