ترتیب و تحریر : لیاقت علی ایڈووکیٹ
مسئلہ کشمیر گذشتہ 70سال سے پاکستانی ریاست اور ہر حکومت خواہ وہ سویلین تھی یا فوجی کا ایک ایسا ہتھیار رہا ہے جس کا سہارا لے کرو ہ اندورونی خلفشار وانتشار پر قابو پانے اور اپنے سیاسی مخالفین کو رگیدنے اور حصول اقتدار کی کوششیں کرتی رہی ہیں۔ قیام پاکستان کے فوری بعد اسی مقصد کے پیش نظر قبایلیوں کو مسلح کرکے کشمیر پا حملہ کرایا گیا تھا۔
کشمیر پر اس حملے کو ’جہاد‘ کا نام دیا گیا لیکن جب قبائلیوں نے بلا دریغ عورتوں اوربچوں کو قتل اور کشمیریوں کی جائداد کو برباد اور لوٹنا شروع کیا تو پاکستان کی اس وقت کی حکومت نے اس حملے سے اظہار لاتعلقی کر دیا تھا حالانکہ پاکستان آرمی کے حاضر سروس آفیسرز اس ’جہاد‘ کی کمان کر رہے تھے۔ ’جہاد‘ کی آڑ میں قبائلیوں کے اس حملہ کے پس پشت قیوم خان اور سکندر مرز ا تھے۔
قبائلیوں کے اس حملہ کا مقصد کشمیر کو آزاد کرانے سے زیادہ صوبہ سرحد کے عوام کی توجہ ڈاکٹر خان صاحب کی صوبائی حکومت کی غیر آئینی اور غیر قانونی بر طرفی سے عوام کی توجہ ہٹانا تھا ۔ چنانچہ پختون عوام کے مرکزی حکومت کے خلاف غم وغصہ کو بھارت کے خلاف موڑ دیا گیا اور کشمیر یوں پر ہونے مبینہ مظالم کی آڑ میں قبائلیوں کو مسلح کرکے کشمیر میں داخل کر دیا گیا ۔
اسی طرح آپریشن جبرالڑ کے نام پرنان سٹیٹ ایکٹرز کو وادی کشمیر میں داخل کیا گیا تھا ۔ پاکستانی حکومت کا خیال تھا کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر ی ان ’مجاہدین‘ کے حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں گے اور کشمیر پاکستان سے الحاق کا اعلان کردے گا لیکن یہ امید بھی پوری نہ ہوئی اور بھارتی کشمیر کے عوام نے ان در اندازوں کو پکڑ کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے کر دیا تھا۔
کشمیر کو نان سٹیٹ ایکٹر ز کی مسلح کاروائیوں کے ذریعے آزاد کرانے کی اس حکمت عملی بارے راؤ رشید نے اپنی سوانح عمری ’جو میں نے دیکھا‘ میں بھی بیان کیا ہے ۔ راؤ رشید انسپکٹر جنرل پولیس تھے۔بھٹو کے بہت قریب تھے۔ جب جنرل ضیا نے 1977 میں مارشل لا نافذ کیا تو راؤ رشید نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر لیں لیکن بھٹو سے لا تعلقی کا اظہار نہیں کیا تھا۔ جب 1988 میں بے نظیر بھٹو بر سر اقتدار آئیں تو وہ ان کے مشیر مقرر ہوئے تھے۔ راؤ رشید کی یہ خود نوشت یک طویل انٹر ویو کی شکل میں منیر احمد منیر نے ریکارڈ کی تھی اور مئی 1985 میں اسے مکتبہ آتش فشاں نے شا ئع کیا تھا۔
’’ سنہ1957 میری پوسٹنگ بطور انسپکٹر جنرل پولیس آزاد کشمیر ہوگئی۔کچھ عرصہ بعد وہاں اچانک کشمیر لبریشن موومنٹ کا اعلان ہوگیا۔ کشمیر کی آزادی کا جو پلان دیا گیا تھا اس کے تحت نہتے لوگ سیز فائر لائن پار کرکے مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوجائیں گے۔وہ بے شک وہاں گرفتار ہوجائیں لیکن اتنی تعداد میں جائیں کہ مقبوضہ کشمیر کی آبادی (ان کی حمایت میں) اٹھ کھڑی ہواور حالات اس قدر بگڑ جائیں کہ بھارتی حکومت مجبور ہوجائے اور اسے کچھ نہ کچھ سمجھوتہ کرنا پڑے۔یہ تجویز تو بہت اچھی تھی اگر اس میں نیک نیتی شامل ہوتی ۔ میں نے بطور آئی۔جی پولیس پالیسی بنائی کہ جو دستے سیز فائر لائن کراس کرنے کے لئے آتے انھیں گرفتار کرکے جیلوں میں بند کرنے کی بجائے گاڑیوں میں ڈال کر پندر ہ بیس میل دور ادھر اُدھر چھوڑ دیتا،مانسہرہ،بالا کوٹ وغیرہ۔ ان بیچاروں کو پید ل واپس آنا پڑتا۔ پہاڑی لوگوں کو پہاڑوں پر بیشک دن بھر چلائیں سڑک پر وہ نہیں چل سکتے ان کے لئے یہ بہت بڑی مصیبت ہوتی ہے۔دو دن میں کشمیر لبریشن کی یہ تحریک ختم ہوگئی۔
صدر پاکستان سکندر مرزا اس وقت نتھیا گلی میں مقیم تھے۔آئی۔جی پنجاب اے ۔بی اعوان نے وہیں سے مجھے آزاد کشمیر فون کیا کہ آکر مجھے ملو میں مری پہنچا تو مجھے پوچھنے لگے بھئی آزاد کشمیر کی کیا صورت حال ہے ؟ میں نے کہا کہ صورت حال کنٹرول میں ہے۔مجھے کہنے لگے کیا مطلب؟میں نے بتایا کہ (سیز فائر لائن پار کرنے کے لئے آنے والے) رضا کاروں کے ساتھ ہم نے اس طرح سے( سلوک)کیا اور دودن میں موومنٹ ختم ہوگئی تو وہ کہنے لگے کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ نے موومنٹ ختم کر دی ہے؟۔میں نے کہا کہ مجھے تو یہی حکم ملا ہے کہ اس موومنٹ کو ختم کرنا ہے۔
کہنے لگے نہیں ،میں تو نتھیا گلی پریذیڈنٹ سے مل کے آیا ہوں وہ تو کہہ رہے تھے کہ (چوہدری)غلام عباس بکواس کرتا تھاکہ وہ اس موومنٹ کو مہینوں چلائے گا ،اتنے لاکھ رضاکار دے گا اور یہ تو دو دن میں ختم ہوگئی ۔اعوان صاحب نے کہا کہ صدر اس بات سے بہت ناراض تھے۔ اس وقت میں یہ سمجھا کہ یہ بھارت پر اثر ڈالنا چاہتے تھے اس لئے نالاں ہیں کہ یہ موومنٹ اتنی جلد ہی کیوں ختم ہوگئی لیکن اصل بات کا مجھے بعد میں پتہ چلا اور وہ ایک سازش تھی جس میں صدر پاکستان میجر جنرل سکندر مرزا، بری فوج کے کمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خاں،کشمیر ی لیڈر چوہدری غلام عباس اور صدر کے سیکرٹری قدرت اللہ شہاب شامل تھے۔
راؤ رشید کہتے ہیں کہ سکندر مرزا سول گورنمنٹ ڈسمس کرکے ملک کا مختار کل بننا چاہتے تھے ۔ انھوں نے خان آف قلات سے ہم مشور ہ ہوکر قلات میں گڑ بڑ کرائی لیکن اس پر بہت جلد ہی قابو پالیاگیا۔ سویلین حکومت کو برطرف کرنے کی یہ سازش ناکام ہوگئی۔ قلات سے ناکام ہوکر انھوں آزاد کشمیر کا رخ کیا ۔ اس وقت آزاد کشمیرکے صدر سردار ابراہیم تھے۔ وہ چوہدری غلام عباس کی مخالف پارٹی کے تھے۔چوہدری غلام عباس کی خواہش تھی کہ کسی طرح سردار ابراہیم کو ناکام کرکے صدارت سے نکالا جائے۔اُدھر مرکز میں فیروز خان نون وزیر اعظم تھے وہ سردار ابراہیم کو سپورٹ کرتے تھے۔چنانچہ سکندر مرزا نے چوہدری غلام عباس کو پکڑا اورقدرت اللہ شہاب کے ذریعے ،کیونکہ شہاب صاحب چوہدری صاحب کے خاص معتمد تھے، بہت ہی خاص، دونوں جموں کے تھے۔
سازش یہ تیار کی گئی کہ آزاد کشمیر میں حالات اس قدر خراب کر دیئے جائیں کہ ان پر قابو اپنے میں حکومت پاکستان ناکام ہو جائے۔پھر سکندر مرزا سردار ابراہیم کو ڈسمس کر دیں گے اور اُدھر پاکستان میں بھی ایمر جنسی نافذکرکے اور سویلین حکومت کو ڈسمس کرکے خود ڈکٹیٹر بن جائیں گے چنانچہ اسی ضمن میں کشمیر لبریشن موومنٹ کا اعلان ہوا کہ جتھے سیزفائر لائن کراس کرکے مقبوضہ کشمیر جائیں گے۔ چوہدری غلام عباس نے سکندر مرزا اور ایوب خاں کو یقین دلایا کہ وہ اتنے لاکھ آدمی بھیجیں گے۔اصل سازش تو آزاد کشمیر میں گڑ بڑ پید ا کرنے کی تھی لیکن اعلان یہ کر چکے تھے کہ وہ رضا کار سیز فائر لائن کراس کرکے مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوں گے۔اس ضمن میں سکندر مرزا اور ایوب خاں نے چوہدری صاحب کو یقین دلایا کہ آپ گھبرائیں نہیں ہم آپ کو سیز فائر لائن کراس نہیں کرنے دیں گے لیکن آزاد کشمیر میں جذبات ابھاریں گے۔
اس وقت کرنل یوسف کشمیر افیئرز کے انچارج ہوگئے تھے ۔راولپنڈی میں بیٹھتے تھے۔کراچی میں میٹنگ ہوئی ۔ اس میٹنگ میں سردار ابراہیم اور کرنل یوسف بھی شریک بھی تھے۔وہاں فیصلہ یہ ہوا کہ جو جتھے سیز فائر لائن کراس کرنا چاہیں گے پاکستان گورنمنٹ انہیں روکے گی نہیں۔ وہ جاتے ہیں تو جاتے رہیں کیونکہ اگر روکیں گے تو آزاد کشمیر میں گڑ بڑ ہوگی ۔یہ تجویز ( وزیر اعظم )فیروز خان نون کی تھی اور فیروز خان نون سردار ابراہیم کے ساتھ تھے۔اس فیصلے پر سکندر مرزا اور جنرل ایوب خاں بہت گھبرائے کہ ہم انتا اعلان کر چکے ہیں اب تو جانا ہی پڑے گا۔
پہلا جتھہ سردار عبدالقیوم نے لیڈ کرنا تھا کہ وہ سیز فائر لائن کراس کرکے مقبوضہ کشمیر میں جائیں گے ۔ہمیں آرڈر تھا کہ جاتے ہیں تو جانے دیں لیکن سکندر مرزا اور ایوب خاں نے چوہدری غلام عباس کو یقین دلایا تھا کہ ہم نہیں جانے دیں گے ۔اب سردار عبد القیوم پہلا جتھہ لے کر چلے اور بجائے سیز فائر لائن کراس کرنے کے اس کے ساتھ چلنا شروع کردیا۔وہ اس امید میں تھے کہ پولیس آکے انہیں روکے۔
دیکھئے اس ملک میں کیا کیا سازشیں ہوتی رہیں۔اب سگنل یہ آیا کہ ٹھیک ہے ،سویلین گورنمنٹ کا فیصلہ ہے کہ انہیں روکیں گے نہیں لیکن سیز فائر لائن پر پاکستانی فوج متعین ہے۔اگر یہ لوگ کراس کرکے مقبوضہ کشمیر چلے گئے اور وہاں ان پر گولیاں چلیں اور یہ مر گئے تو ہماری فوج بڑی مشتعل ہوگی ،اس سے تو جنگ چھڑ جائے گی ۔ اس لئے فوج نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ان کو روکے ۔ سویلین حکومت کے فیصلے کے خلاف فوج نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ انہیں روکے گی چنانچہ انہوں نے سردار قیوم کا پیچھا کیا ۔ سردار قیوم تو پہلے ہی انتظار میں تھے کہ کوئی آکے انہیں روکے اور فوجی سردار صاحب کو لے آئے۔
اچھا اب فوج کی ذمہ داری تھی کہ وہ ان کو روکے گی تو جناب جتھے پہ جتھے آنے شروع ہو گئے۔مطلب تو ان کا آزاد کشمیر میں گڑ بڑ پیدا کرنا تھا لیکن ہمیں کچھ پتہ نہیں پس پردہ کیا ہورہا ہے۔پھر ہمیں حکم مل گیا کہ تم لوگ بھی انہیں آگے مت جانے دو۔میں بتا چکا ہوں کہ کس طرح انہیں گاڑیوں میں بھر کے پندرہ بیس میل دور چھوڑ آتا تھا اورموومنٹ جلد ہی ختم ہوگئی۔
ہاں جب یہ تیاریاں ہورہی تھیں تو سکندر مرزا نتھیا گلی پہنچ گئے۔وہاں انھوں نے امریکہ،برطانیہ اور مغربی جرمنی کے سفیروں کو بلا لیا کہ آپ وہاں آکر ٹھہریں۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ وہ سارا شور شرابہ سفیروں کو دکھائیں گے کہ دیکھو یہ حالت ہے تاکہ وہ جب وہ سول گورنمنٹ کو ڈسمس کرکے اپنے آپ کو ڈکٹیٹر لائے گا تویہ تینوں حکومتیں اس کا ساتھ دیں گی اور اسے فوری طور پر تسلیم کر لیں گی۔دوسرے تیسرے دن مجھے پتہ چلہ کہ بریگیڈئیر نوازش اور قدرت اللہ شہاب خفیہ طور پر آئے تھے اور انہوں نے چوہدری غلام عباس کی پارٹی کے ایک صاحب ہوتے تھے سلہریا ان کے ساتھ کھانا کھایا اور چلے گئے اور سکندر مرزا کو جاکے بتایا تھا کہ وہاں تو کچھ بھی نہیں ۔
چوہدری غلام عباس نے سکندر مرزا اور جنرل ایوب خان کو بتایا تھا کہ میں اتنے لاکھ رضا کار لے آوں گا جیلوں میں جگہ نہیں رہے گی اور یہ کہ پاکستان کے ان علاقوں سے جہاں کشمیر ی آباد ہیں رضا کار بھیجوں گا ،مثلاسیالکوٹ، لاہور اور گوجرانوالہ ۔اس نے پتہ نہیں کتنے لاکھ تعدا بتائی لیکن وہ موومنٹ تو دو دن میں ٹھنڈی پڑگئی اور سکندر مرزا کی ساری ساری سکیم دھری کی دھری رہ گئی اور اسے چوہدری غلام عباس پر بڑا غصہ آیا ،چنانچہ اسے پکڑ کر لے آئے۔پہلے تو خیال تھا کہ اس کو سکندر مرزا سے ملوائیں گے لیکن سکندر مرزا نے کہا کہ میں اس دیوس سے نہیں ملتا۔اسے جیل میں بھیج دو۔ چنانچہ چوہدری غلام عباس کو منٹگمری ( ساہیوال) جیل بھیج دیا گیا اور سکندرمرزا غصے میں نتھیا گلی میں اپنا پروگرام ختم کرکے واپس کراچی چلے گئے۔یوں سکندر مرزا کی قلات میں گڑبڑ کی آڑ میں مارشل لا لگانے کی یہ دوسری سکیم بھی فیل ہوگئی۔
پاکستان کی کشمیر پالیسی ایسی ہی سازشوں کی داستان ہے۔
♦