منیر سامی
گزشتہ دنوں پاکستانی اخباروں میں ، بالخصوص انگریزی اخباروں میں ، اور ٹیلی ویژن پر آرا اور تبصروں کے پرگراموں میں ’نظریہ باجوہؔ ‘ کا غلغلہ ہے۔ انگریزی میں، اور بعض اردو لکھنے والے بھی اسے ’باجوہ ڈاکٹرائن‘ یا Bajwa Doctrine لکھ رہے ہیں۔ لطف یہ ہے کہ اردو لکھنے والے اس کے تلفظ کو بگاڑ کر وہ لکھ رہے ہیں جو ہم نے ابھی پہلے لکھا ہے۔ کسی کو یہ توفیق نہیں کہ وہ اس کے انگریزی تلفظ کو اردو میں لکھنے سے پہلے کہیں سے سُن سُنا تو لے۔ اردو میں اس کا انگریزی تلفظ ’ڈاکٹرِن ‘ یا ڈاکٹریِن ہے۔ لیکن ہمیں یہاں اپنی انگریزی دانی کے دعوے کرنے کے بجائے یہ کہنا ہے کہ شاید بگڑی ہوئی بات کو ادا کرتے وقت تلفظ بھی لڑکھڑا جاتا ہے۔ جب کہ بگڑی بات ان کی ہو جو سب کو خوفزدہ کرنے کے فن میں کایاں ہیں۔
پس منظر اس تمہید کا یہ ہے کہ گزشتہ دنوں پاکستان کے’ متوازی وزیرِ اطلاعات ‘ جنرل آصف غفور نے پاکستان کے سپہ سالارِ اعظم جنرل قمر باجوہؔ کے کچھ فرمودات ایک پالیسی بیانیے کے طور پر میڈیا تک پہنچائے، اس کے بعد خبروں کی ترسیل کے مختلف اداروں کے معروف صحافیوں کو ایک خصوصی نشست میں بلایا گیا اورانہیں بھی یہ بیانیہ عطا کیا گیا۔
اس کے بعد جس صحافی نے جو چاہا جس طرح چاہا اصل بیانیے کے بجائے اس کی تفہیم و تفسیر پر نقار خانہ میں ڈھول پیٹنا شروع کر دیئے، اور سیاسی طوطے گُنگ بیٹھے رہ گئے۔ بعض اس میں سے سیاسی اور عمرانی دانشوری کی اعلیٰ مثالیں نکالنے لگے اور معدودے چند ’ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے ‘ کی طرف اشارے کرنے لگا۔ بعضوں نے شاید درست طور پر نظریہ باجوہ میں ’نظریہ ضرورت‘ کا پرتو دیکھا۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان پر اول روز سے نظریہ ضرورت کا جادو سر پر چڑھا ہو ا ہے۔ کبھی کبھی گنڈے تعویز یا پھوک پھانک سے اس کو دور کرنے کی عبث کوشش کی جاتی ہے۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ نظریہ جنرل باجوہ سے زیادہ افواجِ پاکستان کا نظریہ ہے ، یعنی اس ادارے کا نظریہ ہے جو قانوناً اورآئینی طور پر توشہری انتظامیہ کے ماتحت ہے، لیکن اس نے یہ ماتحتی دل و جان سے کبھی قبول نہیں کی۔ وقتاً وقتاً پاکستانی طالع آزما دور کی کوڑیا ں لاتے رہے ہیں۔ اور پاکستانیوں کا تماشا بناتے رہے ہیں۔ ہم سب کی یاد داشتیں چونکہ عموماًکمزور ہوتی ہیں اس لیئے یاد دلایئں کہ پاکستا ن کے ایک فوجی آمر جنرل ایوب خان نے ایک اپنی سوانح عمری کے طور پر اپنی کتاب Friends not Masters میں اپنے لائے ہوئے فوجی انقلاب اور حکومت گیری کے خیالات پیش کیئے تھے۔ اسی طرح ایک اورآمر جنرل مشرف نے بھی ایک کتاب In the Line of Fireپیش کی ۔ اس میں بھی حکومتی پالیسیوں کے نظریے تھے۔
جنرل باجوہؔ کے خیالات بھی ان کے ریٹائر ہونے سے تقریباً بیس ماہ قبل منظر ِ عام پر آئے ہیں۔ اس میں پاکستان کی سیاست، جمہوریت ، اور آیئن وغیرہ پر رائے کا اظہار کیا گیاہے۔یہ بیانیہ ایسے وقت سامنے آیا ہے، جب فوج اور شہری انتظامیہ میں کھلے بندوں تنائو نظر آتا ہے۔ بیانیے میں کہا گیا ہے کہ جمہوریت اہم ہے اور جاری رہنا چاہیئے، وغیرہ وغیرہ۔ اول تو یہ خیال ہی معترضہ ہے کہ کوئی اعلیٰ فوجی افسر جمہوریت کے بقا کی بات کرے۔ یہ بات توآیئن بنانے والے سیاستدانوں کا استحقا ق ہے۔ لیکن جب حکومت اور طاقت، زور اور بندوقوں کے طابع ہو تو آیئن اور سیاست چہ معنی دارد۔
اس سے قبل کہ آپ کو ہماری تحریر میں پہیلیاں نظر آنے لگیں ہم، باجوہ نظریہ کے چنیدہ نکات پیش کرتے ہیں۔ جو کچھ اس طرح ہیں(کیونکہ باقاعدہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔)
١۔ آیئن کی اٹھارویں ترمیم نے صوبوں اور وفاق کے اختیارات کا توازن بگاڑ دیا ہے۔ یوں یہ ترمیم شیخ مجیب کے چھ نکات سے بھی زیادہ نقصان دہ ہے۔
٢۔ جہادیوں کو مرکزی دھارے میں لانا چاہیے
٣۔ پڑوسیوں کے ساتھ دوستی کرنا چاہیئے
٤۔ بین الاقوامی تعلقات میں توزن پیدا کرنا چاہیے۔
٥۔ کسی کو عدلیہ کے فیصلوں کا مذاق اڑانے کی اجازت نہیں ۔
٦۔ حکومت کی معاشی پالیسیاں نامناسب ہیں۔
٧۔ جمہوریت قائم رہنا چاہیئے
٨۔ پانامہ مقدمے میں فوج کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔
٩۔ اسحاق ڈار کا معاشی انتظام ناقص ہے۔ بے نظیر آمدنی سپورٹ پروگرام خسارے کا سودا ہے ۔
اس کے علاوہ بھی اور کئی باتیں ہیں جو جنرل قمر باجوہ نے چنیدہ صحافیوں کی ایک خصوصی نشست میں غیر رسمی طور پر آگے بڑھا دیں۔ اب جتنے منہ اتنے باتیں۔
دیانتدار مبصر ان باتوں پر ڈھکے چھپے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ وہ اس امر پر متفق ہیں کہ جمہوری ممالک میں سپہ سالاروں کا حکومتی انتظام اور پالیسیوں پر اس طرح کا اظہار غیر مناسب ہے۔ بلکہ سپہ سالاروں کو یہ استحقا ق حاصل نہیں۔
بحیثیت شہری جنرل باجوہ اپنی رائے کا حق رکھتے ہیں۔ لیکن ان کا فرض اس طرح کےتبصرے سے گریز ہے۔یہ امر بھی قابل فکر ہے کہ کسی بھی سپہ سالار کا اس طرح کا سیاسی بیان لاکھوں سپاہیوں اور ماتحتوں پر اثر انداز ہوک ان کے ذہنوں میں سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کے خلاف تعصبات پیدا کر سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے ایک اہم اخبار نے اپنے ایک اداریہ میں لکھا ہے کہ جنرل باجوہ کو اپنے اس بیانیہ کو یا تو کھلے بندوں تسلیم کرنا چاہیئے ، یا اس کے بارے میں وضاحت کرنا چاہیے۔بعضوں کا یہ کہنا ہے کہ یہ بیانیہ جنرل باجوہ سے زیادہ آیئن کے ماتحت شہری حکومت کو جوابدہ اس ادارے کا بیانیہ ہے جس کی جنرل باجوہ نمائندگی کر تے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ ادارہ پسِ پردہ حکومتوں میں دخل اندازی کرتا رہا ہے اور وقتاً وقتاً چشم زدن میں حکومتیں الٹتا رہا ہے۔
یہاں یہ کہتے چلیں کہ اورنکات کے علاوہ اس نظریہ کا جو نکتہ غور طلب ہے وہ جنرل باجوہ کا اٹھارویں ترمیم پر اعتراض ہے۔ دراصل یہ ان کا مضمون نہیں ہے۔ اس بارے میں پاکستان کے اہم دانشور اور ماہر معیشت ڈاکٹر حفیظ پاشا نے حال ہی میں تفصیلی طور پر لکھا ہے ’’کہ اٹھارویں ترمیم پاکستان کے وفاق کو مضبوط کرنے کی ضمانت ہے‘‘۔ یہ بیان جنرل باجوہ کے بیانیے کی براہِ راست نفی کرتا ہے۔
ہمیں جنرل باجوہ کے بیانیے میں مضمر وہ اٹھا پٹک دکھائی دیتی ہے جس میں پاکستان کی سینیٹ کے صدر اور حزبِ اختلاف کے سربراہ کا انتخاب، اور رضا ربانی کو ہٹایا جانا شامل ہے۔ رضا ربانی اٹھارویں ترمیم کے بنیادی معماروں میں شامل تھے۔ ہمیں جنرل باجوہ کے نظریہ کو سامنے رکھتے ہوئے آیئن میں مزید ترامیم کے خطرے پر نظر رکھنا چاہیے۔
♦
One Comment