آصف جاوید
سوشل میڈیا یعنی ٹوئیٹر اور فیس بک پر آج کل مسلمان خواتین کی جانب سے اللہّ کے گھر یعنی خانہ کعبہ میں دوران حج ، طواف و دیگر مناسک حج کی ادائیگی کے دوران جنسی ہراسگی کے واقعات رپورٹ ہونے کا طوفان آیا ہوا ہے۔ مختلف ممالک مسلمان خواتین اپنے اپنے ٹوئیٹر اکائونٹ پر ہیش ٹیگ
#MosqueMeToos
کے ذریعے دوران حج اور دیگر مذہبی مناسک کی ادائیگی کے دوران اپنے ساتھ پیش آنے والے جنسی ہراسگی کے واقعات شیئر کر رہی ہیں۔
اس کے علاوہ مسلم ممالک میں میڈیا کے ذریعے اس موضوع پر بات چیت کے دروازے بھی کھل گئے ہیں۔ اس سلسلے میں جرات کا اظہار کرتے ہوئے چند روز قبل ہوئے ٹوئیٹر پر پہلی دفعہ مصری نژاد امریکی خاتون جرنلسٹ مونا ایلتھوے نے سنہ 2013 میں حج کے دوران جنسی طور پر ہراساں ہونے کے واقعے کے انکشاف سے کیا تھا۔
اس کے بعد تو ٹوئیٹر پر انکشافات کا ایک سیلاب امڈ آیا، اور پوری دنیا میں مسلمان مردو خواتین نے اس ہیش ٹیگ کا استعمال شروع کردیا، اور 24 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں اسے 2000 مرتبہ ٹوئیٹس میں استعمال کیا گیا۔ مونا کہتی ہیں کہ ایک مسلمان خاتون نے میری پوسٹ پڑھنے کے بعد مجھے ای میل کی اور دوران حج اپنی والدہ کےجنسی طور پر ہراساں ہونے کے واقعے کے متعلق بتایا۔ اس کے بعد ٹوئیٹر پر انکشافات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔
بہت سی خواتین نے ٹوئٹر پر بتایا کہ ایسا لگتا تھا کہ کوئی پیچھے سے کسی سخت چیز کو کولہوں کے درمیان پھنسا کر زور لگا رہا ہے،کوئی ان کے جسم کو ٹٹولنے کی کوشش کررہا ہے، کوئی غیر مناسب انداز میں کولہے سہلانے اور چھونے کی کوشش کررہا ہے، یا پھر بھینچنے یا جسم کو رگڑنے کی کوشش کررہا ہے۔
کچھ روز قبل کراچی سے تعلق رکھنے والی سبیکا خان (فیس بک آئی ڈی)نے اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں اپنے ساتھ حرم میں پیش آنے والے جنسی ہراسانی کے ایک واقعے کے بارے میں لکھا۔ ”کہ ”میں عشاء کی نماز کے بعد کعبہ کے گرد طواف کر رہی تھی۔ یہ میرا تیسرا طواف تھا، میں نے اپنی کمر پر ایک ہاتھ محسوس کیا۔ مجھے لگا کہ غلطی سے لگ گیا ہوگا، میں نے نظر انداز کر دیا۔ میں دوبارہ سے طواف کرنے لگی۔ چھٹے طواف کے دوران میں نے محسوس کیا کہ کوئی جارحانہ انداز میں میرے کولہوں کو چھیڑ رہا ہے۔ میں منجمد ہو گئی، مجھے یقین نہیں تھا کہ یہ ارادتاً کیا گیا ہے۔ میں نے نظر انداز کیا اور آہستہ آہستہ حرکت کرنے لگی۔ جب میں رکنِ یمانی میں پہنچی تو کسی نے میرے کولہوں کو پکڑ کر چٹکی کاٹنے کی کوشش کی، میں نے وہیں رکنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اپنے جسم سے پرے جھٹک دیا، میں نے مڑ کر دیکھنے کی کوشش کی کہ وہ کون انسان تھا مگر نہیں دیکھ سکی، وہاں بہت سے لوگ تھے۔“
ایسا نہیں ہے کہ اس قسم کے انکشافات پہلی بار ہوئے ہیں یا یہ بات ابھی سامنےآئی ہے۔ خواتین کو یہ بات سینہ بہ سینہ پہلے سے معلوم ہے۔ حج کے دوران خواتین اور ان کے محرم مردوں کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں، جنسی ہراسگی ممکن ہے، اور وہ اپنے طور پر حفاظتی اقدامات بھی لیتے ہیں، عموما” محرم مرد دوران طواف اور بھیڑ والی جگہوں پر حفاظت کے نقطہ نظر سے خواتین کے پیچھے پیچھے چلتے ہیں۔ طواف کے دوران زائرین کو خبردار بھی کیا جاتا ہے۔ ایک خاتون نے اپنے ٹوئیٹر ہنڈل پر بتایا کہ میرے والد طواف کے دوران میری والدہ کی حفاظت کے لیے انکے پیچھے چلتے رہے ہیں۔
مگر کچھ لوگ ابھی ایسے بھی ہیں جو ان واقعات کا سراسر انکار کرتے ہیں۔ وہ ان واقعات کو مسلمانوں کو بدنام کرنے کی سازش قرار دیتے ہیں۔ میرا یسے لوگوں سے سوال ہے کہ
مرد کچھ نہ کریں یہ بات باعث حیرت ہے۔ حیوانگی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، انتہا درجے کی بھیڑ ہو، کھوے سے کھوا چھل رہا ہو، مرد کے آگے بغیر کسی فاصلے یا رکاوٹ کے کوئی عورت چل رہی ہو، جسم سے جسم مس ہورہا ہو، تو حیوانگی کا جاگنا، ایک فطری امر ہے۔ جب حیوانگی جاگ جائے کوئی مذہب ، کوئی خدا بیچ میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتا۔ حرمِ پاک وہ مقدّس مقام ہے، جہاں دنیا بھر کے لوگ اپنی فطرت اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں۔ جس پر وہ کاربند رہتے ہیں، چاہے وہ حیوانیت ہو، سفاکیت ہو یا درندگی ہو۔ یہاں پیشہ ور افراد بھیک بھی تو مانگتے ہیں، جیبیں بھی تو کاٹتے ہیں، سامان بھی تو چوری کرتے ہیں، پھر درندہ صفت انسانوں کی موجودگی میں جنسی طور پر ہراساں کیئے جانا کیوں ممکن نہیں؟
ساحر نے اس ہی موقع کے لئے کہا تھا کہ
ابلیس خندہ زن ہے مذاہب کی لاش پر
پیغمبرانِ دہر کی پیغمبری کی خیر
صحنِ جہاں میں رقص کناں ہیں تباہیاں
آقائے ہست و بود کی صنعت گری کی خیر
شعلے لپک رہے ہیں جہنم کی گود سے
باغِ جناں میں جلوۂ حورو پری کی خیر
انساں اُلٹ رہا ہے رخِ زیست کا نقاب
مذہب کے اہتمام فسوں پروری کی خیر
♣
4 Comments