پشتون قوم پرست تحریک: مزاحمتی اور پارلیمانی تسلسل

خادم حسین

پشتون قوم پرست تحریک کو سمجھنے کے لئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ نو جوان اور متوسط طبقے کی قیادت میں اٹھنے والی پشتون تحفظ تحریک نے پشتون خطے میں اتنی جلدی مقبولیت کیسے حاصل کرلی۔ یہ کیونکر ممکن ہو سکا کہ پشتونوں کی اکثریت نے علاقائی جماعتی، طبقاتی اور صنفی شناخت سے بالا تر ہو کر اس تحریک کو اپنا لیا اور اسکی اخلاقی اور مالی معاونت کی۔ ایسا کیسے ہوا کہ الیکٹرانک میڈیا کی عدم کوریج کے باوجود پشتون لانگ مارچ کی آواز پشتون خطے کی گلی گلی تک پہنچ گئی۔

پشتون علاقے خطے میں بالعموم اور پاکستان کے اندر بالخصوص پچھلی کئی دہائیوں سے جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں ہیں۔ ریاست، غیر ریاست اور بین الاقوامی طاقتوں کے شطرنجی چالوں نے پشتونوں کے تشخص کو تحلیل کرنے کی کوشش کی۔ انکی ثقافت کو انتہا پسند فکر کے ذریعے پور پور توڑا گیا۔ انکے قومی وجود کو غیر منطقی اور غیر سائنسی مفروضوں کے ذریعے ڈی ہیومنائز کیا گیا۔انکے اقتصاد کو بارودی مواد سے اڑا کر اور ان کے وسائل ان سے چھین کر ان کے خطے میں ہتھیاروں، نارکاٹکس، اغوا کاری، مسلح تنظیموں، خود کش حملوں اور بم دھماکوں کا اقتصاد کھڑا کیا گیا۔ پشتونوں کو لاکھوں کی تعداد میں اپنے گھروں سے بے گھر کیا گیا۔ انکی قومی، سیاسی، جمہوری اور روشن فکر سماجی اور سیاسی جماعتوں کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی گئی۔ انکے تاریخی حافظے کو ان سے چھیننے کی کوشش کی گئی۔ انکے سماج کو وحشت ناک خوف کے ذریعے خاموش کر دیا گیا۔

ایسی صورتحال میں پشتون خطے میں جگہ جگہ، تعلیمی اداروں کے اندر اور تعلیمی اداروں سے باہر، سیاسی جماعتوں سے وابستہ اور غیر وابستہ جوانوں نے ٹولیوں کی شکل میں آپس بحث و مباحثے اور تجزیہ و تحلیل کے ذریعے ان حالات سے نکلنے اور قومی اور اجتماعی طور پر مہذب اور با عزت زندگی گزارنے کے راستے ڈھونڈنا شروع کر دیے۔ یہ مباحثے ایک عرصے تک جاری رہے یہاں تک کہ اجتماعی محرومی کے گھٹے ہوئے جذبات کو کراچی میں پشتون جوانوں کے ما ورائے عدالت قتل کو بھڑکا دیا۔ پشتون جوانوں کی خوش قسمتی یہ ہوئی کہ ان کی قومی تاریخ میں منظم سیاسی جدوجہد اور مزاحمت دونوں کا تسلسل قائم تھا۔ 

منظم سیاسی جدوجہد کی پارلیمانی سٹریٹیجی کے ذریعے پشتونوں نے قوم پرست بیانیہ، جنگی اقتصاد کی ریاستی پالیسیوں میں تبدیلی، انتظامی خود مختاری اور قومی وحدت کے اہداف کا بیانیہ بہت حد تک زندہ رکھا۔ منظم سیاسی عمل کے ذریعے ان اہداف کا حصول طویل المیعاد سٹریٹجی ہے جس کے لئے انتھک محنت کی ضرورت ہوتی ہے اور جس کے نتائج فوری طور پر نظر نہیں آتے یا بادی النظر میں واضح طور پر نظر نہیں آتے۔ دوسری طرف ریاستی اداروں کے جبر اور بد اعتمادی نے بھی ان آئینی اور پالیسی سطح کے طے شدہ اصولوں کے نفاذ میں روڑے اٹکائے۔ 

پارلیمان سے متفقہ طور پر منظور شدہ اٹھارویں ترمیم کو غیر جمہوری طریقے سے لپیٹنے کے لئے ریاستی اداروں کا سر گرم عمل ہونا اسکی واضح مثال ہے۔ لیکن اسکا مطلب قطعا یہ نہیں لینا چاہئے کہ منظم سیاسی عمل کے ذریعے پشتون قومی اہداف کے حصول کی حکمت عملی غیر نتیجہ خیز ہے اسلئے اسے ترک کر دینا چاہئے۔ چونکہ پشتون تحفظ تحریک غیر ادارتی اور غیر پیچیدہ ہے اسلئے نوجوانوں میں اسکی پذیرائی فطری امر ہے۔ لیکن اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ کوئی حادثاتی عمل ہے۔ محرکات اور تسلسل کے موجود ہونے نے اسکو جنم دیا۔ مثال کے طور پر قوم پرست بیانیہ موجود تھا تب قومی تذلیل کی بات کی جا سکتی تھی۔

نوجوان اور متوسط قیادت میں پشتون تحفظ تحریک کی پذیرائی کی ایک اور وجہ قومی تذلیل، وسائل چھیننے کے عمل اور جنگی اقتصاد کی پالیسی کے نتیجے میں قومی تشخص کو تحلیل کرنے کے لئے کئے گئے غیر انسانی، غیر آئینی اور غیر اخلاقی اقدامات سے جنم لینے والے درد اور کرب کا براہ راست اظہار ہے۔ اس اظہار نے وحشت ناک خوف کو توڑ دیا۔ جن کہانیوں کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی گء تھی ان کی سادہ اور صاف بیان نے نوجوانوں کے دلوں میں گھر کر لیا۔ وہ جو ممنوع قرار دیا گیا تھا وہ سب کچھ سر عام کہا جانے لگا۔ چونکہ یہ پشتون خطے میں قومی کرب کا اجتماعی تجربہ ہے اسلئے قبائلی، علاقائی، طبقاتی، صنفی اور جماعتی شناخت سے بالا تر ہوکرپشتون نوجوانوں کی اکثریت اس کے ساتھ جڑ گئی۔ ایک طرف پشتون قوم سازی کا عمل اور دوسری طرف جبر کے گھٹن میں مزاحمتی صدائیں۔ 

منظم پارلیمانی پشتون قوم پرست سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کا اس تحریک کی طرف کھنچنا اسلئے فطری امر ہے کہ یہ مزاحمتی تحریک انہی جماعتوں کے بیانئے اور جدوجہد کا تسلسل ہے۔ اس عمل سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غیر منطقی ہوگا کہ منظم سیاسی جماعتوں کا سیاسی عمل غیر اہم ہے یا مزاحمتی تحریک منظم پارلیمانی سیاست کا متبادل ہے۔ 

پشتون تحفظ تحریک کی پذیرائی کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ اس نے ریاست کے عمرانی معاہدے کے نفاذ کے تضادات کو سامنے لاکر رکھ دیا۔ بنیادی انسانی حقوق کی پامالی صاف اور واشگاف الفاظ میں بیان کردیا۔ فلسفہ عدم تشدد کو اپنانے کا عہد کیا گیا۔ 

اسلئے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ منظم پشتون قوم پرست سیاسی جماعتیں اور پشتون تحفظ تحریک ایک دوسرے کے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ ایک دوسرے کے متبادل نہیں، ایک دوسرے کا تسلسل، ایک دوسرے کا سبب اور نتیجہ ہیں۔ منظم پارلیمانی سیاسی عمل اور مزاحمتی تحریک کے امتزاج سے قومی حقوق کے حصول کی منزل حاصل ہو سکتی ہے۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ یہ غیر رسمی امتزاج پاکستان کی دوسری محکوم اقوام اور نسلوں کی جدوجہد کو بھی راستہ دکھائے۔ جس سے پاکستان کے اندر بنیادی انسانی حقوق کے فریم ورک کے اندر امن، مساوات اور سیاسی اختیار کے اہداف حاصل ہو سکتے ہیں۔

منظم سیاسی عمل کا غیر رسمی امتزاج عین ممکن ہے اگر ایک دوسرے کے غیر منطقی موازنہ کرنے کے رجحان ہر قابو پایا جائے۔ ایسے عناصر سے محتاط رہا جائے جو کسی پلیٹ فارم کا سہارا لیکر سیاسی جماعتوں یا مزاحمتی تحریک کو نقصان پہنچانے کے درپے ہوں۔ یہ امتزاج عین فطری ہے اگر بنیادی انسانی حقوق کے فریم ورک میں رہ کر ہر طرح کے پر تشدد رجحان سے اجتناب برتا جائے۔ 

تاریخی شعور کا تقاضا ہے کہ یہ بات سمجھی جائے کہ پاکستان کے اندر محکوم اقوام اور باالخصوص پشتونوں کو نشاۃ ثانیہ کی طرف جانا ہے یا پھر مزید تھوڑ پھوڑ کا شکار ہونا ہے۔

Twitter: khadimhussain4 

♠ 

 

2 Comments