انور عباس انور
اقوام متحدہ نے اپنے چارٹر میں لکھ دیا کہ خواتین کے کیا حقوق ہیں۔ اس چارٹر کی پیروی کرتے ہوئے دنیا کے تمام ممالک نے اپنے دساتیر میں تحریر کردیا کہ عورتوں کے حقوق کی ریاست ضامن ہے۔ آٹھ مارچ کے دن کو خواتین کے حقوق کے دن ے طور پر منسوب کیا گیا ہے اور ہر سال اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت پوری دنیا حقوق نسواں کا عالمی دن مناتی ہے۔ حکمران لمبے لمبے بیانات جاری کرتے ہیں ، خواتین کو مردوں کے برابر کے حقوق دینے اور انہیں حاصل حقوق کے تحفظ کی یقین دہانیاں کروائی جاتی ہیں۔
اس سب کے باوجود دنیا کے کونے کونے میں خواتین کو جنسی ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خواتین کو تشدد کی اذیت کا عذاب سہتی ہیں۔ غیرت کے نام پر روزانہ ان گنت مائیں بہنیں،بیٹیاں بہوئیں اور بیویوں کو موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے۔ برسراقتدار سیاسی جماعتوں کے ارکان کی شہہ پر خواتین کو برہنہ کرکے گاؤں گھمایاپھرایا جاتا ہے ۔
اقوام متحدہ اور اس کے تمام رکن ممالک کے اس چارٹر پر دستخطوں کے باوجود کئی ممالک میں خواتین کو ووٹ ڈالنے سے محروم رکھا جاتا ہے۔ آج بھی تعلیم کے دروازے صنف نازک پر بندکیے جانے کی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔
اقوام متحدہ کے چارٹر میں حقوق درج کردینے یا ملکی آئین میں حقوق تحریر کردینے سے حقوق فراہم نہیں ہوا کرتے۔ اس کے لیے اقوام متحدہ اور اس کی رکن ممالک کی حکومتوں کو عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ ان حقوق کی خلاف ورزی کے مرتکب عناصر کی پوری قوت سے بیخ کنی کرنے کی ضرورت ہے۔اقوام متحدہ کے چارٹر اور ملکی آئین کو پاؤں تلے روندنے والوں کو نشان عبرت بنانا ہوگا۔ ورنہ حقوق دستیاب ہوتے بھی خواتین کی عزتیں نیلام ہوتی رہیں گی۔ تیزاب گردی کا شکار ہوتی رہیں گی۔ گاؤں کی گلیوں اور محلوں میں برہنہ گھومتی رہیں گی۔ غیرت کے نام پر قتل کی جاتی رہیں گی۔ کاروکاری کی بھینٹ چڑھتی رہیں گی۔ ونی ہوتی رہیں گی۔ قندیل بلوچ بنتی رہیں گی۔
اگر ہم واقعی خواتین کو مردوں کے ہم پلہ حقوق دینے، انکی ترقی و خوشحالی سے ہمکنار کرنے میں مخلص ہیں۔اگر ہم اپنی ماؤں ،بہنوں، بہوؤں ،بیٹیوں کو معاشرے میں عزت وقار دینے میں سنجیدہ ہیں تو ہمیں اپنی دوہری شخصیت ،دوہرے رویوں کو مارنا ہوگا۔ اپنی مردانگی کسی اور میدان میں دکھانی ہوگی۔ خواتین پر اپنی مردانگی کی دھاک بٹھانے کی روش تبدیل کرنی ہوگی۔اپنی انا اور برتری کے بتوں کو پاش پاش کرنا ہوگا۔ تھانہ کچہری سے سفارشی کلچر ختم کرکے بھی ہم انصاف کی فراہمی یقینی بنا سکتے ہیں۔
اس دن کے منانے کا آغاز 1910 میں منعقدہ ایک کانفرنس میں کیا گیا۔ یہ دن ان خواتین کی اپنے حقوق کے لیے کی گئی جدوجہد کے اعتراف کے طور پر منایا جاتا ہے جنہوں نے اپنے اوقات کار کوکم کرنے اور سہولیات بڑھانے کے مطالبے کے ساتھ احتجاج کیا،ریلیاں نکالیں ۔ان خواتین کی آواز کو دبانے کی حتی المقدور کوششیں کی گئیں ۔ان خواتین پر ہر طرح کا حربہ استعمال کیا گیا مگر ان چند بہادر خواتین نے ہار ماننے سے انکار کردیا اور اپنے حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھی۔
آج دنیا بھر میں خواتین کو جو حقوق حاصل ہیں وہ ان بہادر خواتین کی جدوجہد کا ثمر ہے۔ سلام ان بہادر خواتین کو جنہوں نے صنف نازک قرار دیکر ان کے استحصال کی بنیاد رکھنے والے مردوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔
ہمارے خطہ میں خواتین مردوں کے نشانہ بشانہ کام کرتے دکھائی دیتی ہیں۔ شہروں میں خواتین سرکاری اور نجی اداروں میں ملازمت کرتی ہیں اور دیہات میں خواتین شہری خواتین جنہیں ہم ورکنگ وومن کہتے ہیں ان سے کہیں زیادہ فعال ہیں اور مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں ۔کھیتوں ،کھلیانوں اور گھریلو حویلیوں میں سب کام خواتین مصروف عمل ہیں،کھیتوں سے مویشیوں کے لیے چارہ کاٹنے سے لیکر ٹوکے سے کترنے تک میں خواتین دکھائی دیتی ہیں۔
ہمارے معاشرے میں خواتین خود مردوں کی بالادستی کے آگے سرتسلیم خم کرتی ہیں اور ان کاکہنا ہے کہ گھر کے سربراہ کی حثیت سے مرد کے تابع رہنا ہی خواتین کے حق میں بہتر ہے۔ان خواتین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بعض معاملات میں مرد ان کی رائے کو فوقیت دیتے ہیں بلکہ کئی معاملات میں ان کی رائے ہی مانی جاتی ہے۔لیکن ملک میں ہمارے اردگرد ایسی غیر سرکاری تنظیمیں بھی موجود ہیں جن کے عہدے داران خواتین کے حقوق کی آواز میڈیا میں تو بلند کرتے ہیں مگر اپنی گھریلو خواتین کو غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا جاتاہے۔
آٹھ مارچ کو خواتین کا عالمی دن منانے سے خواتین کوحقوق ملنے اسے خواتین کے حقوق کی تحریک اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچی۔ابھی بہت سی چیزیں کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ترقی پذیر ممالک کے ساتھ ترقی یافتہ ممالک میں بھی اصلاھات درکار ہیں۔ پسماندگی کو دور کرنے اور دیہات کی سطح پر خواتین میں آگاہی کی تحریک چلاکر خواتین کوبا باشعور بنانے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ اس آگاہی تحریک میں مردوں کو بھی شامل کیا جائے ۔ یہ اس لیے بھی لازمی ہے کیونکہ خواتین کو مسائل مردوں کی جانب سے درپیش ہوتے ہیں۔
اگر مردوں میں شعور و آگاہی آجائے اور اگر مرد وں میں سدھار لانے میں کامیابی مل جائے تو خواتین کو سو فیصد تحفظ فراہم ہو سکتا ہے اور اقوام متحدہ کے چارٹر میں دئیے گئے حقوق کے مقاصد اور اہداف حاصل ہوسکیں گے۔اس وقت یورپی اور مغربی ممالک میں بھی خواتین کو امتیازی سلوک کا سامنا ہے، انہیں جنسی ہراسگی سمیت ہر طرح کے تشدد سے بھی نبٹنا پڑرہا ہے یہ صورتحال اطمینان بخش نہیں اقوام متحدہ کو یورپ و مغرب میں بھی خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
♦