نقیب اللہ محسود کا اہلِ وطن کے نام دوسرا خط


محمد حسین ہنرمل

امید ہے آپ سب کا مزاج بخیر ہوگا ۔ میں نے فردوسِ بریں سے اپنا پہلا والا نامہ دوماہ قبل بھیجا تھاجو سوشل میڈیا والوں کے نام تھا ۔ اب کی بار یہ نامہ ہر اُس پاکستانی کے نام ارسال کیاجارہاہے جو حساس دل کا مالک ہو ۔ ارضِ وطن سے یہاں آئے ستر دن سے زائد کا عرصہ بیت گیاہے ۔ 

میری روح یہاں سکون سے ہے لیکن اس کے باوجود جو بات میری روح کو وقتاً فوقتاً مضطرب کیے رکھتی ہے وہ میرے اور سینکڑوں پاکستانیوں کے قاتل راوانوارکے بارے میں یہاں پہنچی ہوئی ایک افسوس ناک خبر ہے۔ اس تازہ خبر نے میرے یقین کی خوب دھجیاں اڑادی ہے ۔ خبریہ ہے کہ میرے اورسینکڑوں دوسرے شہداء کے سفاک قاتل راو انوار کو پچھلے دنوں اعلیٰ عدلیہ میں بہت شاہانہ اور قابل رشک انداز میں پیش کیا گیا تھا ۔

ایک سینیئر صحافی کے اس بیان نے توہم شہداء کی روحوں پر مزید بجلیاں گرادیں جب انہوں نے آنکھوں دیکھا حال کچھ ان الفاظ ذرائع ابلاغ کو جاری کیاکہ ’’راو انوار کو پارکنگ کے پیچھے والے دروازے سے لایا گیا جوکہ میں نے گزشتہ 9 سالوں میں صرف سابق چیف جسٹس ناصرالملک کیلئے کھلتاہوا دیکھا ہے ۔ اس صحافی نے مزید انکشاف کرتے ہوئے لکھاہے کہ ہم معمول کی طرح سپریم کورٹ میں موجود تھے کہ اچانک ہمارے ذرائع نے بتایا کہ سپریم کورٹ کی سیکورٹی کسی وی آئی پی موومنٹ کی وجہ سے سخت کردی گئی ہے جس کے بعدہم باہر آئے اور محسوس ہوا کہ کوئی بڑی شخصیت آنے والی ہے ۔ پھر ان کی گاڑی سپریم کورٹ کے اندر آئی اور حال یہ ہے کہ اس سے قبل میں نے صرف تین گاڑیاں ہی آج تک سپریم کورٹ کے احاطے کے اندرآتی ہوئی دیکھی ہیں ‘‘۔

بے شک بعض اوقات خبر جھوٹی بھی ہوتی ہے یا تواتر کی بجائے خبر واحدکے درجے میں ہوتاہے لیکن مذکورہ خبر ایک حساب سے خبر متواتر سے بھی قوی ہے ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اس سفاک قاتل کا حاضری کے بعد ویڈیو ٹیپ بھی سامنے آئی ہے جو سماجی میڈیا پر زیرگردش ہے ۔ اس ویڈیو میں جس کروفر اور کبریانہ انداز میں ہم لوگوں کا یہ قاتل دکھایا گیا ہے ، اس پر ہماری روحیں پریشان ہیں ۔ یہ خبر بھی سننے کو ملی ہے کہ انہوں نے نہایت فخریہ انداز میں قاضی القضاۃکا سامناکیا اور انکوائری کمیٹی میں اپنے منہ مانگے طاقتور مخلوق کو شامل کرنے کا بھی مطالبہ کیاتھا ۔

اللہ نہ کرے کہ اس ملک کی عدالتوں پر سے لوگوں کا اعتمادکیوں اٹھ جائے ۔ خدا کرے کہ اس ملک کی اس واحد ادارے کے منصفین سے سرزد ہونے والی غلطیاں دوبارہ نہ دہرائی جائیں ۔ میں اپنے بوڑھے والد کے ظرف کو بھی سلام پیش کرتاہوں جنہوں نے عدالت کے باہر یہ دل برداشتہ ہونے کی بجائے کہا’ ’ وہ عدالت کا شکریہ اداکرتے ہیں اور اس ادارے پر ان کا بھروسہ ہے کہ ان کو انصاف یہیں سے ملے گااور ہم پرامن لوگ ہیں اور کسی کو نقصان نہیں پہنچائیں گے ‘‘۔ 

ابھی تو چند دن پہلے ملک کے ایک انگریزی جریدے نے اس سفاک قاتل کے بارے میں یہ انکشاف بھی کیاہے کہ ریاست کا یہ اثاثہ شہر قائد کی لینڈ مافیا کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے ۔ لوگوں کی زمینوں کو غصب کرنے والے اس مافیا کو معلوم تھا کہ جب تک ریاست کے اس اثاثے کی حمایت انہیں حاصل ہوگی ، تب تک کوئی مائی کا لال بھی ان کا بال بیکا نہیں کرسکتا ۔ مجھے اب یہ بات بھی سمجھ آئی ہے کہ راو انوار جیسے قاتلوں کو جس طرح جعلی پولیس مقابلوں کے اجازت نامے دیئے جاتے ہیں تو انہیں یہ باور بھی کرایا جاتاہے کہ 

پہ شا چی نہ شے ھرسہ کوہ، چی موژ ژوندی وو ، بریت تاو وہ
(
مت ڈرنا ، جوکچھ کرناہے، کرلیں ۔ جب تک ہم زندہ رہیں گے ، تب تک مونچھوں کوخوب تاو دیاکرو ) ۔

فردوسِ بریں میں قیام کے باوجود میری روح کو ایک اور طرح کی تکلیف یہ ہورہی ہے کہ میرے جانے کے بعد میرے دیگر ساتھی بھی چن چن کر مارے جارہے ہیں ۔ مجھے امید تھی کہ میرے پاک لہو بہانے والوں کو اس دیس میں رہنے کیلئے مزید رہنے کو جگہ نہیں ملے گی لیکن ڈی آئی خان میں میرے قریبی دوست آفتاب محسود کوشہید کرنے کے بعد چند دن پہلے مانیال محسود کوبھی کراچی میں شہید کردیا گیاہے ۔ میری ہجرت کے بعد میرے لہو سے پھوٹنے والی تحریک کے بارے میں بھی مختلف قبیح قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں جس سے بھی میری خوب روح گھائل ہوئی ہے ۔ نوجوانوں کی یہ تحریک دراصل اُن سب مظلوموں کی وہ سچی آواز ہے جو ظالموں کے جعلی مقابلوں کے خلاف بلند ہورہی ہیں ۔

ان آوازوں کو لسانیت اور علاقیت پر مت قیاس کیجیے کیونکہ یہ پشتونوں کے ساتھ ساتھ اُس ہزارہ برادری کی بھی زبان بن گئی ہے جو ایک ایک خودکش حملے کے دوران بیک وقت سو کے قریب اپنے پیارے کھوچکے ہیں ۔ یہ آوازیں ان بلوچوں کی بھی نمائندگی کررہی جن کے جگر گوشے بھی ایسی ہی تاریک راہوں میں چل بسے تھے ۔کراچی کے صدر اور سہراب گوٹھ سے خیبر تک انسانوں کا یہ ٹھاٹھیں مارتاسمندر اُن اردو بولنے والوں کی بھی وکالت کررہا ہے جو دہشت گردی کی آڑ میں چوہدری اسلم اور راو انوار کے پولیس مقابلے کی بھینٹ چڑھے ہیں ۔ 

اے اربابِ حل وعقد ! خدارا! ان آوازوں کو ہندوستانی ’’را ‘‘ اور افغان ’’ این ڈی ایس‘‘ کی غمازی کرنے والی آوازیں مت تصور کیجیے ۔ اے حکمرانو! اے حاکمو ! اور منصفو ! ، یہ آوازیں چیک چیخ کر پکار رہی ہے کہ انہیں کم ازکم وہ تسلیم شدہ حقوق دے دیں جن کی فراہمی کی سفارش اس ملک کے آئین نے کی ہے ۔ یہی چند شکوے آپ لوگوں کا گوش گزارکرانے کے بعد میں آپ سب لوگوں سے اجازت چاہتا ہوں ، لیکن ایک بات یاد رکھنا کہ’’ جب تک یہ جعلی مقابلے جاری رہینگے اور راو انوار گروپ شاہانہ انداز میں عدالتوں کا بغیر کسی خوف کے سامنا کرتا رہے گا ، اس وقت تک ہم شہیداء کی روحوں کو مکمل سکون نہیں ملے سکے گی۔ گر ہمیں سکوں دلانا چاہتے ہو تو ڈٹے رہیے اورظلم کی لڑکڑاتی ہوئی اس بوسیدہ دیوار کوایک دھکا اور دو ۔ 
آپ کا بھائی
نقیب اللہ محسود 

One Comment