عملیت پسندی(پریگمنٹزم)کامکتبہ فکر واحد فلسفہ ہے جس کی بنیاد امریکہ میں رکھی گئی ہے ۔امریکی قوم کے اجزائے ترکیبی ہی اسی فلسفہ کی اساس قرار دیئے جاسکتے ہیں ۔ مختلف قوموں اور نسلوں کامجموعہ ہونے کے باعث امریکہ مختصر تاریخ میں قدیم باقاعدہ فلسفہ اور اقدار کی گنجائش کم ہی تھی ۔ امریکی داخلی نفاق وشقاق کی حالت کو استحکام اور ملی وحدت میں بدلنے کیلئے فوری اورزُد اثر فلسفہ کی ضرورت تھی لہذا کسی بھی چیلنج سے نمٹنے کیلئے کسی آزمودہ اصول،عمیق تجربے اور وسیع مشاہدہ پر انحصار کرنے کی بجائے زمینی حقائق کے مطابق اور نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے مسائل ومشکلات کے فوری حل تلاش کرنے پر زیادہ توجہ دی گئی ۔
یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے مکینوں کے اجتماعی رویہ اور نقطہ نظر میں عملت پسندی نمایاں ہوتی چلی گئی اور اس عملیت پسندی یا نتائج کو علم وادب تک محدود رکھنے کی بجائے سیاست، معیشت ، تعلیم اور لسانیت سمیت دیگر شعبوں تک وسعت حاصل ہوئی ۔ عمل پسندی پرمبنی اس فلسفہ کے ادب وسیاست کے اُفق پر نمودار ہونے کے بعد اہل علم ودانش میں ایک نئی ڈگر پر چلنے کررُجحان سراٹھانے لگا ۔ آج ’’ ہر نسل اپنا زمانہ خود تعمیر کرنا چاہتا ہے ، اپنا ماحول خود تشکیل کرنا چاہتی ہے ۔ اسی جذبہ میں ترقی کا راز پنہاں اور رُجعت پرست طاقتیں اسی جذبے کو ختم کرنا چاہتی ہیں تاکہ تبدیلی وترقی سے معاشروں کو محروم کردیں ۔‘‘(1)۔
عملیت پسند کو دنیا کے مختلف معاشروں اور خود امریکہ میں مختلف انداز میں بیان کیاجاتا ہے تاہم بریٹانیکا انسائیکلو پیڈیا کے مطابق یہ امریکہ میں رائج ایسا مکتبہ فکر ہے جس میں افادیت، تجربیت اور عمل پسندی کوبنیادی اصولوں کی حیثیت حاصل ہے ۔ یہ نظریہ عقیدہ پرعمل کو مقدم جانتا ہے ۔ پہلے سے طے شُدہ اصولوں کی بجائے نئے تجربے کرنے کو اہمیت دی جاتی ہے ۔یہ خیالات کو ان کے عملی اظہار کے تناظر میں دیکھتے ہیں لہذا خیالات کو عمل کالازمی طور پر ذریعہ بناتے ہوئے یوں بیان کیا گیا ہے :
“Pragmatism, shcool of philosophy, dominant in the United States in the frist quarter of the 20th century based on the principle that usefuleness, workablitiy and practilitity of ideas, policies,and proposals are the criteria of their marit. It stresses the priority of action over doctrine, of experience over fixed principles and holds that ideas barrow their meaning from instruments and plans of action.”(2)
فلسفہ عملیت پسندی کاتاریخی پس منظر تو یونان سے لیکر ، جرمنی ، فرانس اور برطانیہ تک پھیلا ہوا ہے اور اس کے ارتقاء پربھی طویل گفتگو ہوسکتی ہے لیکن بنیادی اور اولین اہمیت اس حقیقت کو دی جانی چاہیے کہ اس فلسفہ نے انسان کو ماضی پرستی ، راویت پرستی اور خیال پرستی سے نجات دلا کر اسے عصر حاضر کی پل پل بدلتی زندگی اورفوری واقعات کے ساتھ جوڑنے اور حقیقت پسند بنانے میں اہم کردار ادا کیا ۔اس سے لمحہ بہ لمحہ زندگی میں جینے کاجذبہ اُجاگر ہوا ۔
اس فلسفہ نے ماضی کے اسیر، وہموں کے شکار ، تاریک الدنیا اور مستقبل کی رنگینی کے زیراثر تمام مکاتب فکر کو مسترد کیا اور اس کے نتیجے میں ماضی سے چمٹے ہوئے عناصر اور مستقبل کی اُمید پر عوام کا استحصال کرنے والوں کو یقیناً نقصان ہوا۔ عملیت پسندی پریقین رکھنے والوں نے اس اصول کوتسلیم کیا کہ کوئی بھی سچائی صرف ایک مخصوص زمان ومکان میں وجود رکھتی ہے ۔ اسی طرح جرمن سائنسدان آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت کو مذکورہ مکتبہ فکر میں خاص اہمیت حاصل ہوئی جس کے تحت کوئی چیز مطلق اور حتمی نہیں ہوتی ۔ وہ کسی بھی سچائی کو انسانی تجربہ کی کسوٹی پرجانچنا ضروری سمجھتا ہے اور تجربہ کی بنیاد پر ہی چیزوں کو رَدّ یاقبول کرتے ہیں ۔
امریکہ میں فلسفہ عملیت پسندی کے فروغ کاکریڈٹ تین نمایاں فلاسفرز کو جاتا ہے جن میں بابائے عملیت پسندی چارلس سینڈرس پیرس(1839-1914) ماہر نفسیات وِلیم جیمز(1842-1910) اورعالمی ماہر تعلیم جان ڈیوی(1859-1952)شامل ہیں ۔ جان ڈیوی کو پریگمنٹزم کی ر وشنی میں تعلیم کانظریہ وضع کرنے کاشرف حاصل ہے ۔ ان کے خیال میں انسانی تجربہ ومشاہدہ ہی علم کی کسوٹی ہے ۔ تعلیمی نظام میں’’ عمل سے د یکھنے ‘‘ کا بنیادی اصول متعارف کرایا ۔ جان ڈیوی کے تعلیمی نظریہ سے ہائیر ایجوکیشن کی سطح پر تخلیقی جذبوں اور پوشیدہ صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرنے کی راہ ہموار ہوئی مگر ہائیر ایجوکیشن کی سطح پر تمام تر کامیابی کے باوجود یہ پرائمری سطح پر زیادہ کارآمد نظرنہیں آتا ہے ۔
عملیت پسندی نئے انداز میں چیزوں کو جانچنے کا طریقہ کا ر ہے یا فلسفہ زندگی؟ موجودہ مسائل کاحل ہے یامستقبل کالائحہ عمل ؟ تنقیدی شعور اور تخلیقی جذبے سے سرشار اہل فکر وقلم کے ذہنوں میں اُٹھنے والے ان جیسے سوالات کاجواب ولیم جیمز نے مندرجہ ذیل الفاظ میں دیا ہے ۔
” Such then would be the scope of pragmatism—- first a method , and second,a genetic theory of what is meant by truth. And these two things must be our future topics.”(3)
فلسفہ عملیت پسندی لسانیات کے شعبے میں بھی مفید ثابت ہوا ۔اس سے الفاظ کے معنیٰ اخذ کرنے میں روایتی ڈکشنریوں کی بجائے عملی تشریح پر زیادہ زور دیا گیا ہے ۔ پوسٹ ماڈرنزم کے علمبرداروں نے عملیت پسند ی کے اس پہلو کوزیادہ بروئے کار لایا ۔ بد قسمتی سے پوسٹ ماڈرنسٹ مفکرین نے اس ایک ہی پہلو کو پوری سچائی قرار دیا۔
امریکہ کے مخصوص ماحول میں پریگمنٹیزم کافلسفہ فروغ پایا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب نے اسے ایک بنیادی رویے کے طور پر پوری دُنیا میں مقبول بنایا ۔ یہاں تک کہ چینی کمیونسٹ رہنما اور دانشور ڈینگ شوپنگ(1904-1997)نے پریگمنٹیزم کو ایک سیاسی شعار کے طو رپر اختیار کیا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے چینی کمیونسٹوں کی ذہنی یکسانیت کو جدید دنیا کے تقاضوں کے مطابق ترقی دینے میں پریگمنٹیزم سے بامعنیٰ استفادہ کیا ۔
تاہم مذکورہ فلسفہ کی محدودیت چینی کمیونزم کے ارتقاء میں بہت دیر تک ساتھ نہ دے سکی ۔ فلسفہ عملیت کی محدودیت اور استحصالی پہلو کو علی عباس جلال پوری نے اپنی کتاب میں برٹرنڈرسل کے اقتباسات کاحوالہ دیتے ہوئے یوں بیان کیا ہے کہ ’’ امریکی نتائجیت (پریگمنٹیزم ) کاآغاز آزادی کے تصور سے ہواتھا لیکن رفتہ رفتہ یہ فلسفہ حصول پر منتج ہوا۔ان کے الفاظ میں نتائجیت گھر میں جمہوریت اور گھر کے باہر سامراج کو قائم کرنا چاہتی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ نطشے نے طاقتور فرد کوسراہا ہے جبکہ جان ڈیوی جماعت کی قوت (امریکہ سرمایہ داروں کی طاقت) کاپرستار ہے ۔‘‘(4)۔
فلسفہ عملیت کے علمبردار معاشی غنڈوں کیلئے وقتی مفادات کے حصول کاوسیلہ ضرور بنے مگر محروم ومحکوم طبقات اور اقوام کی راہ میں بکھر ے ہوئے کانٹوں کاصفایا کرنے کادیرپا حل نہ دے سکے۔ ماضی کے توہمات وخرافات سے چھٹکارا دلانے میں کافی حد تک سرخرو رہے مگر استحصال اور غلامی ختم کرنے میں خود وبال جان بن گئے ۔ معروض کو سمجھنے میں خوب رہنمائی فراہم کی مگر داخلیت اور خارجیت میں ہم آہنگی اور مطابقت پیدا کرنے میں گمراہ ثابت ہوئے ۔ ینگ سکالرز کو تخلیقیت کی صحیح راہ دکھائی مگر ذرائع پیداوار پر نجی ملکیت کوفساد کی جڑ ثابت نہ کرسکے ۔ ذہنی غلامی کوبرقرار رکھنے ، نام نہاد معززین ومعتبرین کیلئے ماتحت پیدا کرنے ، روایت پرستی میں غیر متعلق سوچ کی گنجائش ختم کرنے اور ذہنی یکسانیت پر اصرار کرنے کے حوالے سے کلچر اور مذہب کو خوب جھنجھوڑا مگر پوری انسانیت کیلئے نشاۃثانیہ کی انقلابی راہ دکھانے میں بری طرح ناکام رہے ۔
فلسفہ عملیت پسندی کے اعتبار سے یہ خالص مادیت پرست مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہے ۔ آئیڈیا اور مادے کے رشتہ کے تعین کرنے میں جہاں خیال پرست عناصر ناکام رہے وہی خالص مادیت پرست نصف سچائی تک رسائی رکھتے ہیں ۔مذکورہ فلسفہ کے عمل بردار خیال اور ماد ے کے جدلی تعلق اور جاری جدلیاتی پروسس کوسمجھنے میں ناکام ہے ۔ یہی و جہ ہے کہ وہ انسانی خیال کومادے سے الگ تھلک تصورکرتے ہیں اور خیال کی اہمیت سے انکاری ہے ۔
زندگی کوسمجھنے کیلئے داخلیت اور خارجیت کے درمیان مطابقت اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ صرف مادیت پسندی یامحض تصوریت پرستی سے اصل سچائی تک رسائی ممکن ہی نہیں ہے بلکہ ان دونوں کے مقابلے میں جدلیاتی مادیت پریقین رکھنے والے خیال اور مادی وجود دونوں کواپنی اپنی حقیقت میں تسلیم کرتے ہوئے دونوں کے درمیان جدلیاتی رشتے اور پروسس کو سراہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مارکسی دانشور نہ تو ماضی کو مسترد کرتے ہیں اور نہ ہی مستقبل کو بلکہ وہ حال میں رہتے ہوئے ماضی اور مستقبل دونوں کا سائنسی ادراک حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ سائنسی ادراک ہی اطلاق کے مرحلے سے گزار کر اصل سچائی کی جانب گامزن کرسکتا ہے ۔
حوالہ جات:
۔1۔ ڈاکٹر مبارک علی ، تاریخ اور فلسفہ تاریخ ، ناشر تاریخ پبلیکیشنز لاہور ، چھٹا ایڈیشن 2017ء ،ص:89
2۔Britannica Encyclopedia online https:11www.britannica.com
3۔Pragmatism: A new name for same old ways of thinking by william james ,1907 the floating press,2010,page, 50
۔4۔ علی عباس جلال پوری ، روایت فلسفہ ، ناشر تخلیقات لاہور ، 2013، ص103
7 Comments