پچھلے پندرہ سالوں سے یورپ میں مسلمان سیکولرازم کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے لیے شریعت پر مبنی قوانین کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ دہشت گرد گروہوں کی کھلے عام مذمت کرنےسے بھی کتراتے ہیں۔ ان حالات میں یورپ میں اسلام مخالف جذبات پروان چڑھ رہے ہیں۔
اسی تناظر میں جرمنی کے نئے وزیر داخلہ کہا ہے کہ اسلام جرمن ثقافت کا حصہ نہیں ہے۔ ان کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ نئی جرمن حکومت دائیں بازو کی سیاست کی طرف جا سکتی ہے۔
جرمنی میں بننے والی نئی حکومت میں وزارت داخلہ کا قلمدان سنبھالنے والے قدامت پسند سیاستدان ہورسٹ زیہوفر نے کہا ہے کہ اسلام جرمن ثقافت کا حصہ نہیں ہے۔ سیاسی مبصرین نے اس بیان پر خدشات ظاہر کیے ہیں کہ یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ جرمنی کی نئی حکومت دائیں بازو کی سیاست کی طرف مائل ہو سکتی ہے۔ گزشتہ برس نومبر میں ہوئے پارلیمانی الیکشن کے بعد جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی قیادت میں وسیع تر مخلوط حکومت نے بدھ کے دن ہی حلف اٹھایا۔
واضح رہے کہ اس الیکشن میں کٹر نظریات کی حامل اسلام اور مہاجرت مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی نے دائیں بازو کی سیاست کو نعرہ لگاتے ہی کامیابی کی تھی۔ اس پارٹی نے میرکل کی مہاجرین سے متعلق پالیسی کو کھلے عام تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے عوامی مقبولیت حاصل کی۔ اگرچہ میرکل چوتھی مرتبہ چانسلر بننے میں کامیاب تو ہو گئی ہیں لیکن مبصرین کے مطابق دائیں بازو کی سیاست کے باعث ان کی سیاسی مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے۔
اسی تناظر میں نومنتخب جرمن وزیر داخلہ زیہوفر کا یہ بیان مستقبل کی سیاست کے لیے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ جمعرات کے دن انہوں نے جرمن روزنامہ بلٹ کے ساتھ گفتگو میں کہا، ’’نہیں۔ اسلام جرمنی کا حصہ نہیں ہے۔ جرمنی کا ارتقاء مسیحیت سے ہوا ہے۔‘‘ دوسری طرف جرمن چانسلر انگیلا میرکل سن 2015 سے کہتی آئی ہیں کہ اسلام جرمنی کا حصہ ہے۔ یاد رہے کہ تاریخی طور پر پہلی مرتبہ سابق جرمن صدر کرسٹیان وولف نے سن دو ہزار دس میں کہا تھا کہ اسلام جرمنی کا حصہ ہے۔
زیہوفر نے البتہ کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو مسلمان جرمنی میں آباد ہیں، وہ اس ملک کا حصہ ضرور ہیں۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جرمن عوام اپنی روایات اور ثقافت کو چھوڑ نہیں سکتے ہیں۔ زیہوفر نے ایسی تنقید کا بھی مسترد کر دیا کہ نئی جرمن کابینہ میں تارکین وطن پس منظر والے جرمن شہریوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے، ’’کیا وزیر صحت کا عہدہ سنبھالنے کے لیے میرا ڈاکٹر ہونا ضروری ہے؟ انہوں نے مزید کہا تارکین وطن پس منظر رکھنے والے جرمنوں کے لیے یہ لازمی نہیں کہ وہ اچھے سیاست دان ہونے کے لوازمات بھی پورا کرتے ہیں۔
زیہوفر کا تعلق میرکل کی سیاسی پارٹی کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کی باویریا میں ہم خیال جماعت کرسچن سوشل یونین (سی ایس یو) سے ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ سی ایس یو کی کوشش ہو گی کہ زیادہ قدامت پسند موقف اختیار کیا جائے تاکہ ایسے ووٹرز کا اعتماد بحال کیا جائے، جو گزشتہ انتخابات میں اس پارٹی کو چھوڑ کر اسلام اور مہاجرت مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے کیمپ میں جا چکے ہیں۔
’اسلام جرمنی کا حصہ نہیں‘، ایک ایسا نعرہ ہے، جو اے ایف ڈی نے گزشتہ انتخابات کے دوران انتہائی شدت سے بلند کیا تھا۔ اے ایف ڈی نہ صرف اب جرمنی کی تیسری بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری ہے بلکہ پارلیمان میں وہ حزب اختلاف کی سب سے بڑا نمائندہ ہے۔ ہورسٹ زیہوفر نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ بطور وزیر داخلہ ایسے مہاجرین اور تارکین وطن کی ملک بدری کے سلسلے کو تیز کر دیں گے، جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
DW/News Desk
One Comment