خان زمان کاکڑ
کہا جاتا تها کہ فاٹا تک ‘آزادميڈيا ‘کی رسائی نہيں۔ گويا فاٹا تک کا سفر بہت مشکل گزار تها اور وہاں پہ دہشت گردوں کا تسلط تها۔ فروری کے پہلے دو ہفتوں ميں اسلام آباد پريس کلب شايد آزاد ميڈيا کيلئے فاٹا سے کئی گناه مشکل گزار اور کئی زياده پُر خطر ثابت ہورہا تها اس لئے لاتعلق رہنے ميں عافيت سمجهی گئی۔
پريس کلب کے سامنے دس دن تک موجود ہزاروں پشتونوں کی آواز کو کوريج دينے سے ايسٹبلشمنٹ کے دعوؤں اور مشہور سياسی و دفاعی مبصرين کے تبصروں ميں موجود تصورِ پشتون اور بالخصوص تصورِ فاٹا کی مکمل نفی ہونی تهی۔ پشتون سماج کو بلاک اور بليک ميل کرنے کی پاليسی کا ايک پہلو يہ بهی ہے کہ دنيا کو پشتونوں کی سماجی اور اجتماعی فکر و نظر ميں آئی ہوئی تبديليوں سے بے خبر رکها جائے۔
پشتونوں کی سماجی حیثيت اور اجتماعی فکر ميں تبديلیوں کے عمل کو نظرانداز کرنے کی پاليسی کی جڑيں اگرچہ کالونيل دور تک جاتی ہيں ليکن رياستِ پاکستان کو انفارميشن ٹيکنالوجی اور گلوبلائزيشن کے اس دور ميں پشتونوں کے حوالے سے ايک ساکت تصور کو قائم رکهنے ميں تشدد کی ايک ايسی ٹيکنالوجی پہ انحصار کرنا پڑ رہا ہے جس کے نتائج ايک ناقابل ِ انتظام انتشار ميں برآمد ہوسکتے ہيں۔
پاکستان کی رياست ابهی تک ايک ايسے تصورِ پشتون سے چمٹی ہوئی ہے جس کا اطلاق سرکاری سلسلہ مراتب ميں جگہ پانے والے ايک محدود طبقے کے علاوه پشتون قوم کے کسی فرد پہ کہيں نہيں ہوسکتا۔ رياست نے اپنے ساتھ اپنے جيسے پشتون پيدا کرنے کيلئے غيرمتشدد اور متشدد دونوں طريقوں کا منظم استعمال کيا، کچھ پايا بهی، کافی عرصے تک پايا ليکن انسانوں کے سوچنے، منظم ہونے اور اجتماعی ردعمل دکهانے کی خصوصيت کو نظرانداز کرنا غرورِ طاقت ميں پاگل ہونےکے علاوه کچھ نہيں تها۔
ہزاروں پشتونوں کے اس احتجاج کا بنيادی نعره ايک ترانہ “يہ کيسی آزادی ہے؟” ٹھہرا ، کسی صاحبِ اختيار ميں اس سوال کو جواب دينے کی سکت کہاں تهی اس لئے کہ سامنے حاجی مرزا علی خان اور باچاخان کی قوم کے لوگ کهڑے تهے جوکہ آزادی کا مطلب خوب جانتے تهے۔
فاٹا کے اوپر ايک صدی سے مسلط استعماری ضوابط کو بروئے کار لاتے ہوئے دہشت گردی اور انسداد دہشت گردی کے بہانوں سے انتظامی اور عسکری استبداد کی انتہاء کر دی گئی۔ وہاں پر پشتونوں کی اجتماعی ساخت اور پيداواری رشتوں کو مسخ کرنے کيلئے ان کے گهروں سے ليکر بازاروں تک سب کچھ کو مسمار کرديا گيا، زمينوں اور پہاڑوں پر قبضے کيے گئے، نقل مکانی اور بے دخلی کی ٹيکنالوجی کے استعمال کے ذريعے انسانوں کو بے بس بنانے، ان کو بليک ميل کرنے، ان کے عزت نفس کو مجروح کرنے، ان کی معيشت کو تباه کرنے اور ان کو اپنی سرزمين، اپنے سماجی اور پيداوری تعلقات اور اپنے دوسرے ساتهيوں سے بيگانہ بنانے کا ايک ايسا پرتشدد سلسلہ چلا جس کی مثال صرف اور صرف تاريخ ميں قوموں کی بدترين نسل کشيوں ميں ملتی ہے۔
نائن اليون کے بعد فاٹا ميں نہ تو کوئی عليحدگی کی تحريک ابهری تهی اور نہ رياست کے خلاف کوئی بغاوت ہوئی تهی ليکن جمہوری اور آئينی طور پر رياستی نظام ميں رہنے کے خواہشمند ان لوگوں کو تشدد اور دہشت گردی کے ذريعے رياست کا تابع بنانے کا صرف يہ ايک مقصد تها کہ اپنی سرزمين اور اپنے وسائل کی ملکيت اور جمہوری و آئينی حقوق کے مطالبے کے بجائے فاٹا کے لوگوں سے يہ تسليم کرايا جائے کہ تزويراتی گہرائی (سٹریٹجک ڈیپتھ ) کی پاليسی کو جس بهی قیمت پہ کاميابی ملتی ہے اسی قیمت کو ‘حب الوطنی‘ کے فرض کے طور پر انہوں نے ادا کرنا ہے۔
ايک قوم پرست، ايک عوامی زندگی گزارنے والا اور ايک شہری پشتون کی بجائے ايک ‘قبائلی‘ اور ‘جنگجو‘ پشتون کو رومانٹيسائز کرنے کا رياستی رويہ اس مغالطے کو توڑنے کيلئے ايک ثبوت کے طور پر ليا جاسکتا ہے جو فاٹا کے اندر کوئی قبائل بمقابلہ رياست صورتحال کے طور پر رياستی تشدد کو جواز فراہم کرنے کيلئے دنيا ميں پهيلايا گيا ہے۔
حقيقت ميں فاٹا کے مسئلے کا سارا تعلق پشتونوں کے قومی سوال اور پاکستان کی افغان پاليسی سے ہے۔ افغانستان ميں جنگ کو دوام دينے اور پاکستان کے اندر مختلف اور منقسم پشتون اکائيوں کو عليحده عليحده پاليسيوں کے تحت نبٹنے کا واحد مقصد پشتونوں کو ايک قوم کے طور پر ابهرنے سے روکنا ہے اور يہ وہی پاليسی ہے جس کو انگريز استعمار نے ايک جامع شکل ميں پاکستان کے حکمران طبقات کے حوالے کرديا تها۔
قومی زندگی، قومی تصورِ حيات اور قومی معيار ترقی و تشخص کو تباه کرنے کيلئے جو بهی اسلام، کفر، دہشت گردی، لبرلزم، کپٹلزم، طبقاتی سوال، صنفی سوال، کوئی سوشل تهيوری، تهنک ٹينک اور تشدد کا جو بهی ضابطہ ہاتھ لگا اس کو استعمال کيا گيا۔ کونسی جنگ کيوں ہوئی کس مقصد کيلئے ہوئی اور کيا کهويا کيا پايا کے بحث ميں وضاحت کے ساتھ آنے کی بجائے پاکستان کے حکمران طبقات نے فاٹا کے لوگوں کے اوپر ‘غيور‘، ‘بہادر‘، ‘شمشير زن‘، ‘مجاہد‘ وغيره کے القابات نچهاور کرنے کی سخاوت کو لوگوں کے دل جيتنے کيلئے کافی سمجھا۔
حاليہ پشتون لانگ مارچ کا سياق و سباق اور لب و لباب مغالطوں اور حقائق کو ايک دوسرے کے سامنے لانا تها اور تواتر سے پوچها گيا کہ صرف پشتون کيوں غيور؟ کيا کوئی دوسرا اپنی بے غيرتی تسليم کرنے کيلئے تيار ہے؟ قربانی صرف ہم کيوں ديں؟ کيا ہم سے کبهی پوچها گيا ہے کہ ہم قربانی دينا چاہتے بهی ہيں؟ ان قربانيوں کا مقصد کيا ہے؟
کيا فوجی ناکوں کے جال بچهانے، ہمارے گهروں اور بازاروں کو مسمار کرنے، ملک کے دوسرے شہروں ميں بے عزت ہونے، نسل پرستی کے روئيوں کا سامنا کرنے، لاپتہ کرنے اور ماورائے عدالت قتلوں سے گزرنے کو ہماری ‘قربانيوں‘ کا صلہ قرار دیا جائے؟ يہ ازبک، تاجک، عرب، چيچن اور دنيا جہاں کے دہشت گرد کيسے فاٹا ميں داخل ہوئے؟
دنيا کی ساتويں بڑی فوج اور دنيا کی سب سے چالاک ايجنسياں کہاں تهيں؟ فوجی آپريشنز کس کے خلاف ہوئے؟ آئی ڈی پيز کے ساتھ نسل پرست رويہ اختيار کرنے سے کيا پيغام ديا گيا؟ سينکڑوں لوگوں کو کيوں لاپتہ کيا گيا اور ان کو عدالت ميں کيوں پيش نہيں کيا جارہا؟
ان سارے سوالات کا تعلق پاکستان ميں پشتون قومی سوال اور فاٹا کی انتظامی اور دفاعی حیثيت سے ہے۔ پاکستانی رياست کی ستر سال سے يہ پاليسی رہی ہے کہ ايک ‘قبائلی پشتون‘ کو ‘شہری پشتون‘ ميں ٹرانسفارم ہونے سے روکا جائے۔ بالفاظِ ديگر، انگريزوں نے جو ‘پشتون‘ بنايا ہوا تها اسی کا تحفظ کيا جائے يا انگريز وں نے جس قسم کا پشتون بنانے کا کام شروع کيا تها اسی کو پايہ تکميل تک پہنچايا جائے۔
کسی جديد ر ياست کی اس پاليسی کو قرونِ وسطی کے ضوابط کے ساتھ تشبيہ دينے کی بجائے جديديت، استعماريت اور سرمايہ داری کے تضادات ميں ديکهنے اور سمجهنے کی ضرورت ہے کہ انسانوں کی ايک بڑی آبادی پر تسلط پانے کيلئے قبائيليت کے نام سے تخليق شده ايک استعماری ضابطے کو دوام بخشنے کيلئے کس طرح پورے رياستی نظام کو استعماری خطوط پہ استوار کيا گيا۔
اسلام آباد ميں موجود پشتون مظاہرين کا موقف يہ تها کہ صرف نقيب محسود نہيں جسکا کراچی ميں ماورائے عدالت قتل کيا گيا بلکہ پورے فاٹا کے ساتھ جو ماورائے عدالت سلوک رکها گيا ہے اس کو مزيد برداشت کرنا اپنی انسانی حیثيت کو کهودينے کا مترادف ہوگا۔ ہزاروں کے اس اجتماع نے يہ بهی واضح طور پر بتايا کہ فاٹا کا مسئلہ پشتون قوم کی مجموعی حیثيت سے عليحده نہيں۔
پاکستان کے سياسی منظرنامے ميں شايد يہ اپنی نوعيت کا واحد احتجاج تها جس ميں اکثريت نوجوانوں کی تهی ليکن وه اپنے مطالبات کی تشريح حالاتِ حاضره کی بجائے تاريخی تناظر ميں کرتے ہوئے نہ صرف سياسی بالغ نظری کا ثبوت دے رہے تهے بلکہ پشتون نيشنلزم کے ايک نئے مرحلے اور نئے بيانيے کی تشکيل کا عنديہ بهی دے رہے تهے۔
قبائلی علاقوں بالخصوص وزيرستان سے تعلق رکهنے والے شرکاء کے قوم پرست بيانيے نے واضح کرديا کہ فاٹا کو تشدد کے زور سے ايک تزويراتی جگہ کے طور پر رکهنے کی پاليسی کے ردعمل ميں ايک ايسا نئے پشتون نے جنم ليا ہوا ہے جس کو اب ايک مراعات يافتہ ملک يا پوليٹيکل ايجنٹ کے ايف سی ار جرگے کے تابع رکهنا ممکن نہيں۔
اسلام آباد احتجاج کو نقيب محسود کی شہادت تک محدود رکهنے کی کوشش کو ناکام بنانے ميں سب سے بڑا کردار محسود اور وزير نوجوانوں کا رہا اور انہوں نے سارے پشتونوں کو احتجاج ميں شرکت کرنے کا ايک ايسا موقع فراہم کرديا جس ميں خدائی خدمتگار تحريک کے تسلسل يا حياء کی نشانياں بہت واضح نظر آئيں۔
کافی سارے لوگوں کو پہلی دفعہ عدمِ تشدد کا موثرعملی مظاہره ديکهنے کو ملا ۔ نوجوانوں کيلئے اپنی قومی تحريک سےخود کو جوڑنے کا يہ ايک بہترين موقع تها۔ کئی نوجوانوں کو تو ميں نے خود ايک پشتون قوم پرست پارٹی ميں شموليت اختيار کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے پايا۔
يہ واضح کرنا بهی ضروری ہے کہ ان مظاہرين کو نہ تو طبقے کا مخمصہ تها اور نہ مذہب اور فرقے کا۔ ان کو صرف پشتون قوم اور پاکستانی رياست کے تعلق کی وضاحت سے سروکار تها اور اس معاملے ميں وه انتہائی جمہوری روئيے سے ايک سنجيده وضاحت سننے کا ڈيمانڈ کرتے تهے۔ دوسرے الفاظ ميں، پشتونوں کی اس نسل کو بخوبی پتہ ہے کہ ان پہ جو ظلم ہوتا آرہا ہے، قوم کی بنياد پر ہوتا آرہا ہےاور ان کے اوپرمسلط کيے ہوئے اس بڑے الميے کا اثر صرف پشتون وطن کے اندر ہی ميں رہا ہے باہر کے کسی سوشلسٹ، لبرل، انسان دوست وغيره کو کبهی محسوس نہيں ہوا جوکہ حاليہ احتجاج ميں بهی واضح ہوگيا کہ آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے ميں سے ايک درجن لوگ بهی اس پشتون احتجاج کو شرکاء کے طور پر جوائن کرنے نہيں آئے۔
جنگ اور تشدد کے ذريعے انسانی آبادی کو منظم کرنے اور ‘ڈسپلن‘ ميں لانے کی پاليسی ايک ايسے سماج ميں کبهی بهی کامياب نہيں ہوسکتی جس کی تاريخ ضدِ استعماری اورمزاحمتی سياسی روايات سے بهری پڑی ہو۔ ايک عرصے تک انتشار تو پيدا کيا جاسکتا ہے، خوف اور دہشت سے عوام کی آواز کو دبايا جاسکتا ہے ليکن سماج کے گہرے روايات اور لاشعور ميں پڑے اجتماعی اور مزاحمتی سرمايے کا پهيلاؤ ايک تاريخی عمل کے طور پرانسانی حثيت کو تحفظ اور بہتری بخشنے کا کام بالاخر سرانجام ديتا ہے۔
پشتون سماج کو دہشت گردی اور آمرانہ رياستی پاليسيوں سے قابو کرنے کے عمل سے آخری تجزيے ميں اس قوم کے جمہوری سياسی روئيے ميں ايک ريڈيکل عنصر کی نشوونما ہوئی۔ پاکستان کے ارباب اختيار جو ايک عرصے سے پشتونوں کی طرف سے اپنی قوم پرست قيادت کو تنقيد کا نشانہ بنانے سے لطف اندوز ہورہے تهے، ان کو شايد يہ پتہ نہيں تها کہ يہی تنقيد پشتون قومی تحريک کے جمہوری اور ترقی پسند ڈاينامزم کا حصہ ہے اور مستقبل کے لائحہ عمل کی تعين کرنيوالی ہے۔
پاکستانی رياست کے پاليسی ميکرز نے فاٹا کے اندر استعمار اور مستعمره کے تعلق سے وجود ميں آئے ہوئے سماجی آمیزے ميں سرکاری پشت پناہی کے بل بوتے واضح نظر آنے والا رجعتی عنصر کو اپنی کاميابی کا معيار سمجها تها۔ فاٹا ميں تشدد اور رجعت کو ايک روزمره کے طور پر رائج کرنے کی پاليسی کے ردعمل کو سمجهنے کيلئے ايک جمہوری اور سيکولر دانش کی ضرورت تهی جو سيکورٹی لاجک پہ مکمل انحصار کرنے والوں کے پاس کبهی نہيں ہوسکتی۔
دہشت گردی اور سيکورٹی کو ايک دوسرے کيلئے لازم و ملزوم بنانے کی پاليسی ميں انسان نہيں بلکہ تزويراتی فوائد ہی کو اہميت ملنی تهی جسکا ردعمل انسانی رشتوں کا ايک نظرياتی ليول پہ فعال ہونے ميں سامنے آنا تها۔ پشتونوں کا حاليہ تاريخی لانگ مارچ اور دهرنے کو اگر اس تناظر ميں ديکها جائے تو يہ سمجهنا مشکل نہيں کہ پشتونوں کا سب سے موثرِ تصورِ کائنات اور تصورِ حيات قومی بنيادوں پر کهڑا ہے۔
طبقاتی اور قبائلی تفريق و نفاق کو بہانہ بنا کر قوم پرست سياست کے علاوه ديگر مرکزيت پسند تناظر کو نجات دہنده کے طور پر پيش کرنے والوں کے سامنے حاليہ پشتون احتجاج نے يہ تلخ حقيقت رکهی کہ پشتونوں کی قومی جدوجہد کو کوئی موروثيت، قبائليت اور سرمايہ داری ليڈ نہيں کررہی بلکہ عام اور ٹهکرائے ہوئے پشتونوں کی مجموعی حثيت سے ابهرا ہوا سائنسی شعور جغرافيائی اور استعماری حدبنديوں کے اوپر پشتونوں کو ايک قوم کے طور پر منظم کرنے اور فعال بنانے کی صلاحيت رکهتا ہے۔
اسلام آباد ميں پشتونوں کے احتجاج نے يہ بهی ثابت کرديا کہ پشتونوں کی قومی جدوجہد کا ڈهانچہ اتنا وسيع ہے کہ اس ميں ان کی قوم پرست جماعتيں خاص تاريخی مراحل پہ فطری طور پر کاز اور سرگرمی کے لحاظ سے متحمل ہوسکتی ہيں۔ اس تناظر ميں پاکستان ميں صرف يہی قوم پرست پارٹياں عوام کی اصلی اور بے لوث سياست کی تعريف کے اوپر پورا اترتی ہيں۔
حاليہ پشتون احتجاج کا غور سے مشاہده کرنيوالے لوگ جانتے ہيں کہ اس احتجاج ميں نہ صرف پشتونوں کی قوم پرست جماعتوں کی لمبی جدوجہد کا تسلسل بڑا صاف نظر آتا تها بلکہ پچهلے پندره سالوں کے ظلم اور بربريت کے ردعمل کے طور پر اس ميں موجود احتجاجی عنصر خالص عوامی ارمانوں کا ترجمان تها۔ پشتون قوم پرست جماعتوں بالخصوص عوامی نيشنل پارٹی کے تنظيمی اور نظرياتی مرکزے کو دہشت گردی ، ميڈيا ٹرائل اور مینو فیکچرڈ رائے عامہ کے ذريعے زخمی کرنے کی منظم پاليسياں رہيں، ليکن پشتونوں کے اندر قومی سوال کی اہميت کو ختم کرنے اور قومی جدوجہد کا تسلسل توڑنے ميں سرکار کو کوئی کاميابی نہيں ملی۔
حاليہ احتجاج کا تجزيہ کرتے ہوئے اس نکتے کو گہرائی سے سمجهنے کی ضرورت ہے کہ تاريخ کے اس نہج پر فاٹاکے عوام بالخصوص نوجوان ايک مکمل طور پر بند اور غير سياسی ماحول سے کيسے پوری پشتون قوم کی سياسی جدوجہد ميں راہنمايانہ کردار ادا کرنے کيلئےسامنے آئے اور پشتون قوم ميں ان کا اتنا پرتپاک استقبال کيسے ممکن ہوا؟
وه فاٹا جس کو استعماری قوانين کے تحت سياسی عمل سے دور رکها گيا تها اور جس ميں پشتون قومی تحريک کو کوئی سياسی سرگرمی کرنے کی کبهی اجازت نہيں دی گئی تهی اور جس کو باقی پشتون وطن سے عليحده رکھ کر پشتونوں کی قومی يکجہتی اور سياسی وابستگی کی راه ميں ايک رکاوٹ کے طور پر استعمال کيا گيا تها اسی فاٹا ميں سے جب ٹهکرائے ہوئے لوگ نکلے تو اسلام آباد تک پہنچتے ايک منظم پشتون اجتماع کی شکل اختيار کرگئے تهے۔
اس منظم اجتماع ميں سرکار نواز رجعت پسندوں اور ملکوں نے بے شمار کوششيں کیں کہ احتجاج کو صرف نقيب محسود کی شہادت اور راؤ انوار کی گرفتاری تک محدود رکهيں، اس احتجاج کو صرف محسود قبيلے يا زياده سے زياده وزيرستان کے احتجاج کا نام ديں ليکن شرکاء نے ان کی تمام کوششوں کو ناکام بنا ديا، احتجاج پشتون قومی سوال کے سب سے بنيادی نکتے امن پر مرکوز رہا۔
ايک عام پچيس سالہ نوجوان منظور احمد پشتون جس کی سربراہی ميں ۲۵ جنوری کو لانگ مارچ شروع ہوا تها، وه صرف دس دن تک اسلام آباد ميں احتجاج کا متفقہ سربراه نہيں رہا بلکہ دنيا کے کونے کونے ميں پشتونوں کے دلوں ميں ايک ليڈر کے طور پر جگہ بنانے ميں کامياب ہوگيا۔
پشتون قومی تحريک کے اس نئے مرحلے کا آغاز تو ايک تاريخی کاميابی سے ہوا، رياست کو بهی عوام کی قوت، عدمِ تشدد اور احتجاج کی سياست کی قوت کا اندازه ہوگيا اور خود پشتون قوم کا بهی اپنی قوت پر اعتماد بڑھ گيا، اب اس تحريک کو مزيد منظم کرنے کی ضرورت پر سنجيدگی سے سوچنے اور کام کرنے کا وقت ہے۔
Twitter: @khanzamankakar