ہر انسان کی فطری زبان ان کی اپنی مادری زبان ہوتی ہے جس میں وہ اپنااظہارمافی الضمیر کسی بھی دوسری زبان کے مقابلے میں بہترکرسکتاہے۔ حیف ؛ اپنی ما دری زبانیں بھلا کر گویاکچھ لوگ اپنی ماں اور فطرت دونوں سے دغا بازی کے مرتکب ہوتے ہیں۔علم نفسیات اورماہرین لسانیات اس بات پر ہمیشہ مصر رہے ہیں کہ بچوں کو اُسی زبان میں تعلیم دینی چاہیے جس میں وہ خواب دیکھتے ہوں اور ظاہر بات ہے کہ خواب مادری زبان میں دیکھاجاتاہے۔
ان ماہرین کا یہ دعویٰ بھی بجاہے کہ جس بچے کو اپنی ماں کی زبان میں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں ، نتیجے کے طورپر وہ ان بچوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر کارکردگی دکھا سکتے ہیں جنہیں یہ مواقع میسر نہ ہوں۔
سترہ برس قبل یعنی 1999کو اقوام متحدہ کی جانب سے اکیس فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن قرار دیا گیا، جسے پوری دنیا میں منایا جاتاہے۔ہمارے ہاں تواس دن کوطویل تحقیقی مقالے اور دھواں دار تقاریرسنانے کوبہت ملتے ہیں لیکن معاملہ ’’ کردند‘‘ کی بجائے ہمیشہ ’’ گفتند‘‘ والا رہتاہے۔ کیونکہ عمل کے میدان کے غازی ہم بہت کم ہی ثابت ہوتے ہیں۔اس ملک میں بہت سے دیگر بنیادی مسائل کی طرح زبان اور لسانی شناخت کا مسئلہ بھی پہلے ہی دن سے لاینحل آرہاہے۔ یوں کہیے کہ ہماری فارن پالیسی کی طرح لینگوئج پالیسی بھی ہروقت قابل رحم رہی ہے کیونکہ ریاست آج تک یہاں پر بولی جانے والی زبانوں کی حیثیت کے تعین کے بارے میں تذبذب کا شکار نظرآتی ہے ۔
یہاں تولوگوں کواپنی ماں کی زبان میں تعلیم کا حق دینا تو کجا ، ایک ایسا زمانہ بھی یہاں گزراتھا کہ ملک میں چھپن فیصد آبادی رکھنے والی بنگالی قوم اُن نہتے طالب علموں پر اندھا دھند گولیاں چلائی گئیں جو ملک میں رائج اُس زبان (اردو)کے مقابلے میں بنگلہ زبان کے نفاذ کامطالبہ کرنے لگے تھے جو تین فیصد لوگوں کی مادری زبان تھی۔یہ بھی کیا کم ستم ظریفی ہے کہ ہمارے وزرائے اعظم صاحبان یا ملک کامقدمہ لڑنے والے دیگر غم خواروں کوجب بھی اقوام متحدہ یا دوسرے عالمی فورم پر تقریر کرنے کا موقع ملا ہے ، انہوں نے اپنی قوم کی نمائندگی انگریزی زبان کرنا کارثواب سمجھاہے۔
دوسری طرف یورپ اور ایشیاء کے سنگم پر واقع اور نیٹو اتحاد کا رکن ملک ترکی کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے جہاں کے حکام اور عوام کا معاملہ ہم سے یکسر مختلف اور قابل رشک رہا ہے۔ مغرب سے اتنی قربت کے باوجود ترک حکمرانوں نے ہمیشہ دنیا پر اپنی اصلیت کو واضح کرنے کے لئے ترک زبان میں اپنا اظہار کیاہے۔وزیراعظم جناب طیب ایردوان تین مرتبہ پاکستان کے مشترکہ ایوان کے اجلاس سے خطاب فرماچکے ہیں اور ہر مرتبہ انہوں نے ترک زبان کو اظہار کا ذریعہ بنایاہے۔
برادر ملک چین کے بارے میں اگر یہ دعویٰ کرلوں تو بھی شاید مبالغہ نہیں ہوگا کہ یہ لوگ چینی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں تقریر کرنے کو باعث شرم اور ایک جرم تصور کرتے ہیں ۔ سابق چینی صدر چواین لائی کے بارے میں تو کہا جاتاہے کہ موصوف صدر کو اپنی زبان سے اتنا لگاو اور پیارتھاکہ جس لطیفے کو چینی زبان میں ان کو سنایا جاتاتو ان کی خوب ہنسی نکل جاتی تھی لیکن جب یہی لطیفہ انگریزی میں انہیں سنایا جاتاتو وہ لب بستہ رہ جاتے ۔
ریاستی سطح پر حکمرانوں کی پیہم غفلت سے قطع نظر، مجموعی طور پر ایک قوم کے ناطے بھی ہم نے ہروقت انگریزی زبان کو راجح اور اپنی مادری زبانوں کو مرجوح کا درجہ دیا ہوا ہے۔ ہماری ذہنی پستی کی انتہا کا تویہ عالم ہے کہ معاشرے میں پشتو ، پنجابی ، سندھی اور بلوچی کے ایک پی ایچ ڈی اسکالر کی وہ اہمیت نہیں جتنا کہ ایک انگریزی لینگوئج سینٹر میں پڑھانے والے ایک ادنیٰ استاد کو حاصل ہے۔قیام پاکستان کے بعد مادری زبانوں کو وسیلہ تعلیم بنانے کے مطالبات توکیے گئے لیکن بدقسمتی سے ان مطالبات کو حکام وقت سے منوانا کل کی طرح آج بھی امرِ محال دکھائی دیتاہے۔
برصغیر پر حکمرانی کے دور میں جب انگریز نوکر شاہی پنجاب میں اردو کا نفاذ کررہی تھی تو اس دوران انگریز آفیسروں کے بیچ اس حوالے سے خط وکتابت ہوتی رہتی تھی جس کا ذکرچوہدری محمد رفیق نے اپنی کتاب ’’ پنجاب میں اردو کا نفاذ ‘‘ میں کیا ہے۔ چوہدری صاحب نے اس کتاب میں اسی وقت کے شاہ پور میں تعینات ایک انگریز ڈپٹی کمشنر ولسن کی کچھ اہم باتیں نقل کی ہیں جس میں میجر ولسن نے زبان کے بارے میں اپنا نکتہ نظر یوں بیان کیاہے کہ ’’اگر زبان کا ہدف خواندگی کو بڑھانا ہے تو یہ مقصد صرف اور صرف مادری زبان کے نفاذ ہی سے حاصل کیا جاسکتاہے۔
اس حوالے سے وہ برطانیہ کی مثال بھی دیا ہے کہ جہاں ایک وقت میں لاطینی اور پھر فرانسیسی زبان نافذرہی تھی۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس وقت برطانیہ میں لاطینی زبان کے نفاذ سے شرح خواندگی میں اضافہ ہوا اور نہ پھرفرانسیسی زبان سے بلکہ ناخواندگی کا مسئلہ صرف اس وقت حل ہونے لگا جب انگریزی زبان کو اپنایا گیا‘‘۔یہی تو المیہ ہے کہ لسانیات پر تحقیق کرنے والوں نے دیس ناپرساں میں 76کے لگ بھگ بولی جانے والی زبانوں میں سے ایسی اٹھائیس زبانوں کی نشاندہی کی ہے جو اس وقت خطرے سے دوچار ہیں۔سات ایسی زبانیں ہیں جو غیرمحفوظ ہیں۔ پندرہ یقینی خطرے کا شکار ہیں جبکہ چھ زبانیں شدید خطرے سے دوچار ہیں۔
بھلا ہوپھربھی یو ایس ایڈ کا جس کے تعاون سے چلنے والے ’’ فورم فار ریسرچ انیٹشیٹیوزاورایف ایل آئی جیسے نجی ادروں کا،جو یہاں کے شمالی علاقہ جات میں مرنے والی زبانوں کی سانسوں کی دوبارہ بحالی میں کئی سالوں سے کوششیں کررہے ہیں۔ مذکورہ ادارہ شمالی علاقہ جات کے پانچ زبانوں دمیلی ، گورباتی ، پالولا، پوشوجواور بدغا کی بنیادی گرائمر اور الفاظ کے اردو معنوں پر کتابیں مرتب کرچکاہے ۔
زبیر توروالی سوات کوہستان میں آئی بی ٹی نامی ادارے کے سربراہ کا کہنا ہے کہ میڈیا کے اس دور میں بھی خطرات سے دوچار ان زبانوں میں پروگرامز تو کہاں ان کا ذکر تک نہیں کیا جاتا۔ لیکن نجی سطح پر فورم فار لینگوئج انیٹیٹیو اور ادارہ برائے لسانیات سر فہرست ہیں جوان علاقوں میں بولی جانے والی ان زبانوں کی بقا اور ترویج کیلئے گزشتہ ایک دہائی سے کام کررہاہے۔ یہ ادارہ ان زبانوں کے بولنے والوں کو لسانیات اور ان زبانوں میں تعلیمی مواد کی بنیادی تیاری میں تربیت دیتاہے ۔
اس ادارے کے ساتھ ساتھ مقامی آبادیوں میں بھی کئی ایک غیر سرکاری تنظیمیں کام کررہی ہیں جن میں انجمن ترقی خوار، شینا لینگوئج اینڈ کلچرل سنٹر اور آئی بی ٹی شامل ہیں۔ اگرچہ ان اداروں کا کام نہایت قابل تحسین ہے لیکن عالمگیریت کے اس دور میں زبان جیسی بنیادی ذریعے کے لئے ایسے غیر سرکاری اقدامات ناکافی ہے جس کے لئے کافی اقدامات اب ناگزیر ہوچکاہے ۔مادری زبانوں کے حوالے سے اس تحریر کے آخر میں قارئیں کیلئے پشتو زبان کے بابائے غزل مرحوم امیرحمزہ شینواری کی غزل کاایک اشعار پیش خدمت ہیں،
وائی اغیار چی د دوزخ ژبہ دہ ، زہ بہ جنت تہ د پشتو سرہ زم
’’اغیار تو میری زبان پر ایک دوزخی بولی کا الزام لگاتے ہیں لیکن میں عہد کرتاہوں کہ اپنی پشتو زبان ہی کے ساتھ جنت میں داخل ہوں گا۔
♦