مزاحمت سے انقلاب تک :ادراک سے اطلاق تک کا شعوری سفر کیلئے ترقی پسند کتابوں کی فہرست
پائندخان خروٹی
بد قسمتی سے پاکستان میں ر وایتی سیاسی تنظیموں نے نہ کسی پرولتاریہ سیاسی ماحول کوتشکیل دیا ہے اور نہ ہی ملک کے فیڈریٹنگ یونٹس میں معروضی حقائق کے مطابق مفادخلق کے وسیع تناظر میں نئی نسل کی ضروری تعلیم وتربیت پر مناسب توجہ دی ہے جس کانتیجہ یہ ہے کہ نوجوانان سیاسی کارکن چاہے ان کا تعلق کسی بھی سیاسی تنظیم سے ہو اپنی جماعت کے نقطہ نظر کے مطابق بھی نہ اپنی تاریخ کاشعور ہے، نہ وہ اپنے حال کے سُلگتے مسائل ومشکلات اور ان کے پائیدار حل سے آشنائی رکھتے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس ظلم ،استحصال اور معاشی غلامی سے پاک صحت مند مستقبل کاکوئی منطقی اور متحرک لائحہ عمل موجود ہے ۔
ملک بھر کے روایتی تعلیمی اداروں اور علمی مراکز کو چلانے اور طالب علموں کو رسمی تعلیم دینے کیلئے نصاب تعلیم تیار کیاجاتا ہے تاہم رسمی نصاب تعلیم سے ہٹ کر ذہنی نشو ونما اور وسیع علم ودانش کیلئے مخصوص مضامین اور کتابوں پرمبنی سیاسی اسٹڈی کورس یعنی سیلبستیار کرنے کارُجحان نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اس ضمن میں ہم نے موجود ہ صورتحال کاجائزہ لیا ملک بھر کے مشہور ترین پبلیشرز سنگ میل لاہور، فیکشن ہاؤس ، تخلیقات لاہور اورگوشہ ادب کوئٹہ سمیت پشتو ترقی پسند کتابوں پر مشتمل کتاب(کتابشود) کی فہرستوں کاجائزہ لینے کے ساتھ ساتھ
(Marxism-Leninism-Maoism–Study Course in London) اور(Political-economy- a bignner’s Course)
سے رہنمائی بھی حاصل کی اور اپنے اسٹڈی سرکل کے باشعور اراکین سے مشاورت کے نتیجے میں ترقی پسند ادب ،سیاست اور صحافت کے فروغ کی غرض سے ایک سیلبس مرتب کیا ہے جو پرانے علم کو نئے انداز میں دیکھنے ، تنقیدی ذہن پیدا کرنے اور طبقاتی شعور کو اُجاگر کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ہم نے اس پورے عمل میں مروجہ چار اصولوں کو پیش نظررکھا ہے جن میں مقصد ، مواد طریقہ تدریس اور جانچ شامل ہیں ۔
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ بلومز ٹیکسانومی نے سیلبس مرتب کرنے کے عمل کو کئی حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔ اس کے مطابق پہلا حصہ معروضی سچائیوں کے ادراک سے متعلق ہے ۔دوسرا حصہ نفسیاتی تحریک پیدا کرنے پر زوردیتا ہے ، تیسرا حصہ مؤثر طریقہ تدریس پر توجہ دیتا ہے اس طرح معروضی علم کے ساتھ ساتھ متعلقات پر بھرپور توجہ مرکوز رکھنا اشد ضرور ی ہے ۔
علم اور ہنر کی فراہمی کے ساتھ ساتھ کردار وشخصیت سازی کو کلیدی اہمیت دی جاتی ہے ۔ اس طرح طالب علموں کے اذہان کو جدید تحقیق وتخلیق کی روشنی سے روشن کرنے سے علمی ،عقلی اور سائنسی رویے پیدا کرکے انہیں اس کے قابل بنایا جاتا ہیں تاکہ وہ اپنے تعمیری رویوں سے سماج میں مؤثر اداروں کی تعمیر کرسکیں ۔ اس امید کے ساتھ کہ مجوزہ معیاری ترقی پسند کتابیں اپنے پڑھنے والوں میں صحت مند اور تعمیری رویے پیدا کرینگے جو اپنے معاشرے کی ضرورت کے مطابق اداروں کی تعمیر میں مددگار ہونگے ۔
روایتی طور پر ہمارے ملک میں عام طور پر ایسے نصاب مرتب کیے جاتے ہیں جو سسٹم اینڈ اسٹیٹس کو کوبرقرار رکھنے کیلئے طبقاتی شعور اور تخلیقی جوہر سے عاری صرف موجود سماجی اقتصادی ڈھانچے کو قائم رکھنے اور بالادست طبقے کے تابع افرادی قوت پیدا کرنے کافریضہ انجام دے سکیں ۔ مروجہ نصاب تعلیم نے سوال اٹھانے اورخاص طور سے مختلف شعبوں پرقابض افراد کی بالا دستی کو کسی طرح چیلنج کرنے والے نظریہ ومبارزہ کی پرورش نہیں ہوتی ۔ یہی وجہ ہے کہ جدت کاری ، تخلیقی اظہار اور تنقیدی شعور کی گنجائش پیدا نہیں ہوتی ۔
اکثر فل برائٹ پروفیسرز اور ڈرائنگ روم کے ادباء وشعراء معاملات کاادراک حاصل کرنے کے باوجود اپنے میکانکی رویے اور مصلحت سازی کے باعث معاشرے میں ان اصولوں کاتخلیقی اطلاق کرنے کی صلاحیت سے عاری ہیں ۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی تعلیم وتربیت اس اندازمیں کی جائے کہ اس سے مستفید ہونے والے تخلیقی تشریح کے ساتھ ساتھ تخلیقی انداز میں نئے تجربات بھی کرسکیں ۔
ملک بھر میں پچھلے کئی عشروں سے کوئی ترقی پسند تبدیلی یا جدت نظرنہیں آتی جس کے نتیجے میں ادب وسیاست پر تقلید وتکرار حاوی ہیں ۔پورا ادب وسیاست چند مخصوص گھسی پٹی تقاریر ، فرسودہ مقالات ، بوسیدہ مضامین ، غیر ضروری فوالکلور ، ماضی بعید کاثقافتی ورثہ، پرانے الفاظ کو سمیٹنا ، عملی زندگی سے فرار کیلئے بورژوا فلسفہ اور تصوف کاسہارا لینا ، قبائلی جاگیردارانہ ذہنیت رکھنے والوں کیلئے ماتحت پیدا کرنے ،نئے اُبھرتے ہوئے ترقی پسند ینگ سکالرز پر روایت شکنی کے ٹپے لگانے اور توہمات و خرافات کے فروغ سے آگے کوئی نئی بات نہیں۔
یہ بات یقینی ہے کہ شاعری کے مجموعوں اور اور ادب پاروں سے اگر شعراء اور مصنفوں کے نام ہٹادیاجائے تو مختلف لکھنے والوں کی تخلیق شدہ مواد میں تمیز کرنا مشکل ہوجائیگا۔ ملک وصوبوں میں موجود سیاسی تنظیموں کے نشر واشاعت کے شعبے ،اکیڈیمز اور علمی وتحقیقی مراکزکے اہل فکر وقلم اگر محکوم و محروم طبقات واقوام کوفکری انتشار اوربے یقینی کی موجودہ صورتحال سے نکالنے میں زیر دست طبقہ کو فکری رہنمائی اور لائحہ عمل نہیں دے سکتے ، معاشی غنڈوں کو خلقی رنگ میں بدلنے کاگُر نہیں سکھا سکتے اورغیر منظم پرولتاریہ کوایک انقلابی تنظیم کے پلیٹ فارم پر منظم کرنے کیلئے عملی کردار ادا نہیں کرسکتے تو پھر ان کی موجودگی اور غیر موجودگی دونوں برابر ہیں ۔
ادراک سے اطلاق تک سفر کیلئے مجوزہ سیلبس میں شامل کتابوں میں اپنے ذہن کے مطابق انتخاب کیلئے مارکسی دانشوروں اور خلق خدا سے جُڑی ہوئی خلقی سیاسی قیادت سے مشورہ کیاجانا بہترہے کیونکہ کتابیں مخصوص ذہنی سطح کے مطابق ہی پڑھی جاسکتی ہے ۔
دوسرا یہ کہ مذکورہ کتابوں کی درجہ بندی موضوعات کی بنیاد پر بھی کی جاسکتی ہے ۔پہلے مرحلے میں تعارف ، دوسرے میں تاریخی پس منظر اور تیسرے مرحلے میں نظریہ ومبارزہ کے مقاصد کو مد نظر رکھ کر کے ہی درجہ بندی کرنے میں آسانی رہے گی ۔
تیسرا یہ مارکسزم کے تین ذرائع اور تین اجزاء ترکیبی کی بنیاد پر بھی ترقی پسند کتابوں پرمشتمل فہرست مرتب کی جاسکتی ہے ۔ پہلے مرحلے میں تین ذرائع جرمن فلسفہ ، انگلش پولیٹیکل اکانومی اور فرینچ یوٹوپیائی سوشلزم جبکہ دوسرے مرحلے میں تین اجزائے ترکیبی یعنی مارکسسٹ فلاسفی ، پولیٹیکل اکانومی اور سائنٹفک سوشلزم کو مد نطررکھ کر معیاری اور ترقی پسند کتابوں کاانتخاب آسانی سے کیاجاسکتا ہے لیکن یہ کام اپنے معروضی حالات کابغور جائزہ لیے بغیر اور تخلیقی اطلاق کابھرپور ادراک حاصل کیے بغیر پایہ تکمیل تک پہنچانا مشکل ہے ۔سیاسی تعلیم وتربیت کیلئے ایک ایسے سلیبس کی ضرورت ہے جومروج سلیبسوں کے وجود پر سوال اٹھانے اورزیردست طبقات کو دوبارہ ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنے کی طاقت رکھتا ہو۔
پاکستان میں 18ویں ترمیم کے بعد بھی سیلبس تیار کرنا ایک جانب اگر ہر وفاقی یونٹ کیلئے ایک بہترین موقع ہے تو دوسری جانب علمی وسیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث کاآغاز بھی ہے ۔ ترقی پسند کتابوں پرمبنی سلیبس تیار کرنا نے ابھرتے ہوئے ینگ اسکالرز اورریسرچرز کیلئے فکری رہنمائی کاباعث ہے ۔
سردست ہم نے تعمیر خلق سے زیر دست طبقے کی معاشی غلامی کے خاتمے تک کامجوزہ سیلبس کیلئے پشتو ، اردو اور انگریزی زبانوں میں درجہ ذیل کتابوں کی فہرست مرتب کی ہے ۔ اس امید کے ساتھ کرٹیکل گروپ ڈسکیشن کے ارکان کی یہ چھوٹی مگر بامعنی کاوش ضرور بارآور ثابت ہوگی ۔
♦
4 Comments