میرے گاؤں میں کئی مسجدیں اور دو سکول ہیں ایک سکول میں چوہدری کی گائیں بندھی ہوتی ہیں اور دوسرے میں صبح سے دوپہر دو بجے تک گاؤں کے معصوم بچے پڑھتے ہیں ۔
اساتذہ یہ جانتے ہیں کہ بچوں کی شرارتوں سے تنگ آکر والدین اپنے بچوں کو سکول بھیجتے ہیں لہٰذا وہ پہلے وقتوں کے اساتذہ کی مانند بچوں کو پڑھانے میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتے ہیں البتہ وہ اپنی تنخواؤں اور دیگر مراعات بڑھانے کے لئے ہر دوسرے یا تیسرے روز اخبارات کو خبریں بھیجتے ہیں یا پھر ہڑتال کی کال دے دیتے ہیں۔
چونکہ مہنگائی ہوگئی ہے اور امام کو اپنے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی کفالت بھی کرنی ہے لہٰذا اب مسجد میں بچوں کو قرآن پاک پڑھانے کی فیس بھی لی جاتی ہے اور مسجد کو ہمیشہ ادھورا رکھا جاتا ہے تاکہ مسجد کی تعمیر کا سلسلہ جاری رہے اور امام مسجد کا بھی کام چلتا رہے۔
میرے گاؤں کے بڑے بازار میں ایک بڑی مسجد ہے جو کہ جاگیردار کے مکان کی مانند خوبصورت بھی ہے اس کے قریب ایک کارخانہ بھی ہے لہٰذا مولوی ہر جمعہ کے خطبے میں محنت کشوں کو صبر اور کم تنخواہ پر گزارہ کرنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں پچھلے سال فیکٹری کے مالک نے اپنی جیب سے پیسہ دیکر امام صاحب کے بیٹی کی شادی کرادی تھی اور امام کو یہ یقین دھانی بھی کرادی تھی کہ وہ آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رکھیں گے۔
چنانچہ جب بھی مالک اور مزدوروں کا بونس یا اجرت میں اضافہ پر بات چیت کا سلسلہ چلتا ہے اور مولوی جی کو معلوم ہوجاتا ہے تو وہ صبر ایوب کے قصے بڑے ہی دل نشین انداز میں سنانے لگتے ہیں اور دنیا کے فانی ہونے پر ایسے لکچر دینے لگتے ہیں کہ مزدوروں کو اپنی ساری جدوجہد بے کار نظر آنے لگتی ہے۔
میرے گاؤں میں ملک کے دیگر علاقوں اور حصوں کی طرح انتخابات بھی ہوتے ہیں کبھی ایک تو کبھی دوسرا چوہدری ان میں کامیاب ہوجاتا ہے یہ چوہدری انتخابات کے موقع پر لڑتے بھی ہیں لیکن ان کی لڑائی میں دونوں اطراف سے غریب ہی مرتے اور زخمی ہوکر ہسپتال جاتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں اور پھر دونوں چوہدری اپنے جیالوں کی عیادت کے لئے ہسپتا ل بھی پہنچ جاتے ہیں اور ان کے لواحقین کو کچھ پیسہ بھی دیتے ہیں ایسے موقع پر ہر ایک کی زبان پر ہوتا ہے کہ چوہدری اپنے بندوں کا کتنا خیال رکھتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہمارے چوہدری کا سایہ ہم پر سایہ فگن رکھے ۔
چوہدری لوگ انتخابات لڑتے ہیں قومی اور صوبائی اسمبلی پہنچتے ہیں غریب لوگ ان کو ووٹ دیتے ہیں کامیابی کی دعائیں مانگتے ہیں چونکہ غریب انتخابات نہیں لڑسکتے لہٰذا وہ صرف اور صرف ووٹ دیتے ہیں کھیتوں میں کام کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں (تبدیل کرنا ہے)۔
انتخابات کے موقع پر ہر چوہدری اپنے مکینوں سے وعدے کرتا ہے اور کامیاب ہونے پر بھول جاتا ہے کیونکہ ان کی یادداشت زیادہ عرصہ تک ان کا ساتھ نہیں دیتی ہے البتہ جو چوہدری بھی کامیاب ہوتا ہے وہ امام مسجد کو ضرور مکان پر بلاکر اس کی دعائیں لیتا ہے اور علاقہ کے پیر کے دربار میں جاکر یہ بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ عوام کے ووٹ سے نہیں بلکہ پیر کی خدمت اور دعا سے کامیاب ہوا ہے۔
میرے گاؤں میں ایک عدد پولیس تھانہ یا چوکی بھی ہے اور اس میں آفیسر کے علاوہ پانچ چھ اہلکار بھی ہیں اگرچہ عام خیال یہی ہے کہ پولیس کا کام چوروں کو پکڑنا اور چوری کی سزا دلانا ہے لیکن جب سے تھانہ بنا ہے اس روز سے چوریوں کا سلسلہ چل نکلا ہے اور چوہدری نہ صرف اپنے کارندوں سے مخالفین کو پٹواتے اور اغوا کراتے ہیں بلکہ پولیس اہلکار ان کو جیل اور قانون سے بھی ڈراتے ہیں تاکہ چوہدری یا چوہدریوں کو خوش کرکے مٹھی بھر چاول حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔
ان چوہدریوں کے ہاتھوں میں پولیس اہلکاروں کے تبادلوں اور ترقیوں کے اختیارات بھی ہیں جو اہلکار بھی ان کے احکامات پر عمل نہیں کرتا یا کرتے ہیں چوہدری اعلیٰ افسران کو فون کرکے ان کا تبادلہ دور دراز گاؤں کرادیتے ہیں یہ تبادلے بسا اوقات انگریز کے دور کے کالے پانی کی سزا کی یاد تازہ کرادیتے ہیں۔
میرے گاؤں میں دو عدد حکیم بھی ہیں اور قدیم وقتوں سے خاندانی حکیم چلے آرہے ہیں لیکن تعلیم کے فروغ اور ایک عدد ایم بی بی ایس ڈاکٹر کے آنے کے بعد ان کا کاروبار ماندپڑگیا ہے اب صرف غریب خاندان ہی ان سے علاج کراتے ہیں یا پھر پیروں کے پاس جاکر تعویز خریدتے ہیں ایم بی بی ایس ڈاکٹر چونکہ جنرل فزیشن ہے لہٰذا اس کے پاس زکام سے کینسر تک تمام بیماریوں کا علاج ہے پڑھے لکھے لڑکے جب اپنے والدین یا دوستوں کو حکیموں کے پاس علاج کی غرض سے جاتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ان کوسمجھاتے ہیں کہ علاج کا یہ پرانا طریقہ اب دیگر ممالک میں متروک ہوچکا ہے کیونکہ اس میں نہ تو ٹیسٹ ہوتا ہے اور نہ ہی ان کے پاس جدید آلات ہیں جن کی مدد سے مرض کی صحیح تشخیص کی جاتی ہے جبکہ حکیموں کا دعویٰ ہے کہ بعض بیماریوں کا صرف ان کے پاس علاج ہے جدید طریقہ علاج اپنی تمام کوششوں کے باوجود ان پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوسکا بہرحال عمر رسیدہ مرد اور چار بیویوں کے شوہر اب بھی جوانی کو تازہ کرنے کے لئے زیادہ تر حکیموں کے پاس ہی جاتے ہیں۔
جن لوگوں نے قدیم حکمت سیکھی ہے اور نہ ہی ایم بی بی ایس کیا ہے لیکن جن کی یہ شدید خواہش ہے کہ وہ بھی علاج معالجہ کے ذریعہ پیسہ کمائیں وہ عوام کو تعویز بناکر دیتے ہیں اور تعویز دیتے وقت دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے تعویزوں کی برکت سے سرطان اور ایڈز کے کئی مریض بھی صحت یاب ہوکر نارمل زندگی گزاررہے ہیں یہ اور بات ہے کہ خود بیمار ہوتے ہیں تو چھپ چھپاکرشہر سے باہر کسی ڈاکٹر سے علاج کے لئے چلے جاتے ہیں۔
حکیموں یا ڈاکٹروں کے پاس جانے والے مریض کچھ عرصہ ان سے علاج کرنے کے بعد پیروں کے پاس بھی جانے لگتے ہیں چونکہ پیر حکیموں اور ڈاکٹروں کی نسبت الفاظ سے کام لیتے ہیں لہٰذا جب مریض صحت یاب ہوجاتا ہے تو پھر وہ بھی یہی کہتا ہے کہ اسے صحت یابی پیر کی دعاؤں سے نصیب ہوئی ہے۔
میرے گاؤں میں ایک ماہر نفسیات نے بھی کلینک کھولنے کی کوشش کی تھی لیکن کچھ عرصہ گزرنے پر بوریا بستر باندھ کر بھاگ گیا کیونکہ اسے گاؤں کے ماحول، اس کی روایات اور رسموں نے نفسیاتی مریض بنادیا تھا وہ ڈاکٹر پھر کبھی میرے گاؤں نہیں آیا۔
میرے گاؤں میں پٹواری بھی ہیں اور کبھی کبھار تحصیلدار بھی آتا ہے ان پٹواریوں کا اللہ اور اس کی کتابوں پر پورا پورا یقین ہے ان بیچاروں کو ایک شخص کی زمین یا کھیت دوسرے کے نام لکھنے کے علاوہ کچھ نہیں آتا ہے لہٰذا عوام ان کی حالت زار پر رحم کھاتے ہوئے ان کو چار روپے کے فرد نمبر کے سو روپے اور زمین کی رجسٹری یا انتقال کے سات یا آٹھ ہزار روپے دے دیتے ہیں چونکہ یہ اللہ والے لوگ ہیں لہٰذا عوام کے ہاتھ عموماً ان کے سامنے ایسے جھکے اور ملے ہوتے ہیں جیسا کہ ہندو اپنے دیوتا کے روبرو عبادت کے لئے کھڑے ہوتے ہیں ۔
میرے گاؤں میں گائے، بیل ، بکریاں اور عوام بھی ہیں لیکن ان میں کوئی قابل ذکر بات نہیں کیونکہ وہ صرف بیل اور گائے یا عوام ہیں اس لئے ان میں اس کے علاوہ کوئی اور بات نہیں ہے کہ گائے اور بیل بھی کھیتوں میں کام کرتے ہیں اور عوام بھی ایسا کرتے ہیں۔
میرے گاؤں کے مولوی کا کہنا ہے کہ سادگی میں عظمت ہے سکول کی کتابوں میں بھی یہی لکھا ہے شاید اسی لئے میرے گاؤں کے باسی سیدھے سادے اور گیلی مٹی کی مانند ہیں اور یہ تو آپ کو معلوم ہوگا کہ گیلی مٹی سے جو چاہو بنالو چنانچہ پہلے انگریز ان سے الو بناتے تھے اور اب ماشاء اللہ پاکستان بن گیا ہے اپنے لوگ بناتے ہیں۔
ہم مسلمان ہیں ہمارا ایک خدا اور ایک رسولؐ پر ایمان ہے اللہ تعالیٰ ہمارے ملک پاکستان اور میرے گاؤں چھانگا مانگا، عوام اور مویشیوں کو چوہدریوں کے کھیتوں کے لئے ہمیشہ صحیح سلامت رکھے۔
♦