پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ آبادی کا 70 فیصد زرعی معیشت سے وابستہ ہے،اسی بنیاد پر یہ بات طے ہے کی اس ملک کی معاشی ترقی میں زرعی شعبہ بہت بڑا کردار ادا کرتا ہے۔ملکی صنعت کاری کو فروغ دینے کے لیے خام مال کے فراہمی کاشت کاری کے شعبے سے منسلک ہے۔ زرعی شعبے کے ساتھ تعلق رکھنے والا کسان آج کس صورتحال میں ہے اس کے بارے کون کتنا سوچتا ہے، اس بات اندازہ زرعی مزدور کی حالتِ زار سے لگایاجا سکتا ہے۔
سندھ میں کسان سوال کے پیش و نظر بہت سی تحریکیں سرگرم رہی ہیں۔’’سندھ ہاری کمیٹی‘‘ نے اس میں بڑا کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ہاری کمیٹی کی ایک اپنی تاریخ رہی ہے۔ انہوں نے اپنی جدوجہد کے ذریعے تاریخی کانفرنسیں منعقد کی، جن کو ہاری تحریک کا اہم سنگِ میل سمجھا جاتا ہے۔ کسان تحریک مختلف ادوار میں اتار چڑھا ؤکے شکار رہی ہے۔پچھلے دنوں ایک ایسی ہی “کسان کانفرنس” میں جانے کا موقع میسرہوا۔
سامارو جو کہ ضلع عمر کوٹ کی ایک تحصیل ہے۔ وہاں سے کچھ دن پہلے” سندھ ہاری کمیٹی ” کے مرکزی راہنما جناب ڈامرو مل کی جانب سے مجھے اور میرے ایک دوست احمد سومرو کو ایک کسان کانفرنس کی دعوت وصول ہوئی۔ سماجی رابطے کے تیز ترین دور میں کانفرنس کے میزبان نے ہم سے شامل ہونے کی یقین دہانی بھی کرالی۔ ڈامرو مل صاحب کسانوں میں کام کرنے کا ساتھ ساتھ مقامی طور پر علم، ادب اور سماجی کاموں کے حوالے سے بھی جانے جاتے ہیں۔ ہم نے اس تقریب میں شامل ہونے کی حامی مکمل طور پر بھر لی تھی اس لیے انکار کے تمام امکان ختم ہو چکے تھے۔ ہم کانفرنس سے ایک دن پہلے “سامارو “پہنچے۔ کانفرنس کے کے میزبان جناب ڈامرو مل نے ہمیں خو ش آمدید کہا۔ وہاں مختلف شہروں سے آنے والے مندوبین کے ساتھ مختلف سیاسی اور سماجی راہنماؤں سے ملاقاتیں ہوئی۔
کسان جدوجہد کے حوالے سے اگر روشنی ڈالی جائے تو سب سے پہلے ہمیں “سندھ ہاری کمیٹی ” کی تاریخ پر بات کرنی ہوگی۔ ہاری کمیٹی کی بنیاد 1930 ء میں دادا جیٹھ مل پرسرام ، شیخ عبدالحمید سندھی، جی ایم سید اور جمشید مہتا کے ہاتھوں رکھی گئی۔ لیکن جب حیدر بخش جتوئی سرکاری کلیکٹری کو چھوڑ کر “سندھ ہاری کمیٹی “میں شامل ہوئے، تو کسان تحریک ایک پُرازم جوش و خروش سے آگے بڑھنے لگی۔ اور پھر آج تک ” سندھ ہاری کمیٹی” کوحیدر بخش جتوئی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
” سندھ ہاری کمیٹی ” کا مقصد کسانوں کے حالات کو برٹش حکومت کو ذہن نشین کروانے کے ساتھ ساتھ ،ان کو یہ بھی بتانا تھا کہ سندھ میں کسان کن مشکل حالات میں ہیں ۔ برطانوی سرکار کوکسانوں کی حالات سنوارنے کے لیے متوجہ کرنا تھا۔ تمام ہندوستان میں اس وقت کسانوں کے حقوق کے لیے ملک گیر تحریک شروع تھی۔ برِ صغیر جو کے آزادی کے کے نعروں سے گونج رہا تھا۔ جہاں مختلف سیاسی تنظیمیں جدوجہدِ آزادی میں مصروف تھیں، وہاں ایسے ماحول میں کسان تنظیموں نے بھی جنم لیا۔
” سندھ ہاری کمیٹی ” کو برِ صغیر میں ترقی پسند تحریک کے تسلسل کے طور پر ” آل انڈیا کسان سبھا ” کی روایت سمجھا جاتاہے۔ جو کہ برِصغیر میں کسانوں کی بہت بڑی تنظیم شمار کی جاتی ہے۔ لیکن “کسان سبھا” کی بنیاد “سندھ ہاری کمیٹی” بننے کے 6 سال بعد 1936 ء میں رکھی گئی۔ “سندھ ہاری کمیٹی ” 1930 ء میں بنی۔ اس کا مطلب سوشلسٹ بنیادوں پہ برِ صغیر کی پہلی پہلی خودمختار کسان تنظیم ” سندھ ہاری کمیٹی ” ہے۔ جو 1930ء میں بنائی گئی۔اگر شاہ عنایت شہید کی جھوک کسان تحریک کو شامل کیا جائے تو یہ سندھ میں کسان تحریک کی بہت بڑی تاریخی دلیل ملتی ہے۔
آگے چل کر ترقی پسند نظریات اور عالمی سامراج مخالف تحریک کے اثرات سے سوشلسٹ تحریک نے ’’سندھ ہاری کمیٹی‘‘ کو اپنے پہلو میں مکمل طور پر لے لیا۔’’سندھ ہاری کمیٹی ‘‘ نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ہمراہ ساتھی تنظیم کے طور پر عملی سرگرمیاں کرتی رہی۔یہ بات طے ہے کہ سندھ میں کسانوں کی یہ تنظیم پاکستان بننے کے بعد ٹوٹ پھوٹ کا شکار بھی ہوئی،لیکن جو محرکات طے کیے وہ آج بھی کسان تاریخ کی بہت بڑی گواہی ہیں۔ کچھ علاقوں میں اس تنظیم کے اثرات آج بھی نظر آتے ہیں۔لیکن تقسیم ہند سے پہلے“ہاری کمیٹی” برصغیر کی بہت بڑی کسان تنظیم شمار کی جاتی تھی۔ لیکن ایک بڑی حد تک پاکستان بننے کے بعد بھی کسانوں نے اسی پلیٹ فارم سے اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کی۔ ’’ ہاری کمیٹی‘‘یہاں کی مقامی سیاسی تنظیموں کو آکسیجن دیتی رہی۔
سنہ1930 ء کے ادوار میں اگرچہ ” ہاری کمیٹی ” کو نظریاتی اور فکری آنکھ سے دیکھا جائے ، تو یہ دور سندھ میں بحث 150 مباحث ، میل جول اور انقلابی سیاسی تقاریب کا دور تھا۔ اس وقت جو بھی تحاریک پروان چڑھ رہی تھیں، ان کا زور اس بات پہ تھا کہ تمام سرکاری زمینیں کسانوں میں تقسیم کی جائیں اور کسانوں کے ساتھ منصفانہ رویہ رکھا جائے۔اس وقت سوشلسٹ راہنما ؤں کا نعرہ زمین چھین کر کسانوں میں بانٹنا تھا۔ جو کسی حدتک عملی سطح پر ہوا بھی۔ ہندوستان میں تلنگانہ کے کسان جب ہتھیار اٹھانے پر اتر آتے ہیں۔ تو ریاست بھی ایک دم شش پنج میں مبتلا ہوکرڈر جاتی ہے۔ بہت بڑے بڑے اُدَبا بھی کسانوں کی اس جدوجہد میں شامل ہوجاتے ہیں۔ کسانوں کے ہمراہ لال جھنڈے لیکر میدان جنگ میں کُود پڑتے ہیں۔
عالمی شہرت یافتہ شاعر مخدوم محی الدین بھی اسی کی ایک مثال ہے جو اس تحریک میں کسانوں کے ہمراہ ہتھیار اٹھاکر لڑے تھے۔ 1946 ء کی اس کسان جدوجہد نے ایسی بغاوت کی بنیاد ڈالی کہ جس نے سندھ ہاری کمیٹی پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔پاکستان بننے کے بعدکسانوں نے ” ہاری کمیٹی” کے جھنڈوں تلے سندھ اسیمبلی پہ دھرنا دیا۔ تقسیم ہند کے بعد کسان تحریک کی جدجہد جاری رہی۔ لیکن وہ ہندو راہنما جو کہ کسان تحریک کے سرکردہ لیڈران تھے، یہاں سے ان کے ہجرت کرنے پر کسان تحریک کمزور ہوئی۔لیکن حیدر بخش جتوئی نے اپنی دانش اور عملی جدوجہد سے کسانوں کے سوال کو طبقاتی جدوجہد کے ساتھ جوڑا۔
ان مقاصد میں جاگیرداری کا خاتمہ اور زمین میں سے حاصل ہونے والی پیداوار پر کسان کا مکمل حقِ ارادیت تسلیم کروانے کے لیے عوامی جدجہد کا آغاز تھا۔جس سے سندھ میں کسی حد تک کسانوں کو منظم کیاگیا ۔قوم پرست سیاست جو کہ ہمیشہ ایک مخصوص ااصول کے تحت چلتی رہی ہے۔ قوم پرست سیاست کا نعرہ تھا “جھوٹے کلیم ختم کرو“، جب کے کمیو نسٹ پارٹی اور ” ہاری کمیٹی‘ کا ایک ہی موقف تھا” تمام کلیم ختم کیے جائیں” قوم پرست سیاست راہنما سچے کلیم کا نعرہ لگاکر کچھ جاگیرداروں کی حمایتی تھے۔ جب کہ کمیونسٹ پارٹی اور ” سندھ ہاری کمیٹی” کسی بھی قیمت سچے اور جھوٹے کلیموں کی تقسیم کے بجائے اس نعرے پر ڈٹی ہوئی تھی کہ کسان دشمن تمام کلیم نامنظور۔
’’سندھ ہاری کمیٹی‘‘ میں بہت سی سیاسی قوتیں شامل تھیں ، لیکن جب زمین کی تقسیم کا سوال آیااور زرعی اصلاحات جیسی قرار دادیں کمیٹی کے اجلاسوں میں پیش ہوئیں ، تو جی ایم سید جیسے مدبر اور بانی ہاری کمیٹی نے نا صرف اس قرار داد کی مخالفت کی بلکہ’’ سندھ ہاری کمیٹی ‘‘سے ہی استعفیٰ دیدی۔ اس کے باوجود ” ہاری کمیٹی اپنے اصولی موقف پر قائم رہی۔ جہاں بھی کسانوں کے فلاح و بہبود کے لیے کوئی بھی موقع آیا ، “ہاری کمیٹی ” نے بھرپور جدجہد کی۔ جب ملک میں ون یونٹ لاگو ہوا ، تو ہاری کمیٹی نے اس کے خلاف ایک منظم جدجہد کی۔ حیدر بخش جتوئی’’ ون یونٹ مخالف تحریک‘‘ کے سربراہ بھی رہے۔ آپ کی جدوجہد نے رنگ دکھایا اور ون یونٹ سے یہاں کے باشندوں نے نجات پائی۔
حیدر بخش جتوئی مسلسل جدوجہد میں شامل رہنے کی وجہ سے بیمار پڑ گئے۔ لیکن زندگی کی آخری گھڑیوں تک بھی وہ طلبہ، کسانوں اور محنت کشو ں کے کے وسیع اتحاد کے لیے صحت کی کوئی پرواہ نہ کی اورآپ کوششوں سے ایک مشترکہ اتحاد کی بنیاد پڑی۔ اس تحاد کا ایک یہ فائدہ ہوا کہ مختلف ترقی پسندوں او ر جمہوریت پسندوں نے ملکر عوامی مسائل پر ایک طویل مدت تک اکٹھی جدوجہدکی۔’’ سندھ ہاری کمیٹی‘‘ نے تقاریب خاص طور پہ کسان کانفرنسیں منعقد کی۔ ان کانفرنسوں نے سندھ کی سیاست پر بہت ہی گہرے اثرات مرتب کیے۔
حیدر بخش جتوئی کی وفات کے بعد کسان تحریک اپنا بیلنس برقرا رنہ رکھ سکی۔ 1973 ء سے شروع ہونے والی قوم پرست تحریک میں علیحدگی کے نعرے نے کسان تحریک کو کمزور کیا۔ وہ کسان جس کے بچے ” سندھ ہاری کمیٹی” کے پلیٹ فارم تلے ترقی پسند سیاست کے فرو غ کے لیے لڑتے تھے۔ جاگیردارانہ نظام کو ہلانے کے نعرے بلند کیا کرتے تھے۔ ان کا رخ قوم پرست سیاست کی طرف ہوا، کسان تحریک ٹکڑوں میں تقسیم ہوئی۔ جنرل ضیاء کے آمرانہ دور کے بعد کسان تحریک نے ایسی کمزور بنیادیں پکڑیں کہ وہ پھر آج تک سنبھل ہی نہیں پائیں۔ اور یہ بات بھی طے ہے کہ حیدر بخش جتوئی جتنا بڑا لیڈراس تحریک کو دوبارہ نہیں مل سکا۔
قوم پرست تحریک کا فاشسٹ طریقے سے بڑھنا اور ریاستی سطح پر ترقی پسند فکر اور اس تحریک کی رستہ روک بھی کسان تحریک کے زوال کا سبب بنے۔آج جب تمام سیاسی پارٹیوں نے’’ کسان سوال‘‘ کو بھی نظر انداز کردیاہے۔ جو ان کا مسئلہ بھی نہیں ہے۔ “سامارو کسان کانفرنس” نے اس تمام تاریخ کی یاد کو تازہ کردیا۔ کانفرنس میں لگے ہوئے بینرز جن پر گنے کی کاشت سے لیکر پانی پر قبضے کے مسائل درج تھے۔سامارو تک اس سفرکے دوران آنے والی شگرملوں کے باہر گنے کی کی جو صورتحال تھی اس پر سوائے آنسو بہانے کے ہمارے پاس کچھ نہیں تھا۔ دوسری طرف ” ہاری کمیٹی ” کی ماضی میں کی جانے والی جدوجہد پر ہمارا شاندار ماضی ہمیں سیکھنے پر مجبور کرہا تھا ،کہ کیسے کسان تحریک نے فتوحات حاصل کی۔ جس میں سندھ ٹیننسی ایکٹ منظور کروانا، تمام کلیموں کو روکنا، بیراج کی زمینیں مقامی لوگوں کے حوالے کرنا، آدھی بٹئی ( گندم کی تقسیم ) کا نظام لاگو کروانے کے ساتھ ساتھ کسانوں کو بے دخل کرنے کے خلاف عملی جدوجہد شامل ہے۔
اس “کسان کانفرنس” نے بہت سے سوالات کو جنم بھی دیا۔ آج اکیسویں صدی میں جب عالمی دنیا اتنی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے، ایسے ماحول میں میری سرزمین کا کسان اتنا مجبور اور بے بس کیو ں دکھائی دیتا ہے ؟ تمام پس منظر اور ” سندھ ہاری کمیٹی ” کی جدوجہد کا جائزہ لینے کے بعد یہ ثابت ہو جاتا ہے آج بھی سندھ میں کسان کی حالتِ زار افسوس ناک ہے۔کاشت کاری کی صنعت میں ہونے والی نئی تبدیلیوں سے ہمارا کسان روشناس نہیں ہے۔اس کا ایک سبب یہ ہے کہ ان کے پاس اس حوالے سے جانکاری حاصل کرنے کے لیے وسائل اور رسائی کی سہولت بھی میسر نہیں ہے۔سندھ میں کسان کے دکھوں کا سفر بہت لمبا اور کٹھن ہے۔
اہل سندھ کے کروڑوں کسان زندگی اور موت کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔موجودہ سرمایہ دارانہ اور جاگیردارنہ نظام میں کسانوں کے سماجی اور معاشی حالات بگڑتے جارہے ہیں۔ تاریخ میں جھانکا جائے تو 1کروڑ کسان خاندانوں کے لیے روزگار، تعلیم ، علاج ، صاف پانی، بجلی ، گیس، راستے اور دیگر سہولیات میسر نہیں ہیں۔ 70 فیصد گا ؤں کے حوالے سے کوئی جان کاری نہیں۔ وہاں کسانوں کے حالات کیسے ہیں ؟ زندگی کیسے گزرتی ہے؟ کچھ پتا نہیں۔بے روزگاری اور غربت سے تنگ آکر ہزاروں افراد خودسوزی کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔جدید دور میں بھی جبری مشقت اپنی طاقت سے موجود ہے۔
حیدر بخش جتوئی کی وہ کسان تحریک بھی اپنا جوہر کھو چکی ہے۔ جس وجہ سے جاگیردار کو استحصال کرنے کا موقع ملا ہے۔اس ملک کو بنے 70 سال سے زیاد عرصہ بیت چکاہے ، مگر ابھی تک ایسا مثبت اور ٹھوس عمل نظر نہیں آتا۔ جس سے جاگیرداری کا خاتمہ اورکسانوں کے حالات بہتر ہو سکیں۔ پاکستان کے سیاسی اقتدار اعلیٰ میں اپنی حکومتوں کو عوامی بنانے کے لیے زرعی اصلاحات کے جھوٹے خواب دکھائے گئے۔ جن پارٹیوں نے زرعی اصلاحات کی بات کی وہ خود سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے لیے کام کرنے میں کوشاں ہیں۔ وہ زرعی اصلاحات بھی ایسی ہی کریں گی، جیسے ماضی میں ہوتا آیا ہے۔
سندھ میں کسان کی معاشی صورتحال کیا ہے ؟ زمین کی پوزیشن کیا؟ زرعی اصلاحات کا کیا بنا ؟ ان تمام سوالات کے جوابات یہ کانفرنس ڈھونڈتی رہی۔“سندھ ہاری کمیٹی” نے سامارو کے اس شہر سے لڑنے کی صدا بلند کی ہے، اسی امید کے ساتھ یہ انقلابی سلسلہ جاری رہیگا۔ انقلابی گیتوں میں کسان کی مکمل آزادی تک جدوجہد جاری رکھنے کا ازم اس کانفرنس کا اختتام تھا۔
♦