خرید و فروخت کا دوسرا نام، تجارت ہے۔ اگر آپ کے پاس فروخت کرنے کے لئے کچھ ہوگا تو ہی آپ فروخت کر پائیں گے۔ یا اگر آپ کے پاس خریدنے کے لئے رقم ہوگی تو ہی کچھ خرید پائیں گے۔ دو طرفہ تجارت یا دو ممالک کے درمیان تجارت ، طلب اور رسد کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ تجارت میں ڈیمانڈ اور سپلائی کابنیادی اصول کار فرما ہوتا ہے۔ اگر ڈیمانڈ ہے اور سپلائی نہیں ،یا سپلائی ہے اور ڈیمانڈ نہیں ،تو کوئی تجارت نہیں ہوسکتی۔
جب ہم پاکستان کی تجارت کی بات کرتے ہیں تو ہمارا مطلب ملک کی درآمدات و برآمدات سے ہوتا ہے۔ دنیا میں میں کوئی ملک خود کفیل نہیں ہوتا، ہر ملک کو اپنی آبادی اور معیشت کی ضروریات پوری کرنے کے لئے دوسرے ممالک کے ساتھ اشیاء و خدمات کی تجارت کرنا ہوتی ہے۔
دنیا کا تجارتی جغرافیہ متنوّع ہے، کہیں معدنیات کی فراوانی ہے، تو کہیں پانی کا قحط ہے، کہیں زمین سرسبز و شاداب ہے تو کہیں سنگلاخ پہاڑ اور چٹیل میدان ہیں، کہیں تیل و گیس کی فراوانی ہے تو کہیں اجناس ، سبزیوں اور پھلوں کے ڈھیر لگے ہیں۔ دنیا میں کچھ ایسے ممالک بھی ہیں جو لینڈ لاک ہیں، اور ایسے ممالک بھی ہیں جو جزیروں پر مشتمل ہیں۔ کہیں قدرتی وسائل کی فراوانی ہے تو کہیں، تربیت یافتہ افرادی قوّت کا فقدان۔
غرض یہ ضرورتیں ہی ہوتی ہیں جو ایک ملک سے دوسرے ملک کو تجارت پر مجبور کرتی ہیں۔ پاکستان بھی دنیا کے اہم ممالک میں سے ایک ہے، ہماری 80 بلین ڈالر کی تجارت ہے۔ جس میں سے برآمدات کا حجم 27 بلین ڈالر اور درآمدات کا حجم 52 بلین ڈالر ہے۔ ہمارا تجارتی خسارہ 25 بلین ڈالر ہے۔ ہمارے معاشی پالیسی ساز تجارتی خسارے کو معیشت کے لئے بہت خطرناک گردانتے ہیں۔ یہ تجارتی خسارہ صرف ایکسپورٹ بڑھا کر ہی پورا کی جاسکتا ہے، کیونکہ ہماری معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے امپورٹ بھی بہت ضروری ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنی برآمدات بڑھائیں تو کیسے بڑھائیں؟؟؟ ہمارے پاس ایسا کیا ہے۔ جو کہ ہم فروخت کے لئے بین الاقوامی منڈی میں پیش کریں۔ ہماری تو یہ حالت ہے کہ ہمارے پاس ٹیکسٹائلز ، لیدر ، سپورٹس اینڈ سرجیکل گڈز ، چاول اور معدنیات کے سوا اور کوئی قابل ذکر آئٹم ایکسپورٹ کے لئے موجود ہی نہیں ہے۔ اس کے بعد اگر کچھ ہے ، تو بات گھوم پھر کے کینو ، آم اور دیگر فروٹ سبزیوں پر بات آ جاتی ہے۔
وہاں بھی مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ پیرش ایبل آئٹم ہونے اور حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق پیسٹی سائیڈز کی فیومیگیشن ، پیکنگ اور شیلف لائف ان اشیاء کی ایکسپورٹ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ ہینڈی کرافٹ میں بھی زیادہ پوٹینشل نہیں ہے۔ ۔
سروسز سیکٹر (خدمات کا شعبہ)میں بھی ہمارے پاس فروخت کے لئے کچھ موجود نہیں ہے۔ نہ ہی ہمارے انڈیا کی طرح پاس اعلی‘ پائے کی ہنر مند افرادی قوّت جیسے آئی ٹی ماہرین، بایو اینڈ انڈسٹریل ٹیکنالوجسٹ، ایرواسپیس ٹیکنالوجسٹ، انٹرنیشنلی سرٹیفائیڈ فارماسسٹ، ڈاکٹرز موجود ہیں، نہ ہی ہم آؤٹ سورس انڈسٹری میں قدم رکھ سکے ہیں۔
جب کہ ہمارے حریف ملک انڈیا نے سروسز سیکٹرز میں خدمات کی فراہمی کی تجارت میں دنیا میں دھوم مچا دی ہے۔ پوری دنیا کا 50 فیصد سے زیادہ آؤٹ سورس بزنس انڈیا کے قبضے میں ہے۔سوفٹ ویئر انڈسٹری اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں انڈیا سے کم قیمت پر اشیاء اور خدمات کوئی دوسرا ملک فراہم نہیں کرپاتا۔ اب انڈیا ویئر ہاؤسنگ، ٹرانسپورٹ اور لاجسٹک کے شعبے میں بھی اپنے پر پھیلا لا رہا ہے۔
ایران کی بندرگاہ چاہ بہار پر 20 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کر نے کے بعد اب انڈیا نے چاہ بہار بندرگاہ کا آپریشنل کنٹرول بھی اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے ۔ اور ایران اور افغانستان کے راستے وسط ایشیائی ریاستوں تک اپنی تجارت کو پھیلا رہا ہے۔ انڈیا نے روایتی شعبہ جات سے ہٹ کر نئی مصنوعات اور خدمات کی برآمدات پر اپنا فوکس کردیا ہے۔
انڈیا نے پچھلے سال صرف بایو ٹیکنالوجی کے شعبے میں اشیاء و خدمات کی فراہمی سے 12 بلین ڈالر کمائے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سوفٹ ویئر انجینئرنگ، ایروسپیس، خلائی ٹیکنالوجی، سیٹیلائیٹ اور ٹیلی کمیونیکیشن ، آرکیٹیکچر اور بلڈنگ ڈیزائن کے شعبے میں اشیاء و خدمات اور ، ہیومن ریسورس (تربیت یافتہ افرادی قوّت یعنی، ڈاکٹرز، فارماسسٹ، آئی ٹی انجینئرز، سائنسدان، اور فنّی ماہرین ) کی ایکسپورٹ نے انڈیا کی برآمدات کو 30 فیصد ااضافے کا جمپ دیا ہے۔
برآمدی تجارت کے لحاظ سے پاکستان کی صورتحال بہت مایوس کن ہے، پاکستان کی برآمداتی اشیا کا کینوس نہایت محدود اور ویلیو ایڈیشن بہت کم ہے ۔ پاکستان کی کل برآمدات کا تین چوتھائی فقط سوتی دھاگے، ٹیکسٹائلز، چاول اور لیدر اور لیدر گڈز، سپورٹس اینڈ سرجیکل گڈز کی مصنوعات پر مشتمل ہے، خام مال کی صورت میں کچھ معدنیات بھی برآمد کی جارہی ہیں۔
جبکہ اسکے برعکس دنیا کے تجارتی جغرافیہ میں لائٹ اینڈ ہیوی انجینئرنگ کی مصنوعات، مشینری، آٹو موبائل، اسٹیل پروڈکٹس، الیکٹریکل گڈز، الیکٹرونکس کا سامان، کیمیکلز، ٹرانسپورٹ، بحری و ہوائی جہاز سازی، ٹیلی کمیونی کیشنز ، آئی ٹی، فارما سیوٹیکلز سمیت ایسے بے شمار پروڈکٹس ہیں جن کا عالمی تجارتی حجم کھربوں ڈالرز میں ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کی برآمدی اشیا کا غالب حصہ خام مال جیسے دھاگہ، چمڑا، چاول یا نیم تیار شدہ مال پر مشتمل ہے ۔
ایسے حالات میں نئے فری ٹریڈ ایگریمنٹس ،پاکستان کی برآمدات کو کوئی قابلِ ذکر فائدہ نہیں پہنچا سکتے ہیں۔ فری ٹریڈ ایگریمنٹس کے لئے دوسرے ملکوں سے مذاکرات کرتے ہوئے ہمارے پاس برآمدی اشیاء کے آپشنز نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مثال کے طور پر چین کے ساتھ آزادانہ تجارت کا پاکستانی کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ کیونکہ سال 2016-17 میں چین کو ہماری برآمدات 1500 ملین ڈالر رہی ہیں جبکہ درآمدات 14103ملین ڈالر ہیں ۔
چین کے ساتھ پاکستان کا تجارتی خسارہ گزشتہ سال بارہ ارب ڈالر سے زائدہوگیا ہے۔ پاکستان کی کل درآمدات کا چھتیس فی صد اب صرف چین ہی سے درآمد ہوتا ہے۔ یوں چین کے ساتھ فری ٹریڈ ایگریمنٹ کے بعد پاکستان کی برآمدات بڑھنے کے تمام دعوے خسارے کی تجارت میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ چین کے ساتھ تجارت میں تجارتی خسارے کے علاوہ ایک اور پریشان کن مسئلہ انڈر انوائسنگ کا بھی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق انڈر انوائسنگ کا حجم پانچ ارب ڈالرز کے لگ بھگ ہے۔ یوں اگر تجارتی خسارے اور انڈر انوائسنگ کے اعداد کو جمع کرلیں تو چین کے ساتھ پاکستان کا تجارتی خسارہ عملاٌ سترہ ارب ڈالرز سے بھی زائد ہے۔ ان حالات میں مناسب یہی ہے کہ نئے فری ٹریڈ ایگریمنٹس کرنے کی بجائے برآمدی اشیاء و خدمات کے نئے آپشنز تلاش کئے جائیں۔
برآمدات بڑھانے کے لئے نئے فری ٹریڈ ایگریمنٹس کرنے اور مہنگے معاوضے پر پروفیشنل تجارتی مذاکرات کاروں کا تقرّر کرنے سے برآمدات میں اضافے کا کوئی امکان نہیں۔ منصوبہ سازوں کی مہارت ، ہنر مندی اور صلاحیت کو برآمدی اشیاء و خدمات کے نئے آپشنز تلاش کرنے، انفرااسٹرکچر کھڑا کرنے ، بیرونی سرمایہ کاری لانے ، اسمال، میڈیم اور ہیوی انڈسٹریز قائم کرنے اور لائٹ اینڈ ہیوی انجینئرنگ کی مصنوعات، مشینری، آٹو موبائل، اسٹیل پروڈکٹس، الیکٹریکل گڈز، الیکٹرونکس کا سامان، کیمیکلز، ٹرانسپورٹ، بحری و ہوائی جہاز سازی، ٹیلی کمیونی کیشنز ، آئی ٹی، فارما سیوٹیکلز سمیت دیگر پروڈکٹس اور بایو ٹیکنالوجی ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سوفٹ ویئر انجینئرنگ، ایروسپیس، خلائی ٹیکنالوجی، سیٹیلائیٹ اور ٹیلی کمیونیکیشن ، آرکیٹیکچر اور بلڈنگ ڈیزائن کے شعبے میں اشیاء و خدمات اور ، ہیومن ریسورس (تربیت یافتہ افرادی قوّت یعنی، ڈاکٹرز، فارماسسٹ، آئی ٹی انجینئرز، سائنسدان، اور فنّی ماہرین ) کی تیّاری اور ایکسپورٹ پر توجّہ دینے کی ضرورت ہے۔
♦
One Comment