ڈاکٹر طاہر قاضی
سنہ 2018 کے پہلے دن نئے سال کے خوش آئند ہونے کی دعائیں ابھی تک تو نقش بر آب ثابت ہوئی ہیں۔ نئے سال کے چڑھتے دنوں میں ہی اوپر تلے ہمارے پانچ صاحبانِ حکمت کوچ کر گئے ہیں۔ رسا چغتائی، ساقی فاروقی، منو بھائی، ڈاکٹر ظفر عارف اور اب چند دن پہلے عاصمہ جہانگیر بھی رخصت ہوئیں۔ دعا ہے کہ ان سب کو کروٹ کروٹ آرام نصیب ہو۔
جدائیوں کے اس موسم میں بھی خوشی کی بات یہ ہے سلمان حیدر اور شعیب عادل آج ہمارے ساتھ ہیں۔ یہ دونوں دانشور بمشکل تمام ہمارے پاکستان کی ماورائے قانون طاقتوں کے چنگل سے بچ نکلے ہیں۔ آپ دونوں کی اتنے ڈھیر سارے دوستوں کے درمیان خیریت کے ساتھ موجودگی ہم سب کے لئے اطمینان کا باعث ہے۔
پاکستان میں اگر انسانی حقوق کی پامالی کے صرف چند ایک واقعات ہوں جن کے سدباب کے لئے انتظامیہ اور عدلیہ اپنا کام بطریق احسن کر رہی ہوں تو یہ بات افسوس ناک ضرور ہے مگر صرف ایک خاص حد تک۔ مجھے پاکستان کے ساتھ تعلق خاطر کی وجہ سے اس بات کا افسوس ہے کہ وہاں انسانی حقوق سے متعلقہ بہت سے جرائم میں ریاست باقاعدہ حصے دار ہے۔
ان حالات میں عام انسان کے لئے انصاف کے حصول کی راہ میں حائل مشکلات، عدلیہ کی ساختیاتی کمزوریوں کی وجہ سے بھی ہوں گی مگر اس سے بھی زیادہ افسوس ناک پہلو ہمارے ملک میں بیشتر اوقات عدلیہ کا قانونی دراز دستی کرنا ہے اور آئین کو آمرانہ سیاست کی چوکھٹ پر قربان کرنا تو شرمناک تاریخی حقیقتیں ہیں۔
مہذب ملکوں میں، سیاست میں جمہوری اکثریت کا اصول ایک طے شدہ امر ہے۔ لیکن پچھلی صدی میں یورپ کے اندر ہولوکاسٹ کا تجربہ اور تجزیہ ہمیں بتاتا ہے کہ اکثریت کی حکومت کا اصول اکیلا کافی نہیں ہے کیونکہ بات صرف حکومت بنانے اور کرنے کی نہیں بلکہ معاشرے کے باہمی روابط میں انصاف اور انسانی حقوق کی پاس داری کی ہے جس کے لئے عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ کا ایک نامیاتی وحدت میں پروئے ہوئے ہونا انتہائی ضروری ہے۔ فلسفہ قانون میں اسے ”رول آف لا” کہتے ہیں۔
یہ ساری تمہیدی باتیں کرنے کی ضرورت اس وجہ سے پیش آئی ہے کہ مجھے ملک کی نامور ماہر قانون عاصمہ جہانگیر کے بارے میں بات کرنے کو کہا گیا اور ساتھ ہی، خاص طور پر یہ شرط بھی عاید کر دی گئی کہ انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کا بہتر طریقہ یہ ہو گا کہ ہم سب ان کی زندگی سے کچھ نہ کچھ سبق بھی سیکھیں۔ یہ معاملہ کچھ ٹیڑھی کھیر ہے کیونکہ بحیثیت قوم ہماری اٹھان ہی شخصیت پرستی پر ہوئی ہے۔ ہم کیونکر علمی خصائل کے جھنجٹ میں پڑیں۔ اور اسی وجہ سے ہمارے درمیان علمی مکالمے کی روایت نے شخصیت پرستی کے لٹھ برداروں سے مات کھائی ہے۔
یہ درست ہے کہ عاصمہ جہانگیر کی موت کا دکھ تو سب کا سانجھا ہے۔ مگر ان میں آخر وہ کیا خوبی تھی جو سب کو اشک بار کر گئی ہے۔ جس دن سے وہ رخصت ہوئیں ہیں تمام اخبار اور جرائد ان کی قانونی کاوشوں کے بجا طور پر معترف ہیں۔ اس لئے میں آپ کے سامنے ان کے کسی نئے مقدمے کا حوالہ تو نہیں دوں گا مگر میں یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ معاشرے، معاشرتی سیاست اور قانون کے ساتھ ان کی وفا داری کی بنیاد ”فلسفہ قانون” تھا بلکہ یہ ان کا ایمان تھا۔ اس لئے میں فلسفہ قانون کے حوالے سے تھوڑی سی بات کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
جس آئینی فلسفے کی وہ پیرو کار اور وفا دار تھیں وہ معاشرتی ارتقا کے تاریخی اصولوں میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے ۔ میرے پاس وقت نہایت محدود ہے لٰہذا میں اس وسیع تر فلسفے کے صرف ایک اصول کا ذکر کروں گا۔ اس اصول کو قانون کے استحکام کے تحفظ یا entrenchment کے نام سے جانا جاتا ہے۔
فلسفہ قانون میں اس اصول کے دو مختلف اجزائ ہیں جو ایک دوسرے سے علیحدہ ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے بھی ہیں۔ پہلا جُز لیگیلٹی legality یا قانون پر شدید اصرار ہے اور دوسرا قانون کو نافذ کرنے کے لئے اختیار کا جائز ہونا جسے استحقاق legitimacy کہا جاتا ہے۔ ہم میں سے اگر کوئی شخص یا گروہ حکمرانی کا دعوے دار ہو تو اس کو اپنے اختیار کے واسطے جائز جواز مہیا کرنا ہو گا۔ پرانے زمانوں میں بادشاہ انسان کی انسان پر حکمرانی کے دعوے دار ہوا کرتے تھے۔ مگر انسان کی سرشت کے اندر آزادی کا خمیر ہے۔ اس وجہ سے بادشاہوں کے لئے بھی حکمرانی کا معاملہ اتنا آسان نہیں تھا۔ وہ حکومتی ضرورتوں کے لئے مذہب کو استعمال کر کے اپنے آپ کو ظلِ سبحانی یعنی خدا کا سایہ کہلواتے تھے۔ خدا جو دنیا و مافیہا میں ہر چیز کا منبع اور سرچشمہ سمجھا جاتا رہا ہے۔
میں نے کہا کہ بادشاہوں کے لئے بھی حکمرانی کا معاملہ اتنا آسان نہیں تھا۔ آخر کیوں؟ بات دراصل انسان کی انفرادیت اور اس کے جبلی اظہار پر قدغن کی ہے۔ سوسائٹی یہ قدغن انسان پر حکمران کے ذریعے لاگو کرتی ہے۔ نفسیات کی زبان میں اسے جبلت کا استحصال کہا جا سکتا ہے۔ آسان الفاظ میں بات یہ ہے کہ اگر جبلت کی آزادی کو سلب کر لیا جائے؛ جو معاشرے کو چلانے کے لئے ایک حد تک ضروری بھی ہے تو غیر صحت مند رویے انسان کی انفرادی اور مجموعی زندگی میں در آتے ہیں۔ جبلت کی آزادی اور اس پر قدغن کے درمیان توازن کیسے پیدا کیا جا سکتا ہے اور صحیح توازن کیا ہے؟
یہ ایک مشکل سوال ہے اور یہی وجہ ہے کہ صحت مند معاشرے کے قیام کے لئے معاشرتی علوم میں تحقیق اور معاشرتی تجربات میں حرکیات کی رفتار بہت ہی دھیمی رہی ہے اور شاید مستقبل میں بھی یہی ہو۔ تاہم یہی نقطہ ہمیں انفرادی سے معاشرتی نفسیات کی جانب لے جاتا ہے۔ اگر جبلت کو کسی بڑی معاشرتی قدر کے ساتھ باندھ دیا جائے تو اس سے بیماری اور بغاوت کے امکانات کم ہو سکتے ہیں۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اس صورت حال میں روایت، کلچر اور مذہب انفرادی رویوں کی تنابیں سنبھالنے میں اہم کردار ادا کرتے چلے آئے ہیں اور حکمران ان تمام عوامل کی آبیاری اور مختلف تاویلات سے ان کا استعمال حسب ضرورت کرتے چلے آئے ہیں۔ اس کرہئ ارض پر حکمرانی کی تاریخ بہت حد تک انہی عوامل کی حاشیہ بردار ہے۔ اس کے باوجود انسان کے اندر آزادی اور اظہار کا مادہ اپنی راہیں نکالتا رہا ہے۔ آرٹ کی نئی جہتیں، کلچر کا تغیر، قانون کی نئی تشریحات اور تاریخ کی بساط پہ فلسفیانہ مو شگافیاں انسان کے تخلیقی اظہار پر گواہ ہیں۔
اختصار کے لئے میں حاکمیت کے قانون کے ہزاروں سالوں کے تاریخی ارتقائ سے صرف نظر کرتا ہوا فوری طور پر جمہوری نظام کی طرف آ جاتا ہوں جس کی وضاحت ضروری ہے۔ جمہوری نظام میں اتھارٹی کی بنیاد کوئی مابعدالطبعیاتی قانون نہیں ہے اور نہ ہی کوئی مقدس آسمانی طاقت قانون دان ہے۔ جمہوری نظام میں طاقت کا سر چشمہ عوام الناس ہیں۔ عوام کی راج داری کا پہلا کامیاب تجربہ امریکی انقلاب تھا اور اس کے چند ہی سال کے بعد معاشرے کی تشریح اور حکومت کے لئے عوام اور انسان کی رضا مندی کا اصول انقلاب فرانس کی شکل میں بھی سامنے آیا۔
اس نقطہ نظر سے معاشرے کے اندر انتظام اور انصاف کے تمام طریقہ کار صرف انسان کی سیاسی دانش اور کاوشوں کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے حکومت اور معاشرتی انتظام کے لئے جو بھی شخص سامنے آئے وہ اُنہیں انسانوں کا نمائندہ ہو جن پر کہ اُسے حکومت کرنی ہے۔ وہ جمہور کی آواز ہو۔ دوسرے لفظوں میں حکومت کرنے والے شخص کے حکمران بننے کا طر یقہ یا اس کے استحقاق legitimacy کا قانون پہلے سے طے شدہ ہو نہ کہ وہ طریقہ بندوق کی زد پہ ر کھے ججوں کے ’’نظریہ ضرورت ‘‘ کی قانونی فراست پہ خندہ زن ہو۔
اس لئے جمہوری سیاست میں جہاں عوام کے فرائض ہیں اور حکومت کی ذمہ داریاں ہیں وہیں عدلیہ کے اوپر بھی یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نظریہ ضرورت جیسی چال بازیوں کو دلیل کا رتبہ عطا نہ کریں تا کہ معاشرے کے اندر آ ئین کی پاس داری کی جمہوری روایت جڑ پکڑ سکے اور اس حد تک کہ جمہوری طریقہ کار معاشرے کی جڑوں میں اور فضا میں رچ بس جائے، فلسفہ قانون کی کتابوں میں نہیں بلکہ معاشرے کی رگوں میں، بس یہی وہ مقام ہے جس کا نام قانون کے استحکام کا تحفظ entrenchment ہے، جس پہ پہنچنے کے بعد جمہوری روایت ایک ناقابل تردید فطری معاشرتی قدر بن جاتی ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ جمہوری عمل کے ساتھ وفاداری ہی معاشرے میں انصاف اور قانون کی پاس داری کی ضمانت ہے۔
اس موقع پر مجھے امریکی مذہبی دانشور رائین ہولڈ نائیبر کا قول یاد آتا ہے کہ، ” انسان کی سرشت میں انصاف کی صلاحیت جمہوریت کے امکانات روشن کرتی ہے لیکن انسان کی خو میں ناانصافی کرنے کے امکان کو لگام دینے کے لئے جمہوریت بعینِ ہی ضروری ہے”۔
اب اس تناظر میں آپ عاصمہ جہانگیر کو دیکھیں تو کبھی وہ اپنے سیاسی حمایتوں کے حق دلیلیں دیتی نظر آتی ہیں اور کبھی اپنے سیاسی مخالفین کے لئے قانونی مو شگافیوں میں مصروف ہیں کیونکہ ان کے قانونی فلسفے کی بنیاد میں حق اور انصاف کا انسانی فلسفہ تھا۔ اسی بنائ پر وہ ایک پر عزم سیاسی عمل پرست بھی تھیں۔ کبھی تحریر کی صورت میں، کبھی تقریر کی صورت میں اور کبھی عام آدمی کے ساتھ کھڑے ہو کر مظاہرے کی شکل میں۔ اپنی اسی عمل پرستی میں وہ ظالم کے سامنے سینہ تان کر کھڑی رہیں، ماریں کھائیں اور زخمی بھی ہوئیں۔ مگر حق اور انصاف کے لئے کھڑے ہونے کی پاداش میں سڑکوں پر زخمی ہونا ان کے لئے کبھی کسی کی پریشانی کا باعث نہیں بنا۔
پاکستان کے اندر توہین مذہب کے قوانین، خواتین سے متعلق قوانین اور انسانوں اور بچوں کی نسل در نسل غلامی کی روایت دراصل معاشرے کی پس ماندگی اور سیاست کی بد حالی کی علامتیں ہیں۔ ان دگر گوں حالات میں عاصمہ جہانگیر اپنی بصیرت اور دانش کے بل بوتے پر ہر مشکل مقام پر چٹاں بن کر کھڑی رہیں۔ وہ ہر اس شخص داد رسی کے لئے موجود رہیں جس کا کوئی اور پرسان حال نہیں ہوتا تھا۔ ان کی ذات اور ان کی ہستی ہر پستے ہوئے آدمی کے لئے ایک ماں جیسی تھی۔ ماں نہیں بلکہ ماں سے بھی زیادہ۔
وہ اس معاشرے میں مسیح تھی جو دوسروں کے گناہوں، ظلم اور بے انصافی کی پاداش میں اپنے لئے تکلیف کی راہ اختیار کرتا ہے۔ وہ معاشرہ جہاں غربت، ظلم اور بے انصافی ہر ہر جگہ پر ہو، اس معاشرے میں وہ ظلم کی صلیب پر چڑہے ہر مصلوب کے لئے وصل خداوند کی امنگ تھی۔ خدا رحمت کنند ایں عاشقانِ پاک طینت را۔
♥
زیر نظر مضمون رائٹرز فورم ٹورانٹو کے اجلاس منعقدہ ، 25 فروری2018 کو تقریر کی شکل میں پڑھا گیا تھا