خطرناک ’’نفسیاتی مریضوں‘‘کو خطرناک اسلحے کی فروخت آخر کب تک؟

طارق احمدمرزا

امریکہ کے تعلیمی اداروں میں شوٹنگ کے واقعات کی خبریں تو اب مسلم اکثریتی ممالک میں ہونے والے خودکش حملوں کی خبروں کی طرح معمول کی بات بن چکی ہیں۔

گزشتہ دنوں فلوریڈا،امریکہ میں سکول شوٹنگ کا ایک اور افسوسناک واقعہ پیش آیا۔سترہ ماؤں کے معصوم جگرگوشے جو معمول کے مطابق صبح سویرے ناشتہ کے بعدتیار ہوکربستے ہاتھوں میں تھامے ایک روشن اور بامعنی مستقبل کی خاطر خود کوزیورتعلیم سے آراستہ کرنے کی نیت سے ہرروز کی طرح سکول آئے اور وہاں لقمہ اجل بنادیئے گئے۔کتنے ہی مزید بچے ہسپتال میں زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ امریکہ کے تعلیمی اداروں میں فائرنگ کے واقعات میں سے یہ سب سے زیادہ قیامت خیز واقعہ تھا۔

ہمیشہ کی طرح مائیں اپنے جگرگوشوں کے خون آلود لاشے سکول سے وصول کرتی رہ گئیں اور ہمیشہ کی طرح امریکی حکومت کے ترجمان ’’ماس شوٹنگ ‘‘کے اس واقعہ کوبھی امریکہ کے بدنام زمانہ گن لاز کانہیں بلکہ نفسیاتی عوارض کا نتیجہ قراردے کرمونچھ مروڑ کر اپنے اپنے دفاتر میں جاکر بیٹھ گئے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک مختصر سی ٹویٹ کی’’شوٹر ذہنی لحاظ سے ڈسٹرب تھا‘‘۔

مولی گاجر کی طرح شوٹ ہو جانے والے بچوں کی مائیں پوچھتی ہیں یہ کیسا ذہنی مریض تھاجس نے لائسنس یافتہ خطرناک اسلحہ اور بہت سارے میگزین خرید لئے،پھر فیس بک پہ دھمکی لکھی،پھر فیس ماسک پہن کر اس سکول میں آیا جہاں سے وہ نکالا گیا تھا،وہاں اس نے پہلے فائر الارم آن کیا تاکہ طلبأاپنی اپنی کلاسوں سے باہر نکل کر ایک مخصوص جگہ جمع ہو جائیں جہاں وہ ان پر گولیوں کے میگزین خالی کرسکے۔ 

والدین کا کہنا ہے کہ اگر یہ واقعی ذہنی مریض اور’’ ڈسٹرب ‘‘شخصیت کا مالک تھا تو اس قسم کے لوگوں کی خطرناک اسلحے تک رسائی بند کیوں نہیں کردی جاتی۔کیا ہم بچے اس لئے جنتے اور پالتے پوستے ہیں کہ اسلحے کے امریکی سوداگروں کا بزنس چلتا رہے، ان کا اسلحہ سکول کے بچوں پرٹارگٹ کلنگ کی’’ پریکٹس‘‘ کے ہی تو کام آرہا ہے۔

واضح رہے کہ امسال یعنی 2018 میں امریکی سکولوں میں ہونے والی فائرنگ کا یہ اٹھارواں واقعہ تھا۔ہر واقعہ میں ملوث مجرم کو نفسیاتی مریض قرار دے کر اسلحے سے متعلق قوانین کو جوں کا توں ہی رکھنے کا عزم دہرایا جاتاہے۔ظاہر ہے’’ بزنس از بزنس‘‘ کا ماٹو رکھنے والوں کے لئے’’ کپ آف ٹی ‘‘چائے کاکپ ہی ہوتاہے خواہ وہ ’’کپ آف بلڈ‘‘ ہی کیوں نہ ہو۔

صدمے سے چور اور مزید صدموں کے خوف میں مبتلالرزتی کانپتی امریکی ماؤں کی طرح دنیا کا ہر شہری،اس کے ماں باپ،اس کے عزیزواقارب ،اس کے بچے بھی اسلحے کے ان بیوپاریوں اور پجاریوں سے یہی سوال اور شکوہ کتنے ہی عرصہ سے کرتے چلے آئے ہیں کہ خطرناک نفسیاتی مریضوں اور پاگلوں کو اتنا خطرناک اسلحہ بیچتے ہوئے آپ کے ضمیرکو کچھ نہیں ہوتا،کیا آپ کا ضمیر ہے بھی یا نہیں؟۔
امریکہ ہی نہیں دنیا بھر کے معصوم اور نہتے شہریوں اور ان کے پھول جیسے بچوں کے قاتلوں کو آپ ہی اسلحہ، گولا بارود،راکٹ،میزائل ،ٹینک وغیرہ بیچتے ہیں اور پھر ایک طویل عرصہ ان سے خون کی ہولی کھلوا کر انہیں نفسیاتی مریض قراردے دیتے ہیں۔

کبھی صدام حسین کو نفسیاتی مریض قرار دے دیا جاتا ہے،کبھی معمر قذافی کو پاگل اور کبھی بشار الاسدکو سنکی کہہ دیتے ہیں۔کبھی طالبان آپ کے بہترین گاہکوں میں شمار ہورہے ہوتے ہیں تو کبھی انہی کو مالیخولیا اور جنون میں مبتلا مریض کہہ رہے ہوتے ہیں۔اور اس پہ مستزاد ان پاگلوں کو نفسیاتی مریض قرار دینے کے باوجود اپنے بزنس ایجنٹ یا سہولت کار کے ذریعہ ان کو مزیدخطرناک اسلحہ کی فروخت پھر بھی جاری رکھتے ہیں۔

مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ خطرناک اور مہلک اسلحہ خریدنے والے امریکی ( اور غیر امریکی دہشت گرد اور حکمران)) ذہنی مریض اور نفسیاتی طور پر ڈسٹرب افراد ہوں یا نہ ہوں، آپ کے ’’وَنس اگین گریٹ‘‘امریکہ کی اسلحہ ساز فیکٹریوں کے مالکان اور ان کے زیر اثر لابی سے تعلق رکھنے والے مختلف ضمیرفروش ضرورنفسیاتی مریض اور ڈسٹرب افراد ہیں جنہیں پاگل خانوں کے انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں داخل کروا کر ایک کریمنل سائکاٹرسٹ سے علاج کروانے کی فوری ضرورت ہے۔

2 Comments