آئینہ سیدہ
جب کسی ملک کے ادارے اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کو گڈ مڈ کر دیں تو عام افراد بھی اپنی حدود کو نہیں پہچانتے کبھی نااہلیت تو کبھیکرپشن فرائض کی ادائیگی میں رکاوٹ بنتی رہتی ہے اور یہ نااہلی اور کرپشن جس کو اکثر پاکستان کی “پارلیمنٹ ” سے جوڑا جاتا ہے وہ ہر ادارے کا طرہ امتیازرہی ہے اس لیے یہ غلط فہمی دورکرلینی چاہیےکہ صرف عوام کے منتخب نمایندے ہی ” نااہل ” یا “کرپٹ ” ہیں۔
وہ ستون جن پرایک جمہوری مملکت کی چھتیں ڈالی جاتی ہیں ہمارے ہاں وہ سب کے سب انیس بیس کے فرق پر نااہل اور کرپٹ ہیں مگر ڈھٹائی کی انتہا یہ ہے کہ بہت آسانی سے انتظامیہ ، عدلیہ اور میڈیا اپنی اپنی انگلیاں مقننہ کی طرف اٹھا کر خود بدترین نااہلیت اورکرپشن سے بری الذمہ قرار ہونے کی “کامیاب “کوشش کرتے رہتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ ستر سال بعد بھی ہم سو فیصد خوا ندگی حاصل نہیں کر سکے مگریہ امر بہت افسوسناک ہے کہ جوافراد خواندہ ہی نہیں بلکہ اعلی تعلیم یافتہ سمجھے جاتے ہیں وہ شعور میں ان سے بہت زیا دہ پیدل ہیں جنہوں نے شاید زندگی میں کبھی کتاب کا منہ بھی نہیں دیکھا ہو ایسے “تعلیم یافتہ ” اکثر آپکو مختلف اداروں کی “پاکیزگی ” پر خطبات دیتے ملیں گےمگر گھما پھرا کر پارلیمنٹ کے ارکان کو تمام خرابیوں کا منبع قراردیں گے۔
بھلا کوئی ایسے پڑھے لکھوں سے پوچھے کہ جس دودھ کی دیگچی میں چھپکلی گرجائے اسکےایک کپ دودھ کو زہریلا کہنا اور باقی کو ” آ ب زم زم ” سے ملانا کہاں کی عقلمندی ہے ؟
ریاست کے حال احوال جاننے کا جو قا بل عمل طریقہ ترقی پذیر ممالک میں رائج ہے وہ اخبارات اورالیکٹرانک میڈیا ہے۔ پڑھے لکھے ہوں یا ان پڑھ انکو ٹی وی سے نیوز دیکھنا اخبارات کے مطآ لعہ سے بہت زیادہ آسان لگتا ہے. پاکستان میں اخبارات خرید کر پڑھنے کا رحجان کبھی بھی عام نہیں رہا۔ نیوز میڈیا کےاسکرینوں پرآنے سے پہلے ایک بندہ اخبار پڑھتا تھا اور دس اسکے ارد گرد جمع ہوکر خبریں سنتے. لوگوں کی طبیعتوں میں آجکل جیسی “چغل خوری ” یا شرارت نہیں تھی اسکے باوجود کبھی اخبار سنانے والا تو کبھی سننے والے اپنی مرضی کا تڑکہ ضرور لگا دیتے تھے۔
مگر آج یہ کام ٣٤ چینلز بآسانی کر رہے ہیں وہ ہمیں اس بات کا موقع نہیں دیتے کہ ہم اخبار / میگزین پڑھیں بلکہ خبریں اور جھوٹ ،افواہیں اور حقیقتیں سب کچھ گڈ مڈ کر کے پیش کر دیا جاتا ہے۔
خبر کی حقیقت کہیں بہت پہلے ختم کر دی جاتی ہے پہلے اسکو بلٹین میں ہی اپنے تبصروں اور اخبار کی پالیسی کے بگھار لگا کر سامنے لایا جاتا ہے پھر اپنی مرضی سے اس خبر کے کسی خاص حصے کو مزید رنگ برنگا کرنے کے لیےتین بولنے کے ماہر اور ایک عدد “سینئیر تجزیہ کار ” بیٹھا لیے جاتے ہیں موڈریٹر بھی نام کا ہی ہوتا ہے کیوں کہ اکثر بحث کو گرم ہوتا دیکھ کر پانی ڈالنے کی بجائےتیل کا “چھڑکاؤ” کرتا رہتا ہےتاکہ ریٹنگ کی آگ بھڑکے۔
دنیا خبریں دیتی ہے ہم بیچتے ہیں اسکے باوجود اینکرز،صحافیوں ،تجزیہ کاروں اور دانشوروں کا خیال ہے کہ اس قسم کا جھوٹ اور جگتوں پرپلنے والا لالچی میڈیا معاشرے کو درست سمت اور ملک کو بحرانوں سے بچانے میں کار آمد ثابت ہوگا۔
عدلیہ کی طرف چلیں تو اس ادارے کو بھی اسکے اپنے ہی “مجاہدین ” لے ڈوبے جن کو عوام و خواص سے پردہ کرنا چاہیے تھا وہ اپنے “ٹکرز “اورپرایم ٹائم شوزمیں فوٹیجز دیکھ دیکھ کر جیتے ہیں۔
سا ئل کی قانونی درخواست سے زیادہ انکو میڈیا اور سوشل میڈیا پر چلتے ہلے گلے اور ٹرینڈز کی پرواہ ہوتی ہے یعنی جس کی آواز چیخ و پکار میں دب جائے اسکو انصاف صرف خدا کے پاس سے ہی ملے گا۔
سیاسی مقدمے نپٹانا ،ہائی پروفائل مقدموں میں ڈائیلاگ بازی کرنا ، فیصلوں میں غزل سرائی کرنا “توہین جج ” کو توہین عدالت بنا دینا اور پھراسکو ایک ہتھیار کے طورپراستعمال کرنا وہ بھی اس طرح کہ ایک جیسے توہین کے مقدموں میں کسی کے دل پر گولی چلا دی تو کسی کے صرف گھٹنے کو چھو کریہ گولی گزر گئی ….. اورتو اوربعض کو صرف ہوائی فائرنگ سے ہی ڈرا کرجج صاحب پھولے نہیں سماتے ۔۔۔ اب بھی کسی کو یہ شک ہے کہ عدلیہ پارلیمنٹ کے مقابلے میں زیادہ فعال ہے، اہل ہے، کرپشن سے پاک ہے تو اسکواپنے” بڑے ” ہونے کا انتظار کرنا چاہیے امید ہے تب تک بات سمجھ میں آجائے گی۔
انتظامیہ کا کیا قصہ چھیڑ یں کہ یہ تو زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے ہر محکمہ خاص طور پر ایسے محکمے جنہیں قانون کی عملداری قائم کرنا ہے، جرائم کا قلع قمع کرنا ہے، اپنی نااہلیت اور کرپشن میں سب سے آگے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انکی جڑوں میں ایسےجرائم پیشہ یا لالچی لوگ بیٹھ چکے ہیں جو ایسے فرض شناس اہلکاروں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں جن کے کردار صاف ہوں اور وہ اپنے فرائض منصبی بہترطور پر ادا کر رہے ہوں۔
ریاستی اداروں میں چھپے بیٹھے یہ ” قاتل ” بڑی سازشوں کا حصہ ہوتے ہیں اسی لیے نہ جرائم کا تدارک ہو پارہا ہے نہ مجرموں کی پکڑ یقینی ہے بلکہ ایک مدت سے ہم ایسے “گھس بیٹھیوں ” کو سیاسی مخالفین کو دھمکانے سے لیکر بیگناہ افراد کو جعلی مقابلوں میں قتل کرتے دیکھ رہےہیں۔
افراد کوغائب کیا جاتا ہے، انکوریاست کے ٹارچرسیلوں میں اذیتیں دی جاتی ہیں ، کبھی مارڈالا جاتا ہے تو کبھی رہا کر دیا جائے تو وہ زبان کھولنےکےقا بل نہیں ہوتے اب یہ کرپشن نہیں تو کیا ہے ؟ اس سے بڑی نا اہلیت کیا ہوسکتی ہے کہ کوئی ملزم ہو تو اس کو عدالت میں پیش نہ کیا جائے اورخود عدالت لگا کرسزا دے دی جائے۔ ماورائے عدالت قتل جب کسی ملک میں عام ہوجائیں توایسی ریاست ” ناکام ریاست ” کہلاتی ہے۔
سوحالات یہی بتا رہے ہیں کہ سارے ستون ریت کی بنیاد پر اٹھائے ہم نے کس احتیاط سے تعمیر گھر کیا۔اگراس مملکت کو سنبھالنا ہے تو بہترہے بنیادوں میں لگی دیمک کا علاج کریں اوراگر “سانجھے کی ہنڈیا “ نہیں سنبھالی جارہی تو بھی احسن فیصلے کیے جائیں اور بے بسوں کے حقوق اور بیگناہوں کے خون سے ہولی کھیلنے کی بجائے مکمل صوبائی خودمختاری یا آزاد ریاستوں کی طرف سفر شروع کیا جائےشاید اس طرح ہم بہتر شہری بن سکیں اور ادارے اپنے فرائض اور جوابداری کو اولین اہمیت دیں ۔
♥