طارق احمدمرزا
سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے سابق سینیٹرنہال ہاشمی کوتوہین عدالت کیس میں سزا سنا دی جس کے نتیجے میں وہ پانچ سال کے لئے نااہل بھی ہوگئے ہیں۔ آپ پر الزام تھا کہ آپ نے ایک تقریرمیں دھمکیاں دیتے ہوئے کہاتھا کہ وہ احتساب کرنے والوں کا یوم احتساب بنا دیں گے۔انہوں نے ہوا میں ہاتھ لہرالہرا کر عدلیہ سے مخاطب ہوکریہ بھی کہا تھا کہ ہم نے چھوڑنا نہیں تم کو۔آج حاضر سروس ہو،کل ریٹائر ہو جاؤگے،ہم تمہارے بچوں اور خاندان کے لئے پاکستان کی زمین تنگ کردیں گے وغیرہ۔
سپریم کورٹ نے ان کی اس دھمکی آمیز اور مبنی بر توہین شعلہ بیانی کا ازخود نوٹس لیا تھاجبکہ اس سے قبل مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت نے ان کے بیان کو ان کی ذاتی رائے قرار دیا تھا اور ان کی پارٹی رکنیت بھی معطل کردی تھی۔
سپریم کورٹ جو عموماً توہین عدالت کے اکثر کیسوں میں نامزدملزمان کے غیر مشروط معافی مانگنے پر ملزمان کو ایک وارننگ دے کر چھوڑ دیا کرتی ہے اس مرتبہ غالباً اس لئے اس قسم کا فیصلہ سنانے پر مجبورہوگئی تھی کہ نہال ہاشمی نے عدلیہ کے معزز جج صاحبان کے رویوں،کارروائیوں اور اب تک کئے جانے والے فیصلوں پر تنقیدہی نہیں کی بلکہ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے بچوں اور خاندان تک کے لئے پاکستان کی سرزمین تنگ کردینے اوران کا یوم حساب بنا دینے کی دھمکی دے دی تھی۔
یقیناً فاضل عدالت کے جج صاحبان کونہال ہاشمی صاحب کے لہراتے ہوئے ہاتھ کا دباؤ اپنے اور اپنے بچوں اور خاندان والوں کے گلوں پہ محسوس ہوا ہوگا اوراسی طرح ان کی نفرت انگیزشعلے اگلتی زبان کی تمازت کانوں میں پگھلائے ہوئے سیسے کی طرح ڈلتی محسوس ہو ئی ہوگی جبھی تو انہوں نے نہ صرف ازخود نوٹس لیا بلکہ مستقبل میں اس قسم کی توہین آمیزدھمکیوں اور ان پر ممکنہ عمل درآمد کی روک تھام کی نیت سے گربہ کشتن روزاول کی ایک مثال قائم کرنے کی ٹھان لی۔شاید اس قسم کے فیصلے کا یہی مناسب ترین موقع اور وقت تھا۔
پاکستانی سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے تونہال ہاشمی کے ان لہراتے ہاتھوں کو اپنے اور اپنے بچوں کے گلوں اور گریبانوں تک پہنچنے اور پاکستان کی زمین کو خود پہ تنگ ہونے سے روک دیاہے لیکن میں اس تاریخی فیصلہ کے آنے کے بعد سے مسلسل اس انتظار میں پڑگیا ہوں کہ دیکھو کب یہی سپریم کورٹ پنجاب کے ایک صوبائی وزیرسید زعیم حسین قادری کی دھمکی آمیز اعلان اور نفرت انگیزشعلہ بیانی کاازخود نوٹس لیتی ہے جس میں انہوں نے پاکستان کی ایک غیر مسلم قراردی ہوئی اقلیت کے ممبران کو علی الاعلان ایک لایؤ شومیں للکارتے ہوئے دھمکی دی بلکہ اعلان کیا کہ اگراس اقلیت سے تعلق رکھنے والے افرادقرآن کی اشاعت سے باز نہ آئے تو وہ اپنے ہاتھوں سے ان کا گلا دبا دیں گے۔ انہوں نے مبینہ طور پر یہ بھی فرمایا کہ وہ پاکستان کی اس مخصوص اقلیت کو اقلیتوں والے حقوق کا بھی جائز حقدارتسلیم نہیں کرتے۔
انہوں نے فخریہ بتایا کہ اس اقلیت کے اخبار ورسائل بند کردئے گئے ہیں،ان کا پریس سیل ہو چکا ہے ،ان کے بندے پکڑ کر جیلوں میں ڈالے جا چکے ہیں۔
جہاں تک راقم کوعلم ہے وزیر صاحب موصوف کے اس اعلان کی نہ تو کسی نے مذمت کرتے ہوئے اسے ان کی ذاتی رائے قرار دیا،نہ وزارت سے محروم یا پارٹی سے خارج کیا،اور نہ ہی کسی عدالت نے اس کا ازخود نوٹس لینا ضروری سمجھا۔اس کی وجہ یہ نہیں کہ نہال ہاشمی اور ذعیم قادری کی نفرت انگیزشعلہ بیانی اور توہین آمیز دھمکی کے اعلانات کی سنگینی میں کوئی فرق ہے بلکہ صرف اور صرف اس لئے کہ نہال ہاشمی کے ہاتھوں کی طرح زعیم قادری کے ہاتھ کسی اور کے گلے کی طرف نہیں بلکہ ایک ’غیرمسلم‘اقلیت کے گلوں کو دبوچنے کے لئے آگے بڑھے ہیں۔جن کا پاکستان میں کوئی والی وارث نہیں۔جن کا کوئی اگلا پچھلا کسی کو نظر نہیں آتا۔جس کے افراد اور ان کے بچوں اور خاندانوں پر پاکستان کی زمین ویسے بھی تنگ ہوچکی ہے۔جن کی تعداد ویسے بھی آٹے میں نمک بلکہ اس سے بھی کم ہے۔ان گنتی کے چندمخصوص ’’غیر مسلموں‘‘ کے گلے دبا بھی دئے جائیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔الٹا قابل ستائش سمجھا جاتا ہے۔
قانون نے بھی ان کا کیاکرنا ہے وہ تو خود امتناع قادیانیت آرڈیننس کاحامل، پاسدار اور اس پرعمل کروانے کا پابندہے۔
قائداعظم محمد علی جناح کے چھوڑے ہوئے اس ملک کا تو یہ حال ہے کہ ایک طرف ایک ’’ نقشبندی ‘‘ کے ہاتھ کمزور،اور بے بس بچیوں کوریپ کرکے ان کے گلے دباتے نظرآرہے ہیں تودوسری طرف ایک ’’قادری‘‘ کے ہاتھ ایک بے بس ،کمزور اقلیت کے گلے دبانے کے لئے مچلتے دکھائی دے رہے ہیں۔کم سن ریپ شدہ بچیاں تو پھر بھی مرتے مرتے دبی دبی ہی سہی ایک آدھ چیخ تومارہی لیتی ہوں گی لیکن اس غیر مسلم پاکستانی اقلیت سے تو چیخنے کا حق بھی چھین لیا گیا ہے۔ایسی اقلیت جسے ایک حاضر سروس وزیر اقلیتوں کے حقوق کا حقدار بھی نہیں سمجھتااور سب اس پر خاموش رہتے ہیں،کیا انتظامیہ اور کیا عدلیہ۔بس یہی فرق ہے نہال ہاشمی اور زعیم قادری میں۔اول الذکر حماقت کر بیٹھا اور مؤ الذکر عقلمندنکلا۔
اسلامی تعلیمات کا لیکچر دینے والے یہی زعیم قادری دوسری طرف ناؤ و نوش کی محفلوں میں کھل کر داد عیش دے رہے ہیں۔جن کی تصاویر سوشل میڈیا پر دستیاب ہیں۔شاید یہ ایک’’ دھمال پارٹی‘‘ ہی تھی جس میں قادری صاحب کے بازو اور ہاتھ لہرالہرا کراخلاص اور ثواب کی جلوہ گری دکھا رہے تھے کیونکہ ملک میں مخلوط دھمالوں کا نہ صرف فیشن ہے بلکہ لاؤڈ سپیکر پہ ’’حضرت پیر جی ‘‘کی طرف سے خواتین کی موجودگی میں اعلان کیا جاتا ہے کہ ’’حضور فرماندے نیں، جیہڑا (مادر۔۔) دھمال نیءں پاوے گا اس دی پین دی۔۔۔۔‘‘ اور پھر قوالوں کی بلند ہوتی لے اور ڈھولک کی تیز تر ہوتی تھاپ پرہردومردوزن وجد میں آکر کمال کادھمال ڈالناشروع کردیتے ہیں۔
اس نکتہ نظر سے مجھے زعیم قادری کے اس دھمال پہ بہت ہی رشک آیا تھا ،بلکہ سچ کہوں تو حسد میں مبتلا ہو گیا تھا،لیکن جب ان کی ہی زبانی یہ مایوس کن انکشاف سنا کہ’’ دھمال‘‘ میں لہرا لہراکر ثواب کماتے یہ ہاتھ اور بازو اسلامی جمہوریہ کی ایک اقلیت کے گلے دبوچنے کے لئے تیار ہیں تو فوری رد عمل کے طورپر مجھے’’ تبت یداابی لہب‘‘ کے الفاظ یاد آئے کیونکہ قرآن کی اشاعت سے روکنے والے اور قرآن کی تلاوت کرنے والوں کے گلے دبوچنے والے اولین ہاتھ توتاریخ کے مطابق ابولہب اور اس کے ماتحتوں(امرأۃ) کے ہی تھے۔
بہرحال پاکستان کی انتظامیہ یا عدلیہ جناب وزیرصاحب کی اس افسوسناک اور قابل مذمت دھمکی کا نوٹس لے یا نہ لے،انٹرنیشنل ہیومن رائٹس اور عالی برادری نے اس واقعے کا نوٹس ضرور لے لیاہے۔ انسانی حقوق کی پامالی کے حوالے سے پاکستان جس طرح عالمی سطح پر بدنام ہوتاچلا جارہا ہے اس میں مزید اضافہ کاسہرا پنجاب حکومت کے اس وزیرکے ماتھے پہ سج چکا ہے، اس کی ’’ لشکار‘‘ اقوام عالم کے آئینے میں دیکھی جا سکتی ہے۔
http://hrcommittee.org/2018/01/27/incidents-report/
لیکن پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں،جب تک دھمال جاری ر ہے گی ملک وملت کاکچھ نہیں بگڑے گا۔حضورجوفرماندے نیں اوہی ٹھیک اے !۔
3 Comments