مبارک حیدر
عدل اعتدال اورعدلیہ ، ایسی اجناس ہیں جو کسی بھی سرزمین میں آسانی سے نہیں اگتیں ۔ پاکستان کی زمین تو اللہ پاک نے بنائی ہی فوجی مشقوں کے لئے تھی ، اتنی کرخت اتنی ناہموار کہ جہاں صرف ہمارے مردان باکمال ہی اپنے کرتب دکھا سکتے ہیں ۔ باقی آبادی اردلی اور بیٹ مین لوگوں پر مشتمل ہے جن میں مائی لارڈ بھی ہیں ، سیاست کار اور دین کے فنکار بھی ۔ کبھی کبھی کچھ لوگوں کی انا بے قابو ہو جاتی ہے تو مٹی اڑتی ہے لیکن صرف تھوڑی دیر۔ پھر مائی لارڈ چھڑکاؤ کر کے صفائی کر دیتے ہیں۔ ۔۔
انا اور اصول میں بہت فرق ہے ۔ انا سب کی الگ الگ ہے ۔ لیکن کچھ مفاد ایسے ہیں جو لوگوں میں اشتراک پیدا کرتے ہیں ۔ انہیں ہم سیاسی پروگرام بھی کہتے ہیں اور اصول بھی ۔ جب ایسے پروگرام یا اصول موجود نہ ہوں تو انا والوں کی کشتی میں صرف تھوڑی مٹی اڑتی ہے ۔ ہجوم کی شمولیت کے بغیر میدان کا رنگ نہیں بدلتا ۔
ہمارا یہ میدان ایسا ہے جو ایک انچ بھی ہموار نہیں، جہاں موسم کا اعتبار نہیں ، کوئی کسی کا یار نہیں ، کیونکہ یہ جنگ اور نفرت کا میدان ہے جس میں سب جائز ہے ، تو پھر اعتدال کیسا اور عدلیہ کہاں کی ۔۔۔۔ کچھ دانشور کہتے ہیں کہ یہاں سے قائد اعظم کے جمہوری نظریات نکال دئے گئے ہیں ۔ اگر یہ سچ بھی ہے تو یہ ماننا پڑتا ہے کہ اس طرح کا نکلنا گھسنا پاکستان میں معمول کی بات ہے ۔ مثلا مملکت سے خدا نکل گیا اور اللہ آگیا ، لیکن مملکت اب بھی خدا داد ہے ، یعنی نام اور ہے اور کام اور۔
عدل انسانی تہذیب کا سب سے مہنگا پھل ہے جو دنیا میں شاید کہیں بھی عام نہیں ہوا ۔ عدل و انصاف کے لئے شرط ہے کہ لوگوں کی اکثریت کسی اصول پر متفق ہو اور دیر تک متفق رہے ۔ اکثریت کے متفق ہونے کے لئے شرط ہے کہ معاشرے کے موثر دانشوروں کی اکثریت کچھ اصولوں پر ایک ہواور دیر تک ایک رہے ۔ ہمارا ایسا نصیب کہاں کہ جہاں لوگ موروثی دین پر متفق نہیں ہو سکتے وہاں عدل اور اصول پر ایک ہو جائیں ۔
سو بھائی اپنے حصے کا عدل کرتے رہو لیکن سب کے ساتھ اور اعتدال کے ساتھ ۔ اور تھوڑا عدل اپنے گھر کے لئے بھی رکھ لو ۔ یہ تمہارا وہ چھوٹا سا معاشرہ ہے جس کے تا حیات وزیر اعظم بھی تم ہو اور چیف جسٹس بھی تم ۔
♦