نئی دہلی۔ 26مارچ : تین طلاق کو غیر قانونی قرار دینے کے بعد بھارتی سپریم کورٹ نے آج کثرت ازدواج ، نکاح حلالہ کے مسئلہ پر مرکزی حکومت اور لاء کمیشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کیا ہے ۔
چیف جسٹس دیپک مشرا پر مشتمل بنچ نے تعدد ازدواج اور حلالہ کے خلاف داخل درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے یہ معاملہ آئینی بنچ کو بھیج دیا ہے جو اس کا فیصلہ کرے گی کہ آیا تعدازدواج اور حلالہ غیر قانونی ہیں اور اس معاملہ میں سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کر کے جواب طلب کیا ہے ۔
قبل ازیں گزشتہ سال پانچ ججوں پر مشتمل بنچ نے 3/2 کی اکثریت سے طلاق ثلاثہ پر فیصلہ دیتے ہوئے طلاق ثلاثہ کو غیردستوری قرار دیا تھا ۔ اُسی دوران بنچ کے سامنے نکاحِ حلالہ اور کثرت ازدواج پر بھی جائزہ لینے کی درخواست کی گئی تھی ۔
تاہم مذکورہ بنچ نے اسے موخر کرتے ہوئے بعد میں اس پر غور کرنے کا تیقن دیا تھا ۔ واضح رہے کہ دہلی بی جے پی لیڈر اشونی کمار اُپادھیائے نے 5 مارچ کو مفادعامہ کی درخواست داخل کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا کہ وہ کثرت ازدواج اور نکاحِ حلالہ پر پابندی عائد کردے جو صنفی مساوات کی بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے ۔
قبل ازیں نفیسہ خان سمیت چار درخواست گزاروں نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کرکے کثرت ازدواج اور حلالہ کو غیر آئینی قرار دیے جانے کا مطالبہ کیا ہے ۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ مسلم پرسنل لاء (شریعت) درخواست ایکٹ، 1937 کی دفعہ 2 کیلئے آئین کے آرٹیکل 14، 15، 21اور 25کے خلاف ورزی کرنے والا قرار دیا جائے ، کیونکہ یہ کثرت ازدواج اور نکاح حلالہ کو تسلیم کرتا ہے ۔
تعزیرات ہندکے 1860کے التزام تمام ہندوستانی شہریوں پر یکساں طور سے نافذ ہوں۔ پٹیشن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’طلاق ثلاثہ تعزیرات ہند کی دفعہ 498A کے تحت ایک ظلم ہے‘۔نکاح حلالہ تعزیرات ہند کی دفعہ 375کے تحت عصمت دری اور تعدد ازدواج تعزیرات ہند کی دفعہ 494کے تحت ایک جرم ہے ۔
مسلمانوں میں نکاح حلالہ، تعدد ازدواج کے علاوہ اب نکاح متعہ اور نکاح مسیار (مخصوص مدت کے لئے شادی کا معاہدہ) کو بھی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے ، جس پر کورٹ پیر کو سماعت کرے گی۔
حیدرآباد کے رہنے والے معلم محسن بن حسین نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کر کے مسلمانوں میں رائج نکاح متعہ اورنکاح مسیارکو غیر قانونی قرار دینے اورانہیں ردکرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ اس کے علاوہ درخواست میں نکاح حلالہ اور تعدد ازدواج کو بھی چیلنج کیا گیا ہے ۔
روزنامہ سیاست،حیدرآباد، انڈیا
One Comment