آصف جاوید
سمندروں میں موجود قدرتی وسائل اور اس سے وابستہ معیشت کو بلیو اکانومی کا نام دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے گرین اکانومی کی اصطلاح ماحولیاتی خطرات اور آلودگی سے پاک صنعتی اور پیداواری عمل اور توانائی پیدا کرنے سے متعلّق معیشت کے لئے وضع کی گئی تھی۔
گرین اکانومی ماڈل میں پائیدار ترقی کے حصول کے لئے معاشی، ماحولیاتی اور سماجی مفادات کو آپس میں منسلک کر کے دیکھا جاتاہے۔ معاشی ترقی کو ماحول دوستی اور سماجی ترقّی کے باہمی ربط سے حاصل کیا جاتا ہے۔
بلیو اکانومی ایک وسیع، ہمہ جہت اور جدید اصطلاح ہے۔ ۔ چونکہ سمندر کا رنگ عموما” نیلا ہوتا ہے اس مناسبت سے سمندر سے وابستہ معیشت کو بلیو اکانومی کا نام دیا گیا ہے۔ کرّہ ارض کا تین چوتھائی حصّہ سمندر اور ایک چوتھائی زمین ہے۔ قدرتی وسائل زمین و سمندر دونوں جگہ فراوانی سے پائے جاتے ہیں۔ دنیا میں موجود ممالک کی معیشت کا زیادہ دارمدار زمین پر موجود قدرتی وسائل پر ہے، جب کہ یہ وسائل کرّہ ارض کا صرف 25 فیصد ہیں، جبکہ سمندر میں موجود قدرتی وسائل کرّہ ارض کا 75 فیصد ہیں ، جن کو اب تک بہت کم استعمال میں لایا گیا ہے۔ روایتی طور پر سمندر زیادہ تر جہاز رانی یا جزوی طور پر غذائی ضروریات کو پورا کرنے میں ہی استعمال ہوئے ہیں۔
بلیو اکانومی ماڈل ایک جدید معاشی ماڈل ہے۔ بلیو اکانومی ماڈل میں پائیدار معاشی ترقی کے حصول کے لئے کسی ملک کی سمندری حدود میں موجود قدرتی آبی وسائل ، جیسے زیرِ آب معدنیات، آبی حیات، تیل و گیس کے زخائر کی آف شور ڈرلنگ، سی فوڈ ہارویسٹنگ یعنی صنعتِ ماہی گیری اور فشریز پروڈکٹ انڈسٹری، سامانِ تجارت کی نقل و حمل کے لئے شپنگ انڈسٹری ، ساحلی ہواؤں سے وِنڈ ٹربائن انرجی، سمندری دھوپ سے سولر انرجی، ساحلی زمین پر ریزورٹس، ہوٹل اینڈ ٹورزم انڈسٹری، آف شور رینیوایبل انرجی، میرین بائیو ٹیکنالوجی ، اور میرین بایو پراسپیکٹنگ، ایکوا کلچر اور سی بیڈ ایکسٹریکشن ، میٹھے پانی کے لئے ڈی سیلی نیشن وغیرہ شامل ہیں۔
پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے۔ ہر طرح کے موسم، زرخیز زمینیں، سر سبز اور شاداب زرعی رقبے، جنگلات، پہاڑ، دریا، ندّی نالے ، معدنیات، وسیع و عریض ساحل اور گہراسمندر سب کچھ ہمارے ملک میں پایا جاتا ہے۔ اگر کچھ نہیں پایا جاتا تو وہ اہلیت و صلاحیت کے مناسب استعمال کا فقدان ہے۔ ایسا نہیں کہ ہماری قوم میں اہلیت و صلاحیت کی کمی ہے۔
ہمارا سب سے بڑا مسئلہ اہلیت و صلاحیت کے مناسب استعمال سے قدرتی وسائل کو منفعت بخش معیشت میں تبدیل کرنے کے نظام کی غیر موجودگی ہے۔ کسی بھی ملک کی معیشت کا دارومدار اس ملک میں پائے جانے والے قدرتی وسائل اور افرادی قوّت کی صلاحیت پر ہوتا ہے۔
ہمارے پاس نہ تو افرادی قوّت کی کمی ہے ، نہ ہی قدرتی وسائل کی۔ اگر کمی ہے تو صرف اور صرف اس نظام کی کمی ہے جس کی مدد سے ہم اپنی افرادی قوّت کی اہلیت و صلاحیت کو فروغ دے کر اپنے قدرتی وسائل کو منفعت بخش قومی معیشت میں تبدیل کرکے اپنے ملک کی معاشی حالت کو تبدیل کرسکیں۔ پاکستان میں بلیو اکانومی معاشی ماڈل کو اپنانے اور اپنی معیشت کو تیزی سے فروغ دینے کے لئے سمندر میں موجود قدرتی وسائل کو کام میں لانے کی شدید ضرورت ہے۔
پاکستان کا زمینی رقبہ 095 ، 796سکوائر کلو میٹر اور آبادی بیس، 20 کروڑ ہے۔ پاکستان کے جنوب میں بحیرہ عرب کا سمندر واقع ہے جس کا ساحل 1046 کلو میٹر طویل ہے۔
بحیرہ عرب میں پاکستان کا خصوصی معاشی زون تقریبا” دولاکھ چالیس ہزار 240،000 سکوائر کلومیٹر پر محیط ہے۔ جس میں اقوامِ متّحدہ کی جانب سے پچاس ہزار 50،000 کلومیٹر کا مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ اس وسیع و عریض خصوصی معاشی زون کے تین حصّے ہیں۔
پہلا حصّہ سندھ سے متصّل سمندر میں انڈس آف شور کہلاتا ہے ، اس سے متصّل ساحل کی لمبائی 270 کلومیٹر ہے،۔ دوسرا بلوچستان سے متصّل سمندر میں مکران آف شور کہلاتا ہے۔ جس سے متصّل ساحل کی لمبائی 720 کلومیٹر ہے۔ تیسرا حصّہ بحیرہ عرب اور بحیرہ ہند کا درمیانی علاقہ ہے جسے مرے رِج کا نام دیا گیا ہے۔ مرے رج کا خصوصی معاشی زون پاکستان کے لئے باعثِ رحمت ہے، اس میں زیرِ آب معدنیات ، آئل اینڈ گیس کے ذخائر کے علاوہ مچھلیوں، جھینگوں اور دیگر سمندری غذاؤں کی وافر موجودگی پائی جاتی ہے۔ پاکستانی سمندر کا میری ٹائم زون ساحل سے 350 ناٹیکل مائیل دوری تک پھیلا ہوا ہے۔ ساحل کو پانچ زون میں تقسیم کیا گیا ہے۔ گوادر کوسٹ، لسبیلہ کوسٹ ، کراچی کوسٹ، ٹھٹّہ کوسٹ، رن کچھ بدین کوسٹ۔
پاکستان کے سمندری وسائل کی معیشت میں سرِ فہرست انفرااسٹرکچرمیں کراچی اور پورٹ قاسم کی بندرگاہیں، فشریز، آئل ٹرمنل، ایکسپورٹ پروسیسنگ زون، اسٹیل مل، گڈانی شپ بریکنگ انڈسٹری، گوادرپورٹ ، پاک چائنا اکنامک کاریڈور شامل ہے۔ اسکے علاوہ سندھ کے ساحل پر انڈس ڈیلٹا اور کچی خلیجوں اور کھاڑیوں میں تمر کے وسیع و عریض جنگلات جو کہ آبی حیات کی ہیچریز کہلاتے ہیں شامل ہیں۔
عجیب صورتحال ہے کہ سمندر میں موجود قدرتی وسائل کی موجودگی کے باوجود ہمارے ملک کی نصف سے زیادی آبادی زرعی معیشت سے جڑی ہے۔ سمندری وسائل اور اس سے وابستہ معیشت کو اب تک مناسب طور پر استعمال ہی نہیں کیا گیا۔ اور نہ ہی سمندری معیشت سے فائدہ اٹھانے کی کوئی واضح سوچ یا دلچسپی کہیں نظر آتی ہے۔
پاکستان کی سیاسی قیادت سمندری معیشت سے مکمّل لاعلم ہے۔ معاشی پالیسی سازوں نے بھی سمندری معیشت کو خاطر خواہ اہمیت نہیں دی۔ پاکستان میں اب تک سمندر سے متعلق کوئی سروے نہیں کیا گیا جس میں سمندر کے اندر موجود سمندری حیات اور سمندر کی تہہ میں موجود معدنیات اور تیل اور گیس کے ذخائر کے حوالے سے کوئی جائزہ رپورٹ تیّار کی گئی ہے۔
دنیا بھر میں سمندر سے روزی حاصل کرنے والے افراد آسودہ حال ہوتے ہیں ۔ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ کراچی اور پاکستان کی پوری ساحلی پٹی پر آباد ماہی گیروں کی حالت یہ ہے کہ وہ خطِ غربت سے بھی نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ پاکستان میں بلیو اکانومی کو اگر جمپ اسٹارٹ دیدیا جائے تو ملکی جی ڈی پی چند سال میں دو سے تین گنا ہوسکتی ہے۔
♦