آصف جاوید
قدرتی وسائل سے مالا مال اور جفاکش و محنتی قوم ہونے کی باوجود آج پاکستان اُس معاشی خوشحالی سے محروم ہے، جو دنیا میں دوسرے کم وسائل رکھنے والے ملکوں کو حاصل ہے ۔ آج یعنی سنہ 2018 میں ایک ایسا ملک جس کے پاس دریا، جنگلات، معدنیات ، پہاڑ ، میدان، سمندر، زرخیز زمینیں، تیل ، گیس اور کوئلے کے ذخائر، سب کچھ موجود ہے، مگر مجموعی قومی آمدنی صرف 285 بلین ڈالر ، اور فی کس قومی آمدنی صرف 1470 ڈالر ہے، اور اس پر ستم ظریفی یہ کہ قومی دولت کی ناہموار اور غیر مناسب تقسیم کی وجہ سے آدھی آبادی خطِ غربت سے بھی کم پر زندگی گزار رہی ہے۔ جب کہ برآمدات صرف 27 بلین ڈالر اور درآمدات 52 بلین ڈالر ہیں۔ یہ پاکستانی معیشت کے شرمناک حقائق ہیں۔
کسی بھی ملک کی معاشی خوشحالی کا اندازہ ، اس ملک کی قومی آمدنی، اور برآمدات کی مقدار و قدر کے تخمینے سے نکالاجاتاہے۔ آج ستّر 70 سال گزرنے اور ایک ایٹمی طاقت کا اعزاز حاصل کرنے کے باوجود ہماری برآمدات 27 بلین ڈالر سے آگے نہیں بڑھ سکیں۔ جرمنی جو دوسری جنگِ عظیم میں تباہ و برباد ہوگیا تھا ، آج اس کی کی برآمدات 1400 بلین ڈالر سے زیادہ ہیں۔ جاپان جو دوسری جنگ عظیم میں ایٹمی حملے میں تباہ ہوگیا تھا، جنگ نے اس کی معیشت کو تہس نہس کردیا تھا، اور جس کے پاس قدرتی وسائل کی بھی بے پناہ کمی ہے، آج اس کی برآمدات 684 ارب ڈالر سے زیادہ ہیں۔
دنیا میں ایسے بہت سے ملکوں کی مثالیں موجود ہیں، جن کے پاس قدرتی وسائل کی بے پناہ کمی ہے، تجارت اور صنعتوں کے انفرااسٹرکچر کی کمی ہے، مگر پڑوسی ملکوں سے خوشگوار تعلّقات اور پڑوسیوں سے فری ٹریڈ ایگریمنٹ کے ذریعے یہ ممالک اپنی اشیاء و خدمات کو صرف پڑوسیوں کے ہاتھوں بیچ کر اپنی خوشحالی کا سامان کررہے ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک انڈیا کی برآمدات 300 بلین ڈالر، ایران کی برآمدات 92 بلین ڈالر ا، اسرائیل کی 60 بلین ڈالر ور بنگلہ دیش کی برآمدات 35 بلین ڈالر ہیں۔ پاکستان کی برآمدات شرمناک حد تک کم ہیں۔ ۔
پاکستان کی برآمدات کا اگر پچھلے چند سالوں میں جائزہ لیا جائے تو مایوس کن تصویر نظر آتی ہے۔
پچھلے چند سالوں میں ملکی برآمدات میں مسلسل کمی ہورہی تھی اور گروتھ ریٹ منفی ہوگیا تھا ۔ وفاقی سیکرٹری تجارت کے مطابق مالی سال 2013 – 14 میں برآمدات کا گروتھ ریٹ 2.7 فیصد تھا۔جب کہ مالی سال 2014-15 میں برآمدات میں فروغ رک گیا تھا، اور ملکی برآمدات میں تنزلی کا آغاز شروع ہوگیا تھا، سال 2014-15 مالی سال میں برآمدات میں گروتھ مثبت کی بجائے منفی ہوگئی اور برآمدات میں 5.7 فیصد کمی واقع ہوگئی۔ مالی سال 2015-16 میں برآمدات میں اضافہ تو درکنار اس سے پچھلے سال کےمقابلے میں 12.2 فیصد کمی ہوگئی تھی۔ بہرحال جون 2017 سے مثبت گروتھ شروع ہوگئی ہے۔
پاکستان میں مینوفیکچرنگ کا شعبہ کافی عرصے سے زوال پذیر ہے۔ اور ٹریڈنگ کا رجحان بڑھ رہاہے۔ ہم صرف ٹیکسٹائل، چمڑے، سرجیکل اشیاء، اسپورٹس گڈز اور کچھ اور دیگر کچھ چیزوں کی برآمدات پر اکتفا نہیں کرسکتے۔ ہمیں اپنے ملک میں دیگر شعبہ جات میں پیداواری عمل کو بڑھا کر اپنی برآمدات کو فروغ دینےکی ضرورت ہے۔
عالمی بینک کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان برآمدات کے گرنے کے اسباب میں ایک سبب ’اسٹرکچرل ‘ خامیا ں ہیں۔ نا مناسب انفرا اسٹرکچر ، غیر مسابقانہ تجارتی پالیسیوں ، اور ریگولیٹری ڈیوٹیز کے باعث پاکستان کی برآمدات میں کمی ہوئی ہے۔ اسکے علاوہ توانائی کے بحران یعنی صنعتوں کو بجلی و گیس کی غیر مناسب ترسیل سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا ہے، اور امن و امان کے مسائل نے بھی معیشت پر بہت منفی اثر ڈالاہے، جس کی وجہ سے برآمدات کو فروغ نہیں ہوسکا۔
گذشتہ دس سال کے دوران عالمی تجارت میں پاکستان کا حصہ 1.5 فیصد سالانہ کم ہوا ہے۔ جب کہ اس کے برعکس گذشتہ دس سال کے دوران ویت نام کی برآمدات میں 445 فیصد، بنگلا دیش کی 276 فیصد اور بھارت کی برآمدات میں 167 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے ۔
دنیا کے تمام ترقّی پذیر ممالک اپنی برآمدات بڑھانے کے لئے روایتی زرائع پر انحصار کرنے کی بجائے ، اشیاء و خدمات فراہم کرنے کے لئے نئی جہتیں تلاش کررہے ہیں، ہمارے پڑوسی ملک انڈیا نے صرف بایوٹیکنالوجی ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ایروسپیس کے شعبہ جات میں میں اشیاء و خدمات اور سائنس، انجینئرنگ ، اور میڈیسن کے شعبہ میں تربیت یافتہ ماہرافرادی قوّت کی ایکسپورٹ سے اپنی برآمدات کو 30 فیصد سے زائد بڑھادیا ہے۔ جب کہ ہم ابھی خوابِ غفلت میں سوئے ہوئے ہیں۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
2 Comments