بیبرگ بلوچ
ہر سال 8 مارچ کو دنیا بھر میں بڑے جوش و خروش سے خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے اس دن کو منانے کا مقصد عورتوں کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرنا اور ان کے حقوق کے لئے جدوجہد کرنا ہے۔ عالمی چمپین اور فرسودہ اور قبائلی سوچ رکھنے والے لوگوں کے علاوہ روشن خیال لوگ بڑے جوش جذبے سے اس دن پروگرامز منعقد کرتے ہیں۔
لیکن ان کے دل و دماغ میں عورت کے لئے منافقت کے سوا کچھ نہیں پروگرامز میں انکی باتیں سن کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ پروگرامز سے اٹھ کر اپنے خاندان کے عورتوں کو چار دیواری سے نکال کر آزاد کردیں گے۔ انہی پروگراموں میں بیٹھی ایسی عورتیں بھی شامل ہونگی جو اپنے اوپر ہونے والے مظالم کو بڑے اندوہناک انداز میں بیان کریں گی۔ ان رنگا رنگ تقریبات میں ہمیں اس طرح کی جذباتی باتیں سننے کو بھی ملیں گی۔
۔1: کیا عورتیں مردوں کی طرح انسان نہیں ہیں؟
۔2: کیا ان کے احساس اور مردوں کے احساسات میں فرق ہے؟
۔3: کیا عورتوں کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق نہیں ہے؟
۔4: کیا انہیں یوں ہی قربانی کا بکرا بنایا جائے گا؟
ایسے سوالات کے ذریعے صرف عورت کو ایک دن کے لئے انسان تصور کیا جاتا ہے اور اسکے بعد یہ چمپین لوگ وحشی پن پر اتر آتے ہیں۔ عورتوں کے عنوان پر لمبی چوڑی تقریر کرنے والے حضرات دل و دماغ سے عورتوں کو گھر کی چار دیواری کی زینت ہی سمجھتے ہیں اور ایسی تقریبات سے صرف خود کو دنیا کی نظر میں معتبر ظاہر کرنا ہوتا ہے۔
اگر ہم عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر بلوچ معاشرے کی طرف نظر دوڑائیں کہ بلوچ معاشرے میں عورت کو کیا مقام حاصل ہے۔ بلوچ معاشرے میں عورت مختلف طبقات کا حصہ ہے ایک وہ عورت ہے جو قبائلی رسم و روایات کی وجہ سے گھر کی چار دیواری میں مقید ہے، ایک وہ ہے جو سرکاری اداروں کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں ۔ایک وہ ہے جو عورتوں کی آزادی کے لئے مختلف پروگرامز منعقد کرتے ہیں لیکن انہیں سرکاری دہشت گردی اور بلوچ حقوق کی پامالی پر کچھ بولنے کی جرات نہیں اور ایک وہ ہے جو سرکاری گٹھ جوڑ سے عورتوں پر مظالم ڈھا رہی ہیں۔
ہمارے بلوچ سماج میں ایک طبقہ ان عورتوں کا بھی ہے جو اس قبائلی اور فرسودہ نظام اور سرکاری دہشت گردی کے خلاف اپنے بھائیوں کے ہمراہ برسر پیکار ہے بانک کریمہ ، بانک حوران ، فرزانہ بلوچ ، بانک سلمی بلوچ اور دیگر بلوچ زالبول قابل ذکر ہے ۔
فرزانہ مجید بلوچ وہ زالبول ہے جو پہلی بار اپنے بھائی ذاکر مجید بلوچ کی اغوا نما گرفتاری کے لئے دنیا کے سامنے نمودار ہوئی اور اپنے بھائی کے علاوہ دیگر بلوچ اسیران کی بازیابی کے لئے کوئٹہ سے کراچی اور اسلام آباد تک لانگ مارچ کا حصہ رہی یہ لانگ مارچ اور اس مارچ میں عورتوں کی شرکت پسماندہ ذہنیت کے مالک قبائلی سرداروں کی موت کا پروانہ تھا جو آج بھی عورتوں کو اپنے گھر کی نوکرانی بنانے پر تلی ہوئی ہے اور ان کو انسان بھی نہیں سمجھتے۔
ایک زالبول بلوچ قومی تحریک میں منفرد اعزاز کی مالک بانک کریمہ بلوچ ہے جو طالب علمی کے زمانے سے بلوچ تحریک میں اہم کردار ادا کرکے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزئشن آزاد کی چیرپرسن کے عہدے پر بلامقابلہ منتخب ہوئے ہیں ۔ بی ایس او آزاد بلوچ سماج میں سب سے زیادہ متحرک آرگنائزئشن ہے جس کی قربانیوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ کریمہ بلوچ نے اپنی جدوجہد جن دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ شروع کیا وہ دوست ریاستی بربریت کا شکار ہوئے جن کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئی ہیں ان دوستوں کے جنازوں کو کندھا دیتے دیتے وہ اب کندن بن چکی ہے اور آج بلند ہمت و حوصلے کے ساتھ میدان عمل میں برسر پیکار ہے۔
آج کا دن انہی عورتوں اور ان جیسی ہزاروں عورتوں کےنام ہے جن کے پیارے اغوا ہوئے یا انکی لاشیں نذر بیابان ہوئے لیکن آج بھی وہ عورتیں بلند ہمت کے ساتھ میدان عمل کا حصہ ہیں۔
کریمہ بلوچ کی جدوجہد اور ثابت قدمی کو ذولفقار علی زلفی ان الفاظوں میں بیان کرتے ہیں: جب کریمہ بلوچ بی ایس او کی چیرپرسن کے عہدے پر منتخب ہوئی تو بلوچ تاریخ میں ایک منفرد اعزاز کی مالک ٹھہری کہ بلوچ تاریخ میں پہلی بار ایک عورت جہد مسلسل سے ایک تنظیم کی سربراہ منتخب ہوئی۔ جہاں بانک کریمہ کا چیرپرسن منتخب ہونا بلوچ قوم کے لئے ایک اعزاز کی بات ہے وہی آزادی نسواں کے علمبرداروں کے منی پر طمانچہ ہے جو عورت کی آزادی کو سماج کی آزادی سے الگ تصور کرتے ہیں جو ہمہ وقت عورت کی آزادی کے خلاف سازشوں کا حصہ ہے کریمہ کی سربراہی طاغونی طاقتوں کیخلاف ہم خاک نشینوں کی ایک بڑی کامیابی ہے۔
♦