حال ہی میں ایرانی دارالحکومت میں گنابادی صوفیوں اور حکومتی سکیورٹی اہلکاروں کے مابین جھڑپوں میں پانچ پولیس اہلکاروں کی ہلاکت بعد یہ موضوع عوامی توجہ کا مرکز بن گیا ہے کہ گنابادی صوفی کون ہیں؟
گنابادی صوفی طریقت کا سلسلہ دراصل چودھویں اور پندرہویں صدی کے ایک ایرانی صوفی شاہ نعمت اللہ ولی سے ملتا ہے۔ ان کی پیدائش کے بارے میں بعض تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ شاہ نعمت شامی شہر حلب میں پیدا ہوئے تھے جب کہ کچھ کا ماننا ہے کہ ان کی پیدائش ایران کے صوبے کرمان میں ہوئی تھی۔
شاہ نعمت اللہ ولی اپنی نسبت شیعہ مسلمانوں کے ساتویں امام موسیٰ الکاظم سے بتاتے تھے۔ شاہ نعمت اللہ نے اپنی پوری زندگی اسلامی فلسفے کے مطالعے میں گزاری اور پوری مسلم دنیا کا سفر کرتے ہوئے خود کے لیے ایک پیر کی تلاش میں رہے۔ آخر کار انہوں نے ممتاز صوفی فلسفی اور شاعر ابن العربی کی تصانیف اور ان کی تعلیمات اور فلسفے سے بے حد استفادہ کیا اور انہی کو اپنا پیر ماننے لگے۔
گنابادی درویش 12 اماموں کو ماننے والے اثنا عشری شیعہ مسلمان ہیں۔ یہ روزہ اور نماز جیسے فرائض دین کی ادائیگی بھی دیگر شیعہ مسلمانوں کی طرح ہی کرتے ہیں۔ گنابادی درویشوں کا نظریہ تاہم اسلام کی موجودہ شکل سے مختلف ہے۔ یہ حکومت اور سیاست پر یقین نہیں رکھتے نہ ہی دیگر شعیہ مسلمانوں کی طرح ’ولایت فقیہ‘ کے معتقد ہیں۔
ان کا ماننا ہے کہ اسلام اور درویشی فقہ نہیں بلکہ ’عشق‘ کے مدار کے گرد گھومتا ہے۔ ان کی نگاہ میں ’محبت، رواداری، امن، بھائی چارگی اور انسانوں کے مابین افہام و تفہیم‘ ہی دین و عقیدے کی بنیاد ہے۔ تاہم اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ وہ سیاسی سوچ کے حامل نہیں۔
ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد اور خاص طور سے گزشتہ دہائی کے دوران گنابادی صوفیوں پر حکومت کی کڑی نظر رہی ہے۔ انہیں اکثر و بیشتر گرفتار بھی کیا جاتا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ یہ صوفی حکومت اور انتظامیہ کے خلاف پروپیگینڈا کرتے ہیں اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔
علاوہ ازیں تہران کی اسلامی حکومت ان پر یہ الزام بھی عائد کرتی ہے کہ یہ صوفی ایک ایسے گروہ کا حصہ ہیں جو عوام کو ’حقیقی روشنی‘ سے منحرف کر رہا ہے۔ بہت سے گناباد صوفی متعدد بار پابند سلاسل بھی ہوئے۔ اپنے ساتھ ہونے والے اس سلوک کے خلاف ان درویشوں نے اکثر بھوک ہڑتال بھی کی۔
یہ درویش مجذوبیت کی انتہا عبادت میں نہیں بلکہ ’عاشق و معشوق‘ یا ’پیر و مرشد‘ کے ساتھ یگانگت اور روحانی اختلاط میں پاتے ہیں۔ ان کے یہی نظریات کچھ عام ایرانی شہریوں کو اپنی طرف راغب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ارباب اقتدار اور سیاسی قوت پر سخت گرفت رکھنے والا ایرانی طبقہ ہمیشہ سے صوفی اسلام کے پھیلاؤ سے خائف رہا ہے۔
DW
♦