ظفر آغا
مودی کی کہانی ختم ہے! جی ہاں، یہی ہے راجستھان اور مغربی بنگال کے ضمنی انتخاب کے نتائج کے سیاسی معنی۔ راجستھان میں دو لوک سبھاسیٹ (الور اور اجمیر) اور ایک اسمبلی سیٹ (منڈل گڑھ) اور مغربی بنگال میں ایک لوک سبھا سیٹ (البیریا) اور ایک اسمبلی سیٹ (نواپاڑا) پر بی جے پی کو زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
پچھلے چند ماہ میں یہ بی جے پی کی کوئی پہلی انتخابی شکست نہیں ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جی ایس ٹی ریفارم کے بعد سے ہر سطح پر ہونے والے انتخاب میں بی جے پی کو زیادہ تر شکست کا سامنا رہا ہے۔ اگر بی جے پی کہیں انتخاب جیتی ہے تو وہ جیت بھی شکست ہی گردانی گئی۔ مثلاً گجرات کے اسمبلی انتخاب کی جیت جو فتح کم اور شکست زیادہ کہی گئی۔
الغرض، ہندوستان مودی اور مودی کی سیاست کو بخوبی سمجھ چکا ہے۔ دراصل سن 2014 میں مودی ایک خوابوں کے سوداگر کے روپ میں ابھر کر آئے تھے۔ ملک کو انھوں نے ’اچھے دن‘ کا جو خواب دکھایا تھا اس خواب کے نشے میں ملک کا ایک بڑا طبقہ بہہ نکلا تھا۔ اسمارٹ سٹی، بلیٹ ٹرین، اسٹارٹ اَپ انڈیا، نوکریوں کی بھرمار جیسے دل لبھانے والے جملوں کی بوچھار نے مودی کی حقیقت کو سمجھنے سے اس وقت روک دیا تھا۔ بس ایک لہر بنتی چلی گئی اور مودی کا جادو سنہ 2014 میں کام کر گیا۔
اسی کے ساتھ ساتھ مودی جن کے کاندھوں پر سوار تھا وہ، یعنی سنگھ خاموشی سے ایک اور خواب بیچ رہا تھا۔ وہ خواب تھا ہندو راشٹر کا جو یہ کہہ کر بیچا جا رہا تھا کہ محض مودی ہی ’مسلمانوں کو ٹھیک کر سکتا ہے‘۔ لوگوں کو یہ باور کروایا جارہا تھا کہ ایک بار مسلمان گجرات کی طرح ’ٹھیک‘ ہو گیا تو بس پھر ہندوؤں کے لیے تو من و سلویٰ کی بارش ہوگی
لیکن پچھلے تین برسوں میں عام ہندوستانی کے ہاتھوں آیا کیا! کسانوں نے خودکشی شروع کر دی۔ نوجوان جو روزی روٹی سے لگے تھے ان کی نوکریاں چلی گئیں یا خطرے میں آ گئیں۔ اچھے خاصے چلتے کارخانے اور کاروبار لاکھوں کی تعداد میں ٹھپ ہو گئے۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی مار سے ہندوستانی معیشت کی کمر ٹوٹ گئی۔ ملک کا گروتھ ریٹ بگڑ گیا۔ ’اچھے دن‘کا وعدہ ایک ڈراؤنا خواب ہو گیا۔
ادھر سنگھ کی قیادت میں ملک میں ہندوتوا کے نام پر ہلڑ ہنگامے کی سیاست کا بازار گرم ہو گیا۔ کبھی موب لنچنگ کے نام پر گھر میں گھس کر مسلمان کو مارا جا رہا ہے تو کبھی ’راجپوت سمّان‘ کی آڑ میں فلم ’پدماوت‘ کے خلاف بیہودگی تو کبھی ترنگا یاترا کے نام پر قاس گنج جیسی جگہوں پر نفرت کا بازار گرم کیا جا رہا تھا۔ ارے بس یوں سمجھیے کہ ہندوستان ایک ہندو پاکستان سا لگنے لگا۔ کبھی اسکولی نصاب میں ہندوتوا تو کبھی گوری لنکیش جیسی نڈر صحافی کا قتل۔ ہندوستان گنگا–جمنی تہذیب سے دور ہوتا لگنے لگا۔
لیکن ہندوستان کوئی ہندو پاکستان نہیں ہے۔ بھلے ہی کچھ عرصے کے لیے ہم پاکستان جیسے نظر آنے لگے ہوں لیکن ہندوستان کی گہری جمہوری جڑوں نے ہندوستانی عوام کا سیاسی شعور پھر سے بیدار کر دیا۔ عام ہندوستانی کو مودی کا اصل چہرہ نظر آنے لگا۔ یعنی عوام کو یہ صاف نظر آنے لگا کہ مودی نفرت کی بنیاد پر ’بانٹو اور راج کرو‘ کی سیاست کر رہے ہیں۔ بس جیسے ہی لوگوں کو یہ نظر آنے لگا ویسے ہی بی جے پی زیادہ تر چناؤ ہارنے لگ گئی۔
پچھلے تین مہینوں میں بی جے پی کی طلبا تنظیم طلبا یونین کے انتخابات دہلی سے حیدرآباد تک ایک درجن سے زیادہ یونیورسٹیوں میں ہار گئی۔ اس طرح زیادہ تر میونسپل چناؤ، اسمبلی اور پارلیمنٹ کے ضمنی انتخاب بھی ہار گئی۔ راجستھان اور بنگال کے ضمنی انتخاب کے نتائج بھی اسی زنجیر کی ایک کڑی ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ اب انتخابی فتح بی جے پی کے لئے کار دارد ہے لیکن مودی پھر مودی ہے۔ وہ ان سیاستدانوں میں سے ایک ہے جس کو شکست تسلیم نہیں۔ پھر وہ تاریخ میں اپنے لیے ایک اہم مقام حاصل کرنے کی تمنا رکھتا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ وہ جدید ہندوستان کو ’ہندو راشٹر‘ میں تبدیل کرنے والے شخص کے طور پر یاد کیا جائے۔ اس کے لئے مودی کو لوک سبھا کا ایک اور انتخاب جیتنا ضروری ہے۔ لیکن انتخاب جیتے تو جیتے کیسے!۔
مودی کے پاس انتخاب جیتنے کا صرف ایک ہی حربہ بچا ہے اور وہ ہے ’گجرات ماڈل‘، یعنی نفرت کی سیاست کو اس قدر تیز کیا جائے کہ عام ہندو دماغ سے سوچنے کے بجائے مسلم مخالفت میں جذبات اور لایعنی مسلم خوف کے سبب ایک پلیٹ فارم پر کھڑا ہو اور ہندو ووٹ بینک کے طور پر ووٹ کرے۔ اس طرح مودی ’ہندو ہردے سمراٹ‘ بن جائیں گے اور ہندو نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی مار بھول کر بطور ہندو ووٹ ڈالے گا۔
لیکن اس کے لیے گجرات جیسے فساد یا رام مندر جیسا شوشہ درکار ہوگا۔ اور مودی و سنگھ کو اس میں کوئی عار نہ ہوگی۔مودی کی نفرت اور ’بانٹو اور راج کرو‘ والی حکمت عملی کی صرف ایک ہی کاٹ ہو سکتی ہے اور وہ یہ کہ تمام سیکولر اپوزیشن متحد ہو کر بی جے پی کے خلاف ویسے ہی انتخاب لڑیں جیسے کہ سنہ 2004 میں لڑا تھا۔ ساتھ ہی ایسا ایک متحد مورچہ جلد از جلد ایک مثبت پروگرام کے ساتھ بغیر کسی خوف کے عوام کے بیچ جدوجہد شروع کر دے۔
لب و لباب یہ کہ راجستھان اور بنگال کے انتخابی نتائج یہ صاف بتا رہے ہیں کہ مودی کی قیادت میں بی جے پی کو اگلے لوک سبھا انتخاب میں ہرایا جا سکتا ہے بشرطیکہ سیکولر اپوزیشن متحد ہو اور ایک مثبت ایجنڈا کے ساتھ سیکولر ہندوستان کی دفاع میں جلد از جلد ایک جٹ ہو جائے۔ عوام بی جے پی سے بری طرح بدظن ہو چکی ہے۔ اب یہ اپوزیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کو مودی کے چنگل سے نجات دلوائیں۔
روزنامہ سیاست ، حیدرآباد ، انڈیا
♦