طلاق ثلاثہ مسئلہ کے حل کیلئے ایسی حکومت کو قانون سازی کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہے جو برہمن سماج اور اعلی ذات کی زیر اثر ملک کو ہندو راشٹر بنانے کا خواب دیکھ رہی ہے۔حکومت کی جانب سے طلاق ثلاثہ بل کو پاس کروانے کی کوششوں کے خلاف جاری جدوجہد کو ماؤسٹوں نے اپنی مکمل تائید کا اعلان کیا ہے۔
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (ماؤسٹ) نے اپنے پریس نوٹ کے ذریعہ طلاق ثلاثہ کے طریقہ کارکے خلاف جدوجہد کر رہی خواتین کے بھی اظہار ہمدردی کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جدوجہد کو بھی ماؤسٹوں کی تائید حاصل ہے اور مسلم خواتین کے جو طلاق بدعت کے متاثرہ ہیں وہ ان کے درد کو سمجھتے ہیں لیکن حکومت کو اس مسئلہ کے حل کے نام پر مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت کا کوئی حق حاصل نہیں ہے ۔
ماؤسٹ سنٹرل کمیٹی نے طلاق بدعت مسئلہ کو آپسی طور پر حل کرنے کے اقدامات کئے جا نے چاہئے اور اب سنی طبقہ کی جانب سے بھی طلاق ثلاثہ کی مخالفت کی جارہی ہے تو ایسی صورت میں مسلمانوں میں شعور اجاگر کرتے ہوئے مسلمان اپنے طور پر اس مسئلہ کو حل کرسکتے ہیں۔
کامریڈ ابھئے ترجمان کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا ماؤسٹ کی جانب سے جاری کردہ اس پریس نوٹ میں عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ملک میں موجود ہندوتوا حکومت کے اولین ایجنڈہ میں رام مندر کی تعمیر‘ یکساں سول کوڈ کا نفاذ‘ دفعہ370کی تنسیخ ابتداء سے شامل ہے اسی لئے ہندو توا طاقتیں خواتین کے مسائل پر مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوئے ہندستان میں بسنے والے مسلمانو ںکو نشانہ بنا رہے ہیں۔
حکومت کی جانب سے طلاق ثلاثہ پر پابندی عائد کرنے کے لئے کی جانے والی قانون سازی کو سازش پر محمول قرار دیتے ہوئے ماؤسٹوں نے کہا کہ ہندستان میں مسلمان طلاق ثلاثہ پر اپنے مذہبی عقیدہ کے مطابق عمل کرتے ہیں اسی لئے انہیں روکا نہیں جاسکتا بلکہ ان میں شعور بیدار کرنے کیلئے مہم چلائی جا سکتی ہے۔
ماؤسٹوں نے کہا کہ ہندستان میں جس وقت سے ہندوتوا وادی حکومت نے اقتدار حاصل کیا ہے اس وقت سے مسلمانوں پر مظالم میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے ۔ مکتوب میں بتایا گیا ہے کہ 1947سے اب تک مسلمانوں کو ہراساں کیا جا رہاہے اور ہر حکومت کے دور میں مسلم کش فسادات کی تاریخ ملتی ہے لیکن 2014کے بعد سے حالات سنگین نوعیت اختیار کر تے جا رہے ہیں۔ گاؤ کشی‘ گھر واپسی‘ لو جہاد‘ حب الوطنی پر شبہ کرتے ہوئے مسلمانو ںکو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (ماؤسٹ) سنٹرل کمیٹی نے اپنے پریس نوٹ میں الزام عائد کیا کہ سیاسی جماعتوں نے پارلیمنٹ کو اکھاڑہ بنا دیا ہے اور بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سی پی ایم (ماؤسٹ) نے وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم کو 10میںایک طلاق ثلاثہ کا شکار ہونے والی خاتون کی فکر کر رہے ہیں اور 2006کی سچر کمیٹی رپورٹ کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ 25 فیصد سے زائد مسلمان اسکول نہیں جاتے اور نہ ہی انہیں سہولتیں دستیاب ہیں۔
ماؤسٹ سنٹرل کمیٹی کے بیان کے مطابق 6تا14سال کی عمر کے 25فیصد مسلم بچے اسکول کی سہولت سے محروم ہیں اور ملازمتوں میں بھی مسلمانوں کا تناسب انتہائی کم ہے۔ سول سروس میں 3فیصد سے زائد مسلمان نہیں ہیں اور محکمہ پولیس میں 6فیصد سے زیادہ مسلمان نہیں ہیں۔
روزنامہ سیاست، حیدرآباد انڈیا