قارئین کو یادہوگا کہ فلسطینی صدرجناب محمود عباس نے گزشتہ برس دسمبر میں پاکستان میں متعین اپنے سفیرجناب ولید ابو علی کو جماعۃ الدعوہ کے امیرحافظ محمد سعیدصاحب کے زیرصدارت منعقد کی گئی ایک تقریب اور جلسے میں شریک ہونے کی بنا پرفوری طورپر پاکستان سے واپس بلا لیا تھا۔کہا جاتا ہے کہ فلسطینی صدر نے یہ اقدام اپنے پیشرو یاسرعرفات کے وطنِ ثانی یعنی بھارت کی جانب سے شدیداحتجاج اور مبینہ دباؤپر اٹھایا تھا۔
پاکستان سے کسی عرب اسلامی ملک کااپنے سفیر کو واپس بلالینے کا یہ فیصلہ ایک لحاظ سے پاکستان کی داخلہ اور خارجہ حکمت عملی کی ناکامی اور اس میدان میں بلوغت کے فقدان کو بھی ایک بار پھر بے نقاب کرگیا ۔ القدس اورفلسطین کے حق میں منعقد کئے گئے ایک جلسے کی بنا پر فلسطین اپنا سفیر ہی واپس بلا لے، اس سے بڑھ کر شرمندگی بلکہ بے عزتی والی بات بھلا کون سی ہو سکتی ہے!۔
واضح رہے کہ بھارت عرصہ دراز سے حافظ محمد سعید کو دہشت گرد قرار دیتا چلا آیا ہے اور وہ اقوام متحدہ کے ذریعہ بھی حافظ سعید کو عالمی دہشت گرد تسلیم کروانے میں کامیاب رہا ہے ۔ پاکستان کے قریبی دوست چین کا ویٹو بھارت کی ان عالمی کوششوں کی راہ میں حائل ہوتاچلاآیاہے،لیکن ایک حد پہ پہنچ کرچین نے بھی پاکستان کو صاف صاف الفاظ میں باور کروادیاتھا کہ وہ دہشت گردوں کی پشت پناہی یا انہیں پناہ فراہم کرنے والے کسی ملک کے ساتھ اقتصادی تعاون کرنے کا مزیدمتحمل نہیں ہوسکتا۔
پاکستان ہر بار یہی بیان دیتا چلاآیا تھا کہ حافظ سعید پرپاکستان میں کوئی مقدمہ درج نہیں اور وہ کسی متنازعہ معاملے میں قانون کومطلوب نہیں نہ ہی ان پر کسی بین الاقوامی دہشت گردی کے کسی واقعہ میں ملوث ہونے کے شواہد اور ثبوت موجود ہیں،لیکن اس کے ساتھ ہی وہ حافظ سعید کوکبھی دس دس ماہ تک نظر بندکردیتا ہے توکبھی ان کے قائم کردہ فلاحی ادارے پر چندے اورعطیات وصول کرنے کی پابندی لگا دیتا ہے۔اگر حافظ صاحب موصوف ایک بے ضرر انسان ہیں تو ان کی فلاحی تنظیم کو عطیات دینے پہ پابندی چہ معنی دارد۔دو متضاد حقائق کو ملا کر ایک درست نتیجے پہ کیسے پہنچاجا سکتا ہے؟۔اس معاملہ میں حقائق واضح نہ ہونے کے باعث کسی بھی قسم کی کوئی رائے قائم کرنا ناممکن نظرآتی ہے۔
پاکستان سے اپنے سفیر کو واپس بلا لینے پر صدرمحمود عباس کا شکریہ ادا کرنا بھارت پر واجب بلکہ فرض ہوچکا تھا چنانچہ گزشتہ دنوں بھارتی وزیراعظم نریندرامودی فلسطین کے دورہ پہ رام اللہ پہنچے جہاں ان کا استقبال فلسطینی اتھارٹی کے صدرمحمود عباس نے کیا،گارڈ آف آنرز پیش ہوا،یاسر عرفات کی قبر پہ حاضری دی ، پھول چڑھائے اور پھر دونوں رہنماؤں نے باہمی دلچسپی کے موضوعات پہ مذاکرات کئے جن میں اکتالیس ملین ڈالر کے جدیدترین ترقیاتی منصوبے کے ایک سمجھوتے پہ بھی دستخط ہوئے جو بھارت کی مدد سے پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔
دوستوں کا شکریہ عملی طور پر یونہی اداکیا جاتا ہے نہ کہ منافقانہ اور نمائشی جلسے جلوس منعقد کرکے اور زندہ باد مردہ باد کے نعرے لگا کر جن کا نہ کوئی سرہوتاہے نہ پیر اور جن کامقصد اور حاصل حصول محض عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا اور ’’ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘ کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
فلسطینی اتھارٹی کے سرکاری مہمان کے طور پریہ کسی بھی بھارتی وزیر اعظم کا پہلا دورہ تھا ۔اس لحاظ سے مودوی نے تاریخ رقم کردی ہے۔فلسطینی صدر نے اپنے بیان میں امید ظاہر کی کہ بھارت اسرائیل کے ساتھ اپنے گہرے تعلقات کوفلسطینیوں کے لئے امن اور آزادوطن کے حصول کے لئے مثبت طور پر استعمال کرے گا اور دو ریاستی منصوبے کی راہ ہموار کرنے کی کوششوں میں ثالثی کاکردار ادا کرے گا۔
اس سے قبل بھارت نے اقوام متحدہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرلینے کے فیصلہ کے خلاف ووٹ دیا تھا۔
گزشتہ چند ہفتوں میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور پھر اردن کے شاہ عبداللہ کے دورہ بھارت اور اسکے بعد مودی کے دورہ فلسطین سے عالمی مبصرین یہ تاثر قائم کرنے میں حق بجانب نظر آتے ہیں کہ مستقبل میں بھارت ایشیا بھر(بشمول سنٹرل ایشیا و مڈل ایسٹ)میں ایک نیا ذمہ دارانہ کردارادا کرتا نظر آئے گا جس کی شروعات دیکھی جانے لگ گئی ہیں۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی افغانستان کے معاملہ میں بھارت کو ایک کلیدی ذمہ داری سونپے جانے کا عندیہ دیا تھا۔حال ہی میں مالدیپ کے سابق صدرنے بھی اسلامی ممالک کی تنظیم سے نہیں بلکہ بھارت سے مداخلت کرنے کی اپیل کی ہے۔
افسوس کہ فلسطینی سفیر کے واپس بلائے جانے کے بعدپاکستان کے کسی سفارتی عہدیدار کو فلسطین جاکر کوئی وضاحت لینے یا دینے کی توفیق نہ ملی(اول تو پاکستانیوں نے فلسطین جانے کا دروازہ اپنے لئے بند کررکھاہے)۔ان کے لئے قطری اور سعودی شہزادوں کو تلورکے شکار کے لائسنس فراہم کرنا ،ان کے لئے تلور کے قیمے کے سیخی کباب اور تلورتکہ پارٹیاں منعقدکروانااور قطری شہزادے سے ایک عدد خط لکھوالیناہی کامیاب ترین اور قابل فخر خارجہ پالیسی سمجھی جاتی ہے۔جوکردارالقدس کوآزاد کروانے کے نام نہادمتمنی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لیڈروں کو ادا کرنا چاہئے تھا وہ بھارت ادا کررہاہے۔
پاکستان کی طرف سے گزشتہ دو چار ایام میں البتہ ا گر کوئی قابل ذکر پیش رفت ہوئی ہے تو وہ یہ ہے کہ (غالباً امریکی امداد کی بحالی کے لئے)صدر ممنون حسین نے انسداد دہشت گردی ایکٹ میں ترمیم کا ایک صدارتی آرڈیننس جاری کیا ہے جس کے تحت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے قرار دیئے جانے والی کالعدم تنظیمیں اور دہشت گردافراد اب پاکستان میں بھی دہشت گرد اور قابل موأخذہ متصور ہونگے۔
روزنامہ ڈان کے مطابق مذکورہ ترمیمی بل پر صدارتی دستخط کے بعد حافظ محمد سعید کی جماعت الدعوۃ اورفلاح انسانیت فاؤنڈیشن سمیت الاختر ٹرسٹ اور الرشید ٹرسٹ بھی کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل ہو گئی ہیں۔جبکہ بھارتی میڈیا اس ترمیم کے اعلان کے بعد حافظ سعید کی گرفتاری کی امیدیں باندھ کرکسی اورہی خوش فہمی میں مبتلا نظرآتاہے۔
انسداد دہشت گردی کے قوانین اوران میں نت نئی ترامیم کے اضافے عالمی سطح پہ پاکستان کا امیج بہترکر پائیں گے یا نہیں،یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔فی الحال تلور کے کباب انجوائے کریں اورمودی کو پھرنے دیں اِدھراُدھر!۔
♦